یہ بات صحیح ہے کہ کسی بھی ریاست کی تشکیل کسی نہ کسی آئین سے وابستہ ہوتی ہے اور آئین وہ مقدس دستاویز کہلاتا ہے کہ جس میں مختلف اشخاص، اقوام اور برادریوں کے درمیان ایک عمرانی معاہدہ کیا جاتا ہے۔ عمومی طور پر اس کو تحریر کر دیا جاتا ہے۔ یہ آئین بہرحال حرفِ آخر نہیں ہوتا بلکہ وقت اور حالات کے تحت اس میں تبدیلی کی جاسکتی ہے۔ پھر اسی آئین کو مرکز مان کر روزانہ کے معاملات کو طے کرنے کے لیے اس کے نیچے قوانین کا اجرا کیا جاتا ہے۔ کسی بھی آئین و قانون کا اجرا ریاست بذریعہ حکومت کرتی ہے۔ اس کا اولین مقصد ریاست میں موجود شہریوں کی نہ صرف جان و مال عزت کا تحفظ ہوتا ہے…… بلکہ ریاست اپنے شہریوں کی زندگیوں کو خوش حال اور پُرسکون بنانے کی بھی کوشش کرتی ہے۔ لیکن یہ بات مدِنظر رہے کہ بہترین سے بہترین قانون اور آئین بھی اس وقت تک کارآمد نہیں ہو سکتا کہ جب تک اس ملک یا ریاست کے عمومی شہری اس کا احترام نہ کریں…… یا اس کو اہمیت نہ دیں۔
کسی بھی آئین و قانون کو پُراثر بنانے کے بہرحال دو ہی طریقے ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ قانون اپنی اتھارٹی اور اختیار کو بہ زورِ طاقت نافذ کرتا ہے اور اس کی خلاف ورزی کو برداشت نہیں کرتا…… لیکن تجربہ سے ثابت ہوا کہ خالی طاقت کی بنیاد پر اس کو وسیع پیمانے پر نافذ کرنا بہت ہی مشکل امر ہے۔
اس کا دوسرا طریقہ ہوتا ہے قوم کا اخلاقی رویہ…… یعنی ریاست میں موجود تمام اشخاص یا کم سے کم ان کی ایک بہت بڑی قابلِ ذکر اکثریت خود پر اخلاقی پابندی لگا دیتی ہے کہ ہم نے قانون کو ماننا ہے…… بلکہ اکثر ترقی یافتہ ملکوں میں تو اس کی سکول سے تربیت دی جاتی ہے اور وہ لوگ قانون سے ہٹ کر بھی خالصتاً انسانی اخلاقی روایات کے پاس دار بن جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ریاست اپنے معمول کے اخراجات و ترقیاتی کاموں کے لیے عوام پر ٹیکس لگاتی ہے، تو وہاں عوام کی اکثریت ٹیکس چوری کرنا تو دور…… یہ سوچ کر مکمل ایمان داری سے ٹیکس ادا کرتی ہے کہ ریاست کی بہبود اور عوام کی خوش حالی کے لیے یہ ان کی اخلاقی ذمے داری ہے کہ وہ اس میں اپنا حصہ ڈالیں۔
اسی طرح دوسرے بہت سے معاملات ہیں کہ جہاں لوگ قانون سے ہٹ کر خود ہی تعاون کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ مثلاً پچھلے دنوں مَیں نے کہیں پڑھا کہ آسٹریلیا جیسے نسلی تفاخر سے بھرپور ملک کے ایک شہر برسبین میں رمضان کے دنوں میں مارکیٹ کا مالک جو ایک سفید النسل گورا ہے، کھانے پینے کی چیزوں کو سستا کر دیتا ہے، تاکہ وہاں مقیم مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت اس سے استفادہ کرسکے۔ اس طرح کے بے شمار واقعات جیسے کرسمس پر چیزوں کی سستی فراوانی یا کسی ہنگامی حالات میں عوام کو ریلیف براہِ راست عوام ہی کی جانب سے، حکومتی اقدامات اپنی جگہ…… لیکن مجھے بہت افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ کلچر بالکل نہیں…… بلکہ ہم اس کے الٹ چلتے ہیں۔ اس قسم کے مواقع جیسے رمضان یا کسی ہنگامی صورتِ حال میں ہم بجائے عوام کو فایدہ دینے کے ان کو لوٹنے کے نت نئے طریقۂ کار تلاش کرتے ہیں۔ یہ ہمارا ذاتی مشاہدہ ہے کہ رمضان کے دنوں میں ہم حکومت کی طے شدہ قیمتوں کے مقابل ہر چیز کی قیمت دوگنی تین گنی کر دیتے ہیں۔ یہ کالم لکھنے کی وجہ بھی نئی صورتِ حال کے کچھ مشاہدات بنے۔مثال کے طور پر کچھ بین الاقوامی وجوہات یا یہ کَہ لیں کہ حکومت کی نا اہلی و خود غرضی کی وجہ سے پٹرول کی قیمت یک دم بہت زیادہ کر دی گئی۔ فطری طور پر اس کا اثر ہر چیز کی قیمت پر پڑا، بشمول بجلی اور پٹرول کے۔ لیکن ہم نے عوامی سطح پر کیا کیا کہ اگر ایک چیز کی قیمت میں حالات کے تحت یعنی پٹرول اور بجلی کے مہنگا ہونے اور ڈالر کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے اگر پانچ روپیا کا جایز اضافہ بنتا تھا، تو ہم نے اس آڑ میں پانچ کی بجائے پچیس روپیا کا اضافہ کر دیا۔ اس پر بھی ہماری ہوس کو سکون نہ ملا، تو موقع کی مناسبت سے وہی چیز کسی کو پچیس اور کسی کو تیس کی دینا شروع کر دی۔
اسی طرح کی ایک اور مثال ہے جس کا ایک اہم جز پبلک ٹراسپورٹ کے کرایہ جات ہے۔ ٹیکسی والوں نے جہاں دس کا اضافہ کرنا تھا، وہاں سو کی طلب شروع کردی اور زیادہ ظلم ویگن سوزوکی اور بس جیسے خالصتاً غریب کی سواری کے مالکان نے شروع کر دیا۔ چوں کہ پٹرول کی قیمتوں میں اب بھی بہرحال عدمِ استحکام ہے، تو اس وجہ سے انتظامیہ شاید ابھی تک کوئی واضح پالیسی دینے میں ناکام ہے۔ کرایہ ناموں کا اجرا نہیں کیا جا رہا، لیکن اس کا فایدہ گاڑیوں کے مالکان بہت ظالمانہ طریقہ سے اٹھا رہے ہیں۔ پھر حد یہ ہے کہ وہ کم یا زیادہ اس کو فکس بھی نہیں کر رہے۔ شہر سے کسی قریبی قصبہ کا کرایہ ایک گاڑی والا سو روپیا لے رہا ہے، تو دوسرا ایک سو بیس، تیسرا پچاسی۔ یعنی بھیڑ چال ہے اور لوگوں کو لوٹنے کا مکمل منصوبہ۔ اخلاقی طور پر ان کو یہ احساس ہی نہیں کہ مہنگائی سے ستائے ان کے اپنے بہن بھائی ہی براہِ راست متاثر ہو رہے ہیں…… اور وہ یہ ظلم اور دھوکا کر کے بے شک ﷲ کے ہاں تو مجرم بن ہی رہے ہیں کہ جس کا حساب ان کو ایک دن بہرحال دینا ہوگا…… لیکن وہ بے شمار غربا کی بدعائیں بھی سمیٹ رہے ہیں اور لوگوں کی مشکلات میں اضافہ کرنے کا باعث بن رہے ہیں…… مگر مجال ہے کہ ان کو اس بات کا احساس تک بھی ہو…… بلکہ وہ اس کو اپنا حق سمجھ کر کرتے ہیں۔ اگر ان کو احساس دلانے کی کوشش کی جائے، یا اس پر احتجاج کیا جائے، تو کبھی یہ بات تسلیم نہیں کرتے…… بلکہ سارا الزام بڑھتی ہوئی ڈیزل کی قیمتوں اور حکومت پر لگا کر خاموش ہو جاتے ہیں۔ حالاں کہ ان کو خود اندر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں…… لیکن بات وہی ہے کہ احساسِ ندامت یا ضمیر کی خلش نام کی چیز ہی نہیں۔
اسی طرح آپ عام دکان داروں کا رویہ دیکھیں۔ وہ رمضان، عید اور محرم پر بجائے خدا کی رضا کے لیے اپنے منافع کی اوسط کو کم کر دیں۔ وہ بدبخت اس کو ’’سیزن‘‘ سے تشبیہ دیتے ہیں…… یعنی چوں کہ ان مواقع پر عام لوگوں میں شاپنگ کا عنصر بہ وجوہ بڑھ جاتا ہے اور ان کی بِکری زیادہ ہونا شروع ہو جاتی ہے، سو وہ بجائے اس پر شکر گزار ہوں…… قیمتوں میں مزید اضافہ کرنا شروع کر دیتے ہیں، تاکہ اپنی تجوریوں کو اتنا زیادہ بھریں کہ ایک پورے سال کی کسر نکال لیں۔اس کو ان کی زبان میں ’’سیزن‘‘ کہتے ہیں۔
اب یہاں پر سوال یہ بنتا ہے کہ حکومت کی غلطیاں، نا اہلیاں اپنی جگہ لیکن کیا ہم عوام خود احتسابی کا مظاہرہ کرنے کی جرات کرسکتے ہیں؟ یہ ایک سنجیدہ سوال ہے اور جس دن بحیثیتِ قوم ہم کو اس سوال کا جواب مل گیا، اس دن شاید ہم ڈھیر سارے مسایل سے خود ہی نکل آئیں۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔