ہر دور ایک مخصوص فکر کا حامل ہوتا ہے۔ دور بینی اور مستقبل بینی جس کی رزم گاہِ حیات میں نہ صرف اہمیت مسلمہ ہوتی ہے…… بلکہ عقل و دانش کی حامل ہونے کی جہت سے جس کا ہر سو چرچا ہوتاہے…… لیکن اس کا کیا کیجیے گا کہ یہ دور بینی، دانش وری اور مستقبل بینی بھی محض حالات و واقعات اور مشاہدے کی روشنی میں آنے والے دور کی ہلکی سی تصویر پیش کرسکتی ہے۔ کوئی بھی انسان آنے والے ایام کے بارے میں تیقن کے ساتھ کچھ نہیں کَہ سکتا کہ آنے والا دور کیسا ہوگا؟ کیوں کہ کسی بھی دانش ور کی نگاہِ بینا حالات و واقعات، تجربات، مشاہدات، حقایق و انکشافات سے آگے دیکھنے کی قدرت نہیں رکھتی۔
کوئی اُس دور کو کیسے دیکھ سکتا ہے جو اُس کے مشاہدے میں نہیں آتا…… اہلِ علم اپنی کم مائیگی کے باعث معاملات کو آنے والی نسلوں پر چھوڑ دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ کیوں کہ کوئی علمِ غیب کا رازداں نہیں ہوتا……اسی لیے نابغہ بھی دنیا کو جس انداز سے دیکھتے ہیں…… اسی کے مطابق اپنی دانش کے پھول کھلاتے ہیں۔
سائنس آنے والے زمانوں میں کون سے نئے اُفق تراشے گی۔ کوئی کیسے دیکھ سکتا ہے؟ غیر معمولی ذہانت کے حاملین تہذیب و تمدن، کلچر، آزادی، جمہوری رویوں، رواداری، انسانی اقدار، انسانی احترام، آئین و قوانین، رہن سہن اور بود و باش پر تو طبع آزمائی کرسکتے ہیں…… لیکن آنے والے دور کو سائنسی تسخیر کے جن سانچوں میں ڈھلنا ہوتا ہے…… اس کے بارے میں لب کشائی کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہوتی۔
کیا یہ بات کسی کے وہم و گمان میں تھی کہ کمپیوٹر، موبائل او رانٹر نیٹ کی حیرت انگیز ایجادات قدیم انسانی کلچر، تہذیب و تمدن اور اقدارِ انسانی کو نیست و نابود کر دیں گی؟ یوں ایک نیا کلچر معرضِ وجود میں آئے گا…… جو ہر نقشِ کہن کو مٹا دے گا۔
مذہب کے نام پر عورت کو غلامی کی جن زنجیروں میں جکڑے کر رکھا گیا تھا…… وہ یک دم ٹوٹ کر گر جائیں گی…… اور عورت کا نیا مقام متعین ہو گا۔ اب جبر کی ماری ہوئی عورت انسانی آزادیوں کی کہکشاں میں اُڑتی جا رہی ہے۔وہ لباس، رہن سہن، گفتگو، دفتری مصروفیات، نمود و نمائش، بناو سنگھار، خود نمائی، آرایش، گھریلو ترتیب اور آدابِ مجلس میں احساسِ تفاخر کا شکار ہو چکی ہے۔ تعلیم، علم و فن، ملازمت اور میڈیا کی آزاد منشی اور انفرادی بے راہ روی نے اس کے اندر پارہ بھر دیا ہے…… اور وہ آزاد منش خواتین کی تقلید میں اَن دیکھی آزادی کے خواب سجائے شاہ راہِ زندگی پر رواں دواں ہو چکی ہے۔ کیوں کہ اب وہ خود بھی با روزگار ہو چکی ہے…… اور کئی مرد حضرات ان کی کمائی پراپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے نظر آتے ہیں۔ اب تو
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کاینات میں رنگ
کا عملی اظہار ہو رہاہے۔
ہمارے ہاں مذہبی معاملات کی بھی ایسی ہی کیفیت ہے۔ غیر متبدل احکامات جن کا فیصلہ وحی کی روشنی میں پہلے ہی ہوچکا ہوتا ہے…… ان پر توتمام فرقے متفق ہوجاتے ہیں…… لیکن روزمرہ کے وہ مسایل جو علمِ کلام کی زد میں آتے ہیں…… اورپھر جو نئی نئی ایجادات کی وجہ سے معاشروں میں اپنی موجودگی کا شاخسانہ بنتے ہیں…… ان پر علما میں گہرا اختلاف پیدا ہوجاتا ہے۔ انسانی ترقی، سائنسی ایجادات اورمعاشرتی اقدار کے بدلاؤ کی وجہ سے آیاتِ قرآنی اور احادیثِ مبارکہ کی نئی تعبیرات اور توجیہات پیش کی جاتی ہیں……جو رجعت پسند علما کو ایک آنکھ نہیں بھاتیں…… لہٰذا سوچ کا باریک فرق باہمی مناقشہ اور تفریق کا موجب بن جاتا ہے۔
زمینی حقایق قدیم علما کے پیش کردہ تراجم سے میل نہیں کھاتے۔ لہٰذا جدید علما نئی فکر اور نئی ’’اپروچ‘‘ کے ساتھ نئے زبان و بیان کو اپناتے ہیں، تو ایک تہلکہ مچ جاتا ہے۔
زمانۂ حال میں ترقی پسند علما کی سوچ اور رجعت پسند علما کی سوچ میں واضح فرق محسوس کیا جا سکتا ہے۔
کچھ علما آیاتِ قرآنی کی تفسیر سائنسی علوم کو مدِ نظر رکھ کر کرتے ہیں اور کچھ رجعت پسند علما سائنسی حقایق سے چشم پوشی کرتے ہوئے قدیم انداز اپناتے ہیں۔
رجعت پسندوں کو علم ہوتا ہے کہ ان کی فکر وقت کے تند و تیز ریلوں کو سہارنے کی اہلیت نہیں رکھتی…… لیکن اس کے باوجود بھی وہ روایات، کم زور واقعات، سطحی افسانوں، کہانیوں اور حکایات سے اپنے موقف میں وزن اور جوش و جذبہ بھرنے کی کوشش کرتے ہیں۔علامہ اقبال نے اسے انتہائی خوب صورت انداز میں بیان کیا ہے
جہاں تازہ کی ہے افکارِ تازہ سے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
وقت کے دھارے کسی اور جانب بہہ رہے ہوتے ہیں…… اور ان کی فکر مافوق الفطرت واقعات میں اٹکی ہوتی ہے۔ وہ جو کچھ بیان کرتے ہیں…… انسانی آنکھ شاید ایسے مناظر دیکھنے سے قاصر ہوتی ہے۔ وہ اپنے وقت کے صالحین، صوفیا اور پیروں فقیروں کے کردار و افعال کی ایسی تصویر کشی کرتے ہیں کہ انسان ششدر رہ جائے۔
شاید زمانۂ قدیم والے صوفیا اور اولیا اب موجود نہیں رہے۔ لہٰذا وہ ساری کرامات جو اولیاء اللہ کی ذات سے منسوب کی جاتی ہیں…… افسانہ طرازیوں کی نذر ہو جاتی ہیں۔ بہرحال یہ فلسفیانہ افکار، علمی مباحث، فکری اختلافات، نقطۂ نظر، روح مذہب کو بدل تو نہیں سکتا…… لیکن اس سے معاشرے کی نئی صورت وجود پذیر ہونی شروع ہو جاتی ہے۔
ترقی پسند علما ہر زمانے میں منظرِ عام پر آکر انسانوں کو آزادیِ اظہار اور فکری نمود کی نوید سناتے رہتے ہیں…… جو قدیم سوچ کے حاملین کی برداشت سے باہر ہو تا ہے۔ جہانِ کہن کو ہمیشہ منہدم ہونا ہوتا ہے اور نیا جہاں تعمیر ہونا فطری ہوتا ہے…… لیکن اسے قبول کرنا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ بقولِ علامہ محمد اقبالؔ
اندازِ نو سے ڈرنا طرزِ کہن پہ اڑنا
منزل کٹھن یہی ہے قوموں کی زندگی میں
اگر ہم برِ صغیر پاک و ہند کی آزادی کی تحریک کا جایزہ لیں، تو ہمیں یہ جان کر خوشی ہوتی ہے کہ اس وقت کے علما کا ایک گروپ سائنسی ایجادات اور فکر کا مقلد تھا۔ عمل، جد و جہد، حرکت اور سر فروشی ان کی فکر کی بنیاد تھی۔ کیوں کہ دورِ غلامی اور ابتری میں دانشوروں کے سوچنے کا انداز بدل جاتا ہے اور یہی ان کے ساتھ بھی ہوا تھا۔ یہ وہی گروپ تھا جو علاحدہ اسلامی ریاست کا علم بردار تھا اور ہندوستان کے مسایل کا حل علاحدہ اسلامی ریاست میں مضمر دیکھتا تھا۔ وہ عملی جد و جہد سے نتایج مرتب کرنے کے داعی تھے۔ عوام جو چاہتے تھے ان علما کی سوچ ان سے مطابقت رکھتی تھی…… لہٰذا ان کا کامیاب ہونا فطری تھا۔ سر سید احمد خان، علامہ جی اے پرویز اور علامہ اقبال اس نئی سوچ کے حامل تھے…… اور مذہب کو وقت کے دھارے کے ساتھ ساتھ لے کر چلنے کے دعویدار تھے۔
رجعت پسندی کی شمشیرِ برہنہ کے سامنے کھڑا ہونا غیر معمولی جرات کا متقاضی ہوتا ہے…… اور ترقی پسندی کے یہ دعوے دار ہر قسم کے خطرات سے کھیلتے ہوئے اپنی فکر کے ساتھ منسلک رہے۔انھیں کفر کے فتوؤں کا سامنا بھی کرنا پڑا…… لیکن انھوں نے تبدیلی، جدت پسندی اور ترقی پسندی کی جس ناؤ کو بے رحم طوفانوں کے اندر اُتارا تھا…… اسے ساحلِ مراد سے ہمک نار کر کے دم لیا تھا۔
یہ سچ ہے کہ سائنس مذہب کا تعین نہیں کرتی…… لیکن یہ تو شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دینے والی بات ہے کہ ننگے حقایق کو ماننے کی بجائے روایات، افسانوں اور حکایات کے غیر منطقی استدلال کو تسلیم کرلیا جائے۔
سائنسی قوانین کی حقانیت کو ماننا عقل و دانش کا تقاضا ہوتا ہے اور اسلام تو اولوالالباب سے ہی خطاب کرتا اور انھیں حقائق پر غور و خوص کی دعوت دیتا ہے…… لیکن پھر بھی غور و خوص کا نام و نشاں نہیں ملتا۔ ’’ملا ازم‘‘ نے کبھی کسی کی بات نہیں سنی…… لہٰذا وہ جدید سوچ کے حاملین کی بات کیسے سنے گا؟ وہ اپنے موقف میں کسی بھی قسم کی تبدیلی لانے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ کیوں کہ اس نے عقل و دانش کے سارے دروازے مقفل کر رکھے ہوتے ہیں۔
بقولِ اقبال
عقل کی منزل ہے وہ عشق کا حاصل ہے وہ
حلقۂ آفاق میں گرمیِ محفل ہے وہ
………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔