بعض اوقات ’’مصرع‘‘ (عربی، اسمِ مذکر) کا املا ’’مصرعہ‘‘ لکھا جاتا ہے۔
’’فرہنگِ آصفیہ‘‘، ’’نور اللغات‘‘ اور ’’جدید اُردو لغت‘‘ کے مطابق دُرست املا ’’مصرع‘‘ ہے جب کہ ’’جہانگیر اُردو لغت (جدید)‘‘ اور ’’علمی اُردو لغت (متوسط)‘‘ کے مطابق ’’مصرع‘‘ کے ساتھ ’’مصرعہ‘‘ بھی درج ملتا ہے۔
صاحبِ آصفیہ و نور دونوں نے ’’مصرع‘‘ کے ذیل میں ایک اور املا ’’مصراع‘‘ بھی درج کیا ہے۔ صاحبِ آصفیہ کے مطابق ’’مصرع ‘‘ اور ’’ مصراع‘‘ دونوں درست ہیں جب کہ صاحبِ نور نے باقاعدہ طور پر ان الفاظ میں صراحت فرمائی ہے: ’’شعرا نے مصراع بھی کہا ہے۔‘‘
صاحبِ نور نے مزید صراحت ان الفاظ میں فرمائی ہے کہ ’’مصرع مذکر ہے۔ لہٰذا مصرعِ اولیٰ کی جگہ مصرعِ اول اور مصرعِ ثانیہ کی جگہ مصرعِ ثانی صحیح ہے۔‘‘
رشید حسن خان ’’اُردو املا‘‘ کے صفحہ نمبر 312 پر اس حوالے سے رقم کرتے ہیں: ’’کچھ لفظ ایسے ہیں جن کے آخر میں اصلاً ہائے مختفی نہیں، مگر اُن کے آخر میں ہائے مختفی خواہ مخواہ شامل کر دی جاتی ہے، جیسے: ’’مصرعہ‘‘، ’’معہ‘‘، ’’موقعہ‘‘، ’’موضعہ۔‘‘ ان کی صحیح صورت مصرع، مع، موقع اور موضع ہے۔‘‘
’’مصرع‘‘ کے معنی ’’کِواڑوں کا پٹ‘‘، ’’آدھا شعر‘‘اور ’’پوری بیت یا فرد کا نصف‘‘کے ہیں۔
صاحبِ نور نے ’’مصرع‘‘ کے ذیل میں حضرتِ مومنؔ کا یہ شعر درج فرمایا ہے:
نہ کیوں کر مطلعِ دیواں ہو مطلع مہر وحدت کا
کہ ہاتھ آیا ہے روشن مصرع انگشتِ شہادت کا
جب کہ ’’مصراع‘‘ کے ذیل میں حضرتِ رشکؔ کا شعر نمونے کے طور پر درج فرمایا ہے:
اے رشکؔ وہ مصراعوں سے ہے قندِ مکرر
جس شعر میں مضمون ہے شیریں دہنی کا
حاصلِ نشست: اس تفصیل کی روشنی میں جب بھی اس لفظ کا املا لکھنا مقصود ہو، تو بلا جھجھک’’مصرع‘‘ لکھ دیا کریں۔