بہاولپور کی تاریخ پر اِک نظر

میرا بچپن دو شہروں میں گزرا۔ ایک ساہیوال اور دوسرا بہاولپور میں…… دونوں شہروں کا جواب نہیں۔ بہاولپور تعلیمی میدان میں بہت آگے نکل گیا ہے۔ بہاولپور 2017ء کی مردم شماری کے مطابق آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا گیارہواں بڑا شہر ہے جس کی آبادی اس وقت 762,111 تھی، جو اَب تقریباً 10 لاکھ سے اوپر ہو چکی ہے۔ یہ زمینی رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر بھی ہے اور پنجاب کا سب سے بڑا صحرا چولستان بھی اسی سرزمین میں ہے۔
اس شہر کی تاریخ کچھ یوں ہے کہ یہ 1748ء میں قایم کیا گیا…… جو ریاستِ بہاولپور کا دار الحکومت بھی تھا…… جس پر 1955ء تک نوابوں کے عباسی خاندان کی حکومت رہی۔
یہ شہر صحرائے چولستان کے کنارے پر واقع ہے اور لال سوہانرا نیشنل پارک کے گیٹ وے کے طور پر کام کرتا ہے۔
بہاولپور تقسیمِ ہند سے قبل 584 شاہی ریاستوں میں شامل تھا۔ نور محل شہر کے حکم ران نوابوں کا گڑھ تھا۔ دربار محل کو نواب بہاول خان پنجم نے 1905ء میں اپنی بیوی کے لیے محل کے طور پر تعمیر کروایا تھا۔
ریاستِ بہاولپور مختلف قدیمی معاشروں کا گھر بھی تھا۔ بہاولپور کا علاقہ مغلیہ سلطنت کے صوبہ ملتان کا حصہ بھی رہا۔ اس میں وادیِ سندھ کی تہذیب کے کھنڈرات کے ساتھ ساتھ قدیم بدھ مت کے مقامات بھی ہیں۔
بہاولپور کے قیام سے پہلے خطے کا بڑا شہر اُچ شریف کا مقدس شہر تھا…… جو 12ویں اور 17ویں صدی کے درمیان ایک علاقائی میٹروپولیٹن مرکز تھا۔
بہاولپور کو 1748ء میں نواب بہاول خان اول نے قایم کیا تھا۔ ریاستِ بہاولپور کی بنیاد 1802ء میں نواب محمد بہاول خان دوم نے درانی سلطنت کے ٹوٹنے کے بعد رکھی تھی۔ نواب محمد بہاول خان سوم نے 22 فروری 1833ء کو انگریزوں کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے، جس میں نواب کی آزادی اور بہاولپور ریاست کی خودمختاری کی ضمانت دی گئی۔ اُس وقت آبادی کا تخمینہ 20,000 تھا…… جس میں زیادہ تر ہندوتھے۔
1833ء میں دریائے ستلج اور دریائے سندھ کو نیوی گیشن کے لیے کھول دیا گیا…… جس سے سامان بہاولپور تک پہنچا۔ 1845ء تک دہلی کے لیے نئے کھولے گئے تجارتی راستوں نے بہاولپور کو تجارتی مرکز کے طور پر دوبارہ قایم کیا۔
بہاولپور 19ویں صدی کے آخر میں ریشم کے سامان، لونگیوں اور سوتی سامان کی پیداوار کے مرکز کے طور پر جانا جاتا تھا۔ شہر کا بنا ہوا ریشم بنارس اور امرتسر کے ریشم کے کاموں کے مقابلے میں اعلا معیار کا مانا جاتا ہے۔
1866ء میں تختِ بہاولپور کی جانشینی کے بحران نے ریاست میں برطانوی اثر و رسوخ کو واضح طور پر بڑھایا…… جس کے بعد بہاولپور کو 1874ء میں میونسپلٹی کے طور پر تشکیل دیا گیا تھا۔
1887ء میں نواب آف بہاولپور نے نور محل میں ایک سرکاری تقریب میں ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی منائی۔
اس طرح1939ء میں دوسری جنگِ عظیم کے آغاز کے وقت بہاولپور کے نواب کسی شاہی ریاست کے پہلے حکم ران تھے، جنھوں نے ولی عہد کی جنگی کوششوں کے لیے ریاست کے مکمل تعاون اور وسایل کی پیشکش کی۔
اگست 1947ء میں برصغیر سے برطانوی انخلا کے بعد برطانوی ریاستوں کو پاکستان یا ہندوستان میں سے کسی ایک میں شامل ہونے کا اختیار دیا گیا۔ ریاستِ بہاولپور نے 7 اکتوبر 1947ء کو نواب صادق محمد خان عباسی پنجم بہادر کے دور میں پاکستان سے الحاق کیا۔
آزادی کے بعد شہر کی اقلیتی ہندو اور سکھ برادریوں نے بڑے پیمانے پر ہندوستان ہجرت کی…… جب کہ ہندوستان سے مسلمان مہاجرین شہر اور آس پاس کے علاقوں میں آباد ہوگئے۔
اب ضلع بہاولپور میں 6 تحصیلیں ہیں…… جن میں 109 یونین کونسلیں، 714 دیہات اور 5 میونسپل کمیٹیاں ہیں۔
بہاولپور سطحِ سمندر سے تقریباً 117 میٹر بلندی پر واقع ہے۔ یہاں کی آب و ہوا خشک ہے۔ اب بہاولپور جن اہم فصلوں کے لیے پہچانا جاتا ہے، ان میں کپاس، گنا، گندم، سورج مکھی کے بیج، سرسوں کا بیج اور چاول شامل ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ بہاولپور کے آم، لیموں، کھجور اور امرود ملک سے باہر برآمد کیے جانے والے پھل ہیں۔ سبزیوں میں پیاز، ٹماٹر، گوبھی، آلو اور گاجر شامل ہیں۔
ایک توسیع پذیر صنعتی شہر ہونے کے ناتے حکومت نے کاسٹک سوڈا، کاٹن جننگ اینڈ پریسنگ، فلور ملز، فروٹ جوس، جنرل انجینئرنگ، آئرن اینڈ اسٹیل ری رولنگ ملز، لومز، آئل ملز، پولٹری فیڈ اور چینی کی اجازت دی، جس کی وجہ سے مختلف منڈیوں میں بہاولپور نے انقلاب برپا کررکھا ہے۔
ٹیکسٹائل اسپننگ سمیت گھی اور کوکنگ آئل کی صنعتیں بھی پھل پھول رہی ہیں۔
بہاولپور اپنے قالینوں، کڑھائی اور مٹی کے برتنوں کے لیے بھی مشہور ہے۔ پنجاب حکومت نے ’’کرافٹ ڈویلپمنٹ سنٹر‘‘ قایم کیا ہے جہاں سے دست کاری کا کام خریدا جا سکتا ہے۔
مذکورہ کام زیادہ تر چولستان کے علاقے میں کیا جاتا ہے۔
بہاولپور کی 90 فی صد سے زیادہ آبادی مقامی ہے۔ اُردو کو لوگوں کی ایک بڑی تعداد بڑے پیمانے پر بولتی اور سمجھتی ہے…… جب کہ انگریزی بہت سے لوگوں کی ثانوی زبان ہے۔ یہاں پنجابی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔
پنجابی کی ڈھیر ساری بولیاں ہیں۔ سرائیکی بھی ان میں سے ایک ہے۔
یہاں دوسری بڑی بولی جانے والی زبانوں میں ’’ریاستی‘‘، ’’ماجھی‘‘، ’’باگڑی‘‘ اور ’’ہریانوی‘‘ شامل ہیں۔ یہ زبانیں مختلف اضلاع کے مطابق بولی جاتی ہیں اور ڈھیر ساری دوسری پنجابی بولیوں کا مرکب ہیں۔
بہاولپور کاچڑیا گھر 194 2ء میں قایم کیا گیا تھا…… جو 25 ایکڑ پر مشتمل ہے۔
یہاں کا خوب صورت اور تاریخی ریلوے اسٹیشن 385 فٹ کی بلندی پر واقع ہے…… جو کراچی تاپشاور مین لائن پر پاکستان ریلوے کے بڑے ریلوے اسٹیشنوں میں سے ایک ہے۔
اس طرح بہاولپور کے ’’صادق ایجرٹن کالج‘‘ کی بنیاد 1886ء میں رکھی گئی تھی۔ پہلی یونیورسٹی ’’اسلامیہ یونیورسٹی‘‘ 1925ء میں جامعۂ عباسیہ کے طور پر قایم کی گئی تھی۔
شہر کے ’’قایدِ اعظم میڈیکل کالج‘‘ کی بنیاد 1971ء میں رکھی گئی تھی۔
بہاولپور ضلع میں مجموعی طور پر 48 فی صد شرحِ خواندگی ہے…… جس میں کل 1662 اسکول اور 24 کالج ہیں۔
پاکستان کی سب سے لمبی قومی شاہ راہ ’’این فائیو‘‘ بھی شہر سے گزرتی ہے…… جو بہاولپور کو کراچی اور لاہور سے ملاتی ہے۔
بہاولپور سے تقریباً 50 کلومیٹر کی دوری پر خوب صورت لوگوں کا خوب صورت شہر ’’ہیڈ راجکان‘‘ بھی ہے…… اور اس کے ساتھ ہی میرا گاؤں ’’36 ڈی این بی‘‘ ہے جہاں کے گورنمنٹ ہائی سکول سے میں نے میٹرک کیا تھا۔ یہاں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے کوئی کالج نہیں اور نہ یہاں سے یونیورسٹی کے لیے کوئی گاڑی ہی چلتی ہے۔
علم دوست شخصیت ڈاکٹر اطہر محبوب ہیڈ راجکان درخواست ہے کہ وہ یونیورسٹی کی بس سروس شروع کرکے یہاں کے بچوں کا مستقبل روشن کردیں…… جب کہ کمشنر بہاولپور راجہ جہانگیر انور جیسی خوب صورت شخصیت سے اس علاقے کے لوگوں کو ڈھیر ساری امیدیں وابستہ ہیں۔ عوام چاہتے ہیں کہ وہ انھیں ایک کالج دے دیں…… اور پھر رہتی دنیا تک آپ کے نام کا ڈنکا بجتا رہے۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے