انسان، حیوان ہونے کے ناتے شہوات بھی رکھتا ہے، حرص و بخل و حسد بھی…… اور غیظ وغضب بھی۔ یہی جبلتیں عام حیوانات میں بھی پائی جاتی ہیں۔ البتہ انسان کے عقل نے ان چیزوں کو ایک آرٹ اور فن بلکہ ایک سائنس کی شکل دی ہے۔
اب حیوانات کی یہ جبلتیں ان کے درمیان نزاعات بھی پیدا کرتی ہیں…… اور جنگ و جدل اور خون خرابا بھی۔ ان جبلتوں میں کھانے پینے کے تقاضے، جنس اور جنسی خواہشات کے تقاضے، موسمی اثرات سے محفوظ رہنے اور اس طرح رہن سہن کے تقاضے شامل ہیں۔ ان تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے انسان تگ و دو بھی کرتے ہیں۔ اس کے لیے چھینا جھپٹی بھی کرتے ہیں اور یوں دفع کے لیے غیظ و غضب اور جنگ و جدل بھی کرتے ہیں…… بلکہ ساتھ ساتھ ان میں غلبے کی جو جبلت ہے، اس کے لیے تو یہ بسا اوقات بہانے ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ اس کے لیے جن پر چڑھ دوڑنے کا ارادہ ہو، اس کے خلاف پروپیگنڈے کرتے ہیں کہ فُلاں ایسا کر رہا ہے، فُلاں ویسا کر رہا ہے، فساد پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے، تباہی پھیلانے کا ارادہ رکھا جا رہا ہے، حقوق کی پامالی ہو رہی ہے، امتیازات برتے جا رہے ہیں، لسانی بنیاد پر، قومی بنیاد پر، مذہب کی اساس پر یا رنگ و نسل کی اساس پر…… تاکہ اس کے چہرے کو بدنما اور بدصورت ثابت کیا جاسکے۔ یوں چڑھ دوڑتے وقت کوئی اس کے خلاف زیادہ بولے…… اور نہ اس کی مذمت ہی کرے کہ وہ برائی پر چڑھ دوڑا ہے۔
دنیا کی تاریخ دیکھیے، تو ہمیشہ سے یہی ہوتا چلا آرہا ہے۔ اب عقل کی اساس پر انہی انسانوں میں دانش ور، عقل مند اور عقلا و حکما بھی ہوا کرتے ہیں کہ یہی تقدیرِ الٰہی ہے…… تو وہ اپنے افکار و نظریات اور اپنی تعلیمات و ہدایات کے ذریعے ہمیشہ سے کوشش کرتے چلے آئے ہیں کہ انسانوں کو تہذیب سکھائیں، ان کو مہذب بنا دیں۔ ٹھیک ہے آپ کو اپنے تقاضے پورا کرنے کا حق ہے کہ وہ آپ کی فطری ضرورت ہیں…… لیکن ان کے پورا کرنے کے لیے مہذب طریقے ہیں، حدود و قیود ہیں…… تاکہ ایک انسان دوسرے کے لیے مصیبت نہ بنے۔
چوں کہ اللہ تعالا خالق ہے، اسی نے ان انسانوں کو یہ تقاضے بھی دیے اور پھر ان کو مہذب بننے کا حکم بھی دیا…… جس کے لیے اس نے انبیا و رسل بھجوائے…… جو تہذیب و اخلاق کے اعلا درجے پر فایز تھے اور اسی کے معلم و استاد تھے۔ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’انما بعثت معلما و انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق!‘‘ یعنی یقینا مجھے معلم بنا کر بھجوایا گیا اور یقینا مجھے بھجوایا گیا کہ میں مکارمِ اخلاق کا اتمام کرواؤں۔
یہ انبیا و رسل تہذیب و اخلاق کے حوالے سے رول ماڈل، معیار اور سٹینڈرڈ تھے…… کہ ان کو دیکھا کرو اور ان کے طور طریقے اپناؤ۔ اب وہ تو بطورِ ہادی و رہبر موفق تھے۔ ان کے اخلاق و اقدار کے مقام پر تو کوئی بھی نہیں پہنچ سکتا…… لیکن بقولِ علامہ کہ
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
کے مصداق ہدف تو عالی ہی رکھنا ہے۔ تبھی تو یہ سفرِ خیر جاری رہے گا۔ انگریزی میں ہے کہ "There is always room for improvements” یعنی آگے بڑھنے کی ہمیشہ گنجایش رہتی ہے۔
اب سوال اٹھتا ہے کہ عبادات کیا ہیں؟ تو اعلا درجے کی تہذیب کا حصول ہے اور اعلا درجے کی تہذیب کا طریقہ اللہ سے قریب ہونا ہے۔ سو جو اس معیار کے جتنا قریب ہوتا ہے، اتنا ہی وہ مہذب ہے۔ اور یہ قرب عبادات سے حاصل ہوتا ہے کہ عبادات ہی سے نفسِ ناطقہ مہذب ہوتا ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ اس کو سعادتِ حقیقی کا نام دیتا ہے اور اس کے حصول کا انسان مکلف ہے۔ لہٰذا تہذیب کے حوالے سے انبیا کو دیکھنا ہوتا ہے…… جس جس نے بھی ان کی اطاعت و اتباع کیا اور جس حد تک کیا…… اس حد تک وہ مہذب بن گیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین تبھی تو تاریخِ انسانیت کے سب سے مہذب لوگ ٹھہرے۔ ’’اولئک ہم خیر البریۃ‘‘ اور اس پر اللہ راضی اور بندہ خوش ہوا کرتا ہے۔ رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ۔ اور اسی کی اساس پر لوگ معیار بن جاتے ہیں۔ ’’اولئک الذین ہدی اللہ فبہداہم اقتدہ!‘‘
اب عبادات، مہذب ہونے کا طریقہ ہیں…… یعنی غذا اور دوا کی طرح۔ جب کہ ظلم و عدوان اور تعدی سے خود کو بچا کے رکھنا اس کی پرہیز ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ علاج نہیں کرنا، بس صرف پرہیز کرنا ہے…… بلکہ علاج کے ساتھ پرہیز کو اولیت دینی ہے۔ ورنہ علاج کو یوں سمجھیں کہ یہ پرواز کے لیے پر ہیں…… لیکن اگر یہ پر ہوں بھی اور بندے کو بھاری وزن باندھا گیا ہو، تو یا تو اُڑ نہ سکے گا…… یا اگر اڑے گا بھی، تو اس وزن کی وجہ سے گرے گا اور بری طرح گرے گا، جس سے وہ چکنا چور ہوگا۔
اب یہ پرہیز کیا ہے؟ یہ خلقِ خدا پر تعدی اور ظلم سے بچے رہنا ہے۔ اب زیادہ تر ظلم و تعدی اور عدوان…… غلبے کی جبلت کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اب بندہ خدا کا حق پورا نہ کرے، تو یہ گنا ہ ہے…… اور گناہ پر اللہ تعالا چاہے، تو آخرت میں عذاب دے…… یا بخش دے……! لیکن ظلم پر عذاب تو ہے ہی…… لیکن اللہ تعالا ظالم کو دنیا میں بھی عذاب دے دیتا ہے۔ جس کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں۔ ’’ان فی ذلک لعبرۃ لاولی الالباب!‘‘ اس کو سمجھنے کے لیے سمجھ بوجھ کی ضرورت ہے کہ کبھی تو یہ کوئی آفت، سماوی صورت میں ہوتی ہے اور کبھی جب اللہ کی دی ہوئی مہلت ختم ہوجاتی ہے، تو پھر ان کے ہاتھوں، پاوؤں اور گردنوں میں غیر مرئی زنجیریں ڈالی جاتی ہیں۔ ’’انا جعلنا فی اعناقہم اغلالا فیہ الی الاذقان فہم مقمحون!‘‘
اور ایسے لوگ تو پھر’’وسواء علیہم ءانذرتہم ام لم تنذرہم فہم لا یومنون‘‘ کے مصداق بن جاتے ہیں۔ ان کو پھر علم و فہم اور اخلاق و اقدار کا زوال گھیر لیتا ہے…… اور وہ ’’ولو نشاء لطمسنا اعینہم فاستبقوا الصراط فانی یبصرون!‘‘ ان کی بصیرت ختم ہوجاتی ہے۔ ’’فانہا لا تعمی الابصار ولکن تعمی القلوب التی فی الصدور!‘‘ فساد فی الارض اور خلقِ خدا کے ساتھ ظلم اللہ کو بالکل بھی پسند نہیں۔ ’’واللہ لایحب الفساد، ان اللہ لا یحب المفسدین، واللہ لا یحب الظالمین۔‘‘ تبھی تو فساد اور دفعِ ظلم کے لیے شریعت، جہاد کا حکم دیتا ہے…… ورنہ اسلام تو سلامتی کا پیغام اور امن کا دین ہے…… اور انسان بنیان الرب ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ ’’بنو آدم بنیان الرب ملعون من ہدم بنیان الرب‘‘ کہ رب کے بنیان کا ڈھانا تو معلون ہی کرسکتا ہے۔
اہلِ سنت کے تین امام ’’امام ابوحنیفہ‘‘، ’’امام مالک‘‘ اور ’’امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ‘‘ کا مسلک ہے کہ علت، قتال، ظلم اور حرابہ ہے…… جب کہ امام شافعیؒ سے ایک قول منقول ہے کہ ’’علت، قتال کفر ہے۔‘‘یعنی کافر سے لڑنا ہے…… لیکن اگر ایسا ہے، تو پھر تو ہر وقت جنگ ہی جنگ ہوگی کہ کفر اور کافر تو امورِ تکوینیہ میں سے ہیں۔ یہ تو موجود رہیں گے، تو جب وہ موجود ہیں، تو علت موجود ہے۔ علت موجود ہے، تو پھر لڑنا ہی ہے…… جب کہ امام شافعیؒ کے مذہب میں بھی جنگ کے حوالے سے ذمہ، صلح اور معاہدہ امن کا تصور موجود ہے کہ قرآنِ کریم کا حکم ’’وان جنحواللسلم فاجنح لہا و توکل علی اللہ!‘‘ اگر وہ (دشمن) مایل ہوں، صلح پر، تو تم بھی مایل ہوجاؤ صلح پر اور اعتماد کر اللہ پر۔
اس طرح ذمہ اور اہلِ ذمہ کا شرعی تصور تو شریعت کا حکم ہے…… اور یہی مذہب امام شافعیؒ کا بھی ہے۔ سو اگر کفر اور کافر کے ساتھ جنگ ہی کرنی ہے، تو پھر تو یہ تصورات نہیں ہوسکتے۔ تو حاصل یہ ہوا کہ ہر چار مذاہب میں قتال کی علت، ظلم اور حرابہ ہے۔ یعنی جہاد بمعنی قتال، ظلم اور حرابہ روکنے کے لیے ہے…… تبھی تو شریعت نے قتال شروع کرنے کے لیے کڑی شرایط رکھی ہیں…… اور جب فوج لے بھی جائے، تو آپؐ نے فرمایا کہ شہر سے باہر رہ کے صبح کا انتظار کرو…… پھر ان کو اسلام کی دعوت دو۔ کیوں کہ اگر انہوں نے اسلام قبول کیا…… جو سراپا تہذیب ہے، انسانیت ہے، اخلاق و اقدار ہیں، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے حیوانیت اور بہیمیت کو مہذب بنانے کا عزم کیا۔ اگر ایسا نہیں، تو انہیں ذمہ قبول کرنے کا حکم دو۔ اگر انہوں نے اپنے آپ کو اسلامی ریاست کے تابع کیا، تو پھر بھی یہ تہذیب قبول کرنا اور مہذب رہنا ہے، تو جنگ نہیں، ورنہ پھر اللہ کا نام لے کر جنگ۔
لیکن اس میں بھی شریعت نے حکم دیا کہ فساد نہیں پھیلانا یعنی فصلیں جلانا، مویشی ہلاک کرنا، درخت کاٹنا، بچوں، عورتوں، بوڑھوں یا غیر مقاتل لوگوں کو قتل کرنا جایز نہیں…… حتی کہ میدانِ جنگ میں اگر کوئی مقاتل ہاتھ اٹھائے، تو اس کو قتل کرنا بھی ناجایز ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ کم سے کم تباہی ہو۔
یہ تو الہامی دین کی بات ہوئی۔ انسانی تہذیب میں بھی مہذب لوگوں اور مہذب اقوام نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ جنگ نہ کی جائے۔ جنگ سے بچا جائے۔ جنگ رکوائی جائے اور اگر ناگزیر ہو، تو آبادیوں سے دور جنگ لڑی جائے…… تاکہ نہ تو معصوم جانیں تلف ہوں…… نہ انفراسٹرکچر ہی تباہ ہو۔
لیکن کیا کیا جائے آج کی بزعمِ خویش مہذب دنیا اور مہذب اقوام…… دنیا کا جو حشر کر رہی ہیں، تو اللہ کی پناہ! تباہی پھیلائی جا رہی ہے۔ حالاں کہ کہنے کو تو انہوں نے حکومات کے لیے بھی قواعد و ضوابط وضع کیے ہیں۔ تاریخ پر نظر ڈالیں، تو حکومت حاصل کرنے کے لیے باپ اور بیٹے تک کا خون کرنا ایک معمول رہا ہے۔ بھائیوں کا کیا کہنا…… انہیں تو تھوک کے حساب سے قتل کیا گیا ہے، تاکہ خطرہ ہی نہ رہے…… لیکن بادشاہ پھر بھی نہ بچے کہ اپنوں نے نہیں تو غیروں نے ان کا کام تمام کردیا۔
لہٰذا مہذب اقوام نے انتقالِ اقتدار کے لیے ’’جمہوریت‘‘ کا تصور دیا…… لیکن انسان تو اپنی فطرت اور جبلت کے ساتھ ہی رہتا ہے۔ لہٰذا اس میں بھی وہ ڈنڈی مارتا ہے اور بسا اوقات اس میں بھی خون خرابا ہوجاتا ہے…… اگر چہ نسبتاً کم ہوتا ہے۔
مغرب میں سیکولر ازم، لبرل ازم، ہیومن ازم، جمہوریت، آزادی مساوات، حقوق…… سب تصورات ہیں۔ دن رات اس کا ڈھنڈورا بھی پیٹا جاتا ہے…… لیکن کیا عملاً ایسا ہے؟ کیا وہ یہی آزادی، مساوات اور حقوق دوسرے انسانوں کو بھی دینے کے روادار ہیں؟ جب کہ کیپٹل ازم، کیپٹل اکانومی اور کارپوریٹ کلچر نے بھی تو اِفادیت کو اصل سمجھا ہے۔ لہٰذا یہ سب کچھ ان انسانوں کے لیے ہے…… جن کی کچھ اِفادیت ہو یعنی جن سے استفادہ کیا جاسکتا ہو، ان کا استحصال کیا جاسکتا ہو۔ ظاہر ہے کہ استحصالی طبقہ تو ایک محدود طبقہ ہوتا ہے، تو باقی انسانوں کو ان کا ٹولز، اوزار اور کموڈٹیز سمجھا جائے۔ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور، دکھانے کے اور! یہ نظام اس استحصالی طبقہ کو لامحدود اختیارات دیتا ہے اور یوں یہ نظام عام انسانوں کا خون چوستا رہتا ہے۔
اس طرح دوسری جانب کمیونزم ہے…… جو ایک محدود انفرادی ملکیت کا تصور دیتا ہے۔ جمہوریت، آزادی اور حقوق وغیرہ کی نفی کرتا ہے۔ سرمایے کی ساری صورتیں ریاست کی ہوتی ہیں…… اور ریاست خود کو عوام کی ضروریات فراہم کرنے کی ذمہ دار سمجھتی ہے…… یعنی یہ ایک دوسری انتہا ہے۔ یوں گھٹن کا ماحول ہوتا ہے۔ پہلے نظام والے دوسرے کو دور سے حسرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور یہ ان کو۔اس کی وجہ ظاہر ہے کہ ہر دو میں عام انسان ہی تختۂ مشق ہوتا ہے۔
پھر ہر دو باہر سے جلب و کش میں لگے رہتے ہیں کہ مفلوک الحال اقوام کے وسایل اور دولت پر کیسے قبضہ کیا جائے؟ ان کے د رمیان دار و گیر ہوتی ہے لیکن یہ زیادہ تر ایک دوسرے کے ساتھ کبھی ڈایریکٹ جنگ میں ’’انوالو‘‘ نہیں ہوتے۔ یہ ہمیشہ دوسروں کے ہاں اپنی جنگی صلاحیتوں اور اسلحے کا ٹیسٹ کرواتے ہیں۔ دوسروں کو لڑا کے یا ان میں سے ایک طاقت ور کسی غریب ملک اور قوم پر چڑھ دوڑتا ہے، تاکہ اپنی انا کی تسکین کرے، اسلحہ کو ٹیسٹ کرے اور مخالف کو پیغام پہنچائے۔ خود اس کے لیے ڈایریکٹ نہیں لڑتے کہ یوں تو ایک کو شکست ہونی ہوتی ہے۔ یوں پھر ان کا بھرم کھل جائے گا…… اور وہ مونچھیں جو یہ سوا 9 پر رکھا کرتے ہیں، ساڑھے 6 پر آجائیں گی۔
دیگر اقوام و ممالک میں یہ بڑی طاقتیں ہمیشہ سیاسی عدمِ استحکام، اقتصادی بدانتظامی اور معاشی بدحالی قایم رکھتی ہیں…… تاکہ وہ ان کے لیے جم اور ارینا (Arena) بنے رہیں…… اور ان کا کھیل بھی جاری ہو اور استحصال بھی۔ ایسے کھیل اور استحصال میں اصول، ضوابط، اخلاق، مروت، روایات وغیرہ کا کیا تصور ہوتا ہے؟ بڑی طاقتیں ہمیشہ اپنے مفادات کو دیکھتی ہیں…… باقی امور ان کے لیے ثانوی بھی نہیں ہوا کرتے۔ پھر اس پر مستزاد یہ کہ ان مفلوک الحال اقوام پر اپنے حالات کی وجہ سے ان کے لیڈروں کا تسلط ہوتا ہے۔ وہ بھی ان کے ساتھ کھیل کھیلتے رہتے ہیں۔ ان میں سے اکثر مختلف اوقات میں حکومات میں بھی آئے ہوتے ہیں…… لیکن جب بات کرتے ہیں، تو کہتے ہیں کہ گذشتہ 74 سالوں میں اس قوم کے ساتھ مذاق کیا گیا……اس قوم کو امریکہ یا روس کا باج گزار بنایا گیا، و علی ہذاالقیاس!
تو میرے بھائی! آپ بھی تو اس اسٹیبلشمنٹ کا حصہ رہے ہیں…… یہ تو اعترافِ جرم ہے، تو آپ تو دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں یا بالعکس کاٹنے کے لیے آگے کریں کہ ڈاکا تو آپ نے بھی ڈالا ہے۔
قارئین! یہ درست ہے کہ کسی کا بیڑا مغرب نے اور کسی کا روس نے غرق کیا ہوگا…… لیکن ان کو یہ موقع کس نے دیا تھا؟ آپ جیسے لوگوں نے……! وہ تو خارجی ہیں، ان سے کیا گلہ! اس کی تو کوئی تُک نہیں بنتی۔ البتہ آپ تو جاسوس اور کارندے ثابت ہوئے، تو آپ کا کیا حشر کیا جائے؟
آخر ہم کب قومی سوچ اپنائیں گے؟
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
آخر ہم کب قومی سوچ اپنائیں گے؟
