قارئین! ملکی سیاست میں ایک مذہبی جماعت ’’جماعتِ اسلامی‘‘ سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے ایک نئی کروٹ لے رہی ہے۔ جماعت اسلامی کے انتظامی امور میں نرمیاں اگرچہ قاضی حسین احمد صاحب کے امیر بننے کے بعد سے پیدا ہو رہی تھیں۔ پہلے جماعت اسلامی کا ممبر بننا جوئے شیر لانے کے برابر تھا، لیکن قاضی حسین صاحب نے ہر ایک کے لیے دروازے کھول دیے۔ سنجیدہ، خاموش اور منظم سیاست اور جد و جہد کے بجائے دھرنوں، مارچوں اور کسی حد تک ناچ گانے کے طریقے بھی اپنائے گئے۔ دوسری سیاسی پارٹیوں سے بلا کسی مذہبی اور سیاسی اختلاف کے الیکشن اور اقتدار کے لیے اتحاد ہونے لگے جس کا نتیجہ پاکستانی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ ’’ایم ایم اے‘‘ کی ایک صوبہ میں حکومت اور مرکز میں 75 سے زیادہ قومی اسمبلی کی نشستیں جیتنے کی صورت میں نکل آیا۔ جو باتیں اور ایشوز پہلے جماعت اسلامی کے نظریے میں کفر اور غداری تھے، اب وہ خود اُس میں پیش پیش ہے۔ صوبوں کے حقوق، قوموں کے حقوق اور خود مختاری کی بات کبھی جماعتِ اسلامی کی نظر میں شجرِ ممنوعہ تھی۔ آج اللہ کے فضل و کرم سے جماعتِ اسلامی اُسی سیاست اور حقوق کی خود راہنمائی کر رہی ہے۔
ہر ایشو اور ہر مسئلے کو مذہب کی نظر سے دیکھنا یا ہر مسئلے کو مذہبی خول میں لپیٹنا…… اب اس تنگ دایرے سے جماعتِ اسلامی رفتہ رفتہ نکل رہی ہے۔ میرے خیال میں اب جماعت والے امت اور قومیت میں فرق کو سمجھ چکے ہیں۔ اُنہیں اب یہ حقیقت ماننی پڑ رہی ہے کہ قومیں صرف مذہب سے نہیں بنتیں، قوموں کا تعلق مذہب سے زیادہ ’’وطنیت‘‘ سے ہوتا ہے۔ مصر، شام، عراق، ایران اور سعودی عرب والے سب مسلمان ہیں…… لیکن انہیں مصری، شامی، عراقی، ایرانی اور عربی قوم کے نام سے یاد، جانا اور مانا جاتا ہے۔ غرض مسلمان قوم نہیں، اُمت ہیں۔ اب جماعت کو شاید اس حقیقت کا ادراک ہوچکا ہے۔
مجھے آج کل امیرِ جماعتِ اسلامی سراج الحق صاحب کے بیانات حقیقت کے بہت قریب لگ رہے ہیں۔ وہ ہر جگہ، ہر سٹیج پر عوام کے معاشی مسایل کی بات کر رہے ہیں۔ ان مسایل کو مذہبی رنگ دینے کی بجائے زمینی حقایق سے جوڑ رہے ہیں۔ ان کو حل نہ کرنے کی ذمے داری موجودہ حکومت پر ڈال رہے ہیں۔ موجودہ حکومت کی نااہلی اور نالایقی نیز بدانتظامی کو تمام مسایل کی جڑ سمجھ رہے ہیں۔ مسایل کی وجہ عوام کی مذہب سے دوری، لوگوں کے گناہ نہیں…… بلکہ معصوم اور بے گناہ عوام کے حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے لنگوٹ کس رہے ہیں۔
جماعتِ اسلامی کے منتخب سینیٹر جناب مشتاق احمد ایک قابل، تعلیم یافتہ اور کامیاب سینیٹر ثابت ہو رہے ہیں۔ وہ سینیٹ میں ببانگِ دہل باطل کے خلاف اور حق کے لیے ہر وقت شیر کی طرح دھاڑتے رہتے ہیں۔ اُنہیں پارلیمنٹ میں قانونی مشکل نِکات پر کمال عبور حاصل ہے۔ وہ ہر وقت حکومتی وزرا اور نمایندوں کو ترکی بہ ترکی جواب دینے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ مَیں جماعت اسلامی کی موجودہ طرزِ سیاست دیکھ کر ماضی میں خرم مراد صاحب کی اُس فکر کو یاد کرتا ہوں…… جو بنگلہ دیش (سابق مشرقی پاکستان) میں اپنی پارٹی کی پالیسی پر افسوس اور شرمندگی کا اظہار کر رہے تھے۔ اُس نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں اپنی کتاب ’’لمحات‘‘ میں کچھ اپنے الگ اور حقیقی احساسات اور جذبات کا اظہار کیا ہے۔ خوشی اور اطمینان کی بات ہے کہ آج انہی احساسات اور جذبات پر جماعتِ اسلامی انگڑائی لے رہی ہے۔
قارئین! دیکھیے جماعت اسلامی اب تقریباً ایک مہینے سے کراچی میں پیپلز پارٹی حکومت کے بلدیاتی قانون کے خلاف دھرنا دے کر بیٹھی ہوئی ہے۔ مختلف آرا کے لوگ رفتہ رفتہ اُس میں شامل ہو رہے ہیں۔ اب یہ ایک منظم تحریک کی شکل اختیار کر رہی ہے۔ اگر ایک جانب پیپلز پارٹی کو ’’ٹف ٹایم‘‘ دیا جا رہا ہے، تو دوسری جانب اب گو مگو اور کنفیوژ حالات سے دوچار ہے۔ اگر مطالبات تسلیم نہیں کرتی، تو مزید حالات خراب ہونے کا خدشہ ہے اور اگر مطالبات تسلیم کیے جاتے ہیں، تو جماعتِ اسلامی کراچی میں مشہور ہوجائے گی…… اور اُسے اپنا پرانا مینڈیٹ مل جانے کا خطرہ ہے، جس سے دوسری سیاسی پارٹیوں کی سیاست کا جنازہ نکل جائے گا۔
حال ہی میں بلوچستان میں جماعتِ اسلامی نے بلوچوں کے حقوق کی لڑائی بڑی بے جگری سے لڑی ہے۔ مسئلہ گوادر کے ماہی گیروں کے حقوق سے چلا اور پورے بلوچستان کے عوام کے حقوق کی شکل اختیار کرگیا۔ جماعتِ اسلامی کے بلوچستان صوبے کے جنرل سیکرٹری مولانا ہدایت الرحمان کو اس ساری جد و جہد کا سرخیل سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے گوادر کے مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو گھروں سے نکال کر تحریک میں شامل کردیا۔ انہوں نے بلوچ عوام کو یہ نعرہ دیا کہ ’’بلوچستان بلوچوں کا ہے اور بلوچوں کو بلوچستان کی پیداوار، معدنیات، کاروبار اور زمین پر پہلا اور بنیادی حق ہے…… جو بھی ترقی ہوگی، منصوبہ بندی ہوگی وہ بلوچوں کی مرضی سے ہوگی، ورنہ نہیں ہوگی۔‘‘
یہ تحریک دنوں میں نہیں بلکہ ہفتوں اور مہینوں چلی اور بلوچ عوام، قوم پرستوں نے ہر قدم پر مولانا ہدایت الرحمان کا ساتھ دیا۔ اس دوران میں سیمینار ہوئے۔ بلوچ کانفرنس کے راہنما مستی خان کا ہر مرحلے پر ساتھ دیا۔ عوام نے بے پناہ تعاون اور بہادری سے اس تحریک میں شرکت کی۔ مرد و زن، بچے بوڑھے تمام کے تمام بلوچستان کے حقوق کے نعرے لگاتے رہے۔ مولانا ہدایت الرحمان بلوچستان کے پِسے ہوئے، کچلے ہوئے عوام کا ہر دل عزیز راہنما بن چکا ہے۔ حکومت نے مجبوراً گھٹنے ٹیک دیے ہیں اور بلوچستان کے ساحلی سمندری علاقوں میں مچھلی کے شکار کے لیے بیرونی ٹرالروں کا داخلہ ممنوع قرار دیا چکا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ صرف ’’دو قومی نظریہ‘‘ کا راگ الاپنے سے، ’’پاکستان کا مطلب کیا لا الہ اللہ‘‘ کا نعرہ لگانے سے اور ’’اسلام خطرہ میں ہے‘‘ کا پروپیگنڈا کرنے سے عوامی مسایل حل نہیں ہوں گے۔ عوام کے بنیادی مسایل کے حل کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ عوام کے بنیادی حقوق بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ آج ہر پاکستانی کی دہلیز پر صحت، روزگار، امن، تعلیم اور انصاف پہنچانے کی ضرورت ہے۔ جب یہ سب ہوجائے تو خود بہ خود پاکستان اور اسلام خطرے سے نکل آئے گا۔ اب یہ وقت کا تقاضا ہے…… مذہب کے نام پر سیاست کرنی مشکل ہے۔ مدینے کی ریاست واپس نہیں آسکتی۔ مذہب کے نام پر ریاست بن سکتی ہے نہ حکومت ہی چل سکتی ہے۔ اس وقت سب کو مل کر ایک ویلفیئر سٹیٹ کے قیام کے لیے جد و جہد کرنی چاہیے جس میں ہر شہری کو اپنے تمام بنیادی حقوق آسانی سے ملیں۔ انقلابات اور نظریات کا دور اب نہیں رہا۔ ہاں، اگر ہم نے نوشتِ دیوار نہ پڑھا اور وقت کی نزاکت کا احساس نہیں کیا، تو ملک ایک طویل خانہ جنگی یا طوایف الملوکی کا شکار ہوسکتا ہے…… جس سے کوئی بھی بچ نہیں سکے گا۔
اہلِ سیاست کا منھ بند نہیں کرنا چاہیے اور جمہوری دور جیسے بھی ہو چلنا چاہیے…… ورنہ یہ گھمبیر مسایل پھول کر بم کی طرح ایک زور دار دھماکے سے پھٹ جائیں گے…… اور پھٹنے کی صورت میں مضبوط سے مضبوط طاقت اور مرکز سب ریزہ ریزہ ہوجائے گا۔ تاریخ یہ بات ثابت کرچکی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔