حالیہ حکومت کو ایک سال کا عرصہ ہوچکا۔ کچھ بہت اچھے، کچھ اچھے اورکچھ برے کام سرانجام دیتے ہوئے اس حکومت نے بہت کچھ کردکھایا ہے۔ اب
آگے اگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟
مگر الیکشن سے پہلے جو وعدے کیے گئے، مثلاً پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر اور ایک کروڑ نوکریوں کی طرح ’’ایک نصاب، ایک نظام‘‘ کے علاوہ تعلیم میں بنیادی اور اعلیٰ تعلیم کے فروغ کا وعدہ بھی شامل تھا۔ ’’ایک نصاب، ایک نظامِ تعلیم‘‘ پر تو کھچوے کی رفتار سے کام جاری ہے۔ البتہ بنیادی و اعلیٰ تعلیم کی فراوانی میں تاحال بخل سے کام لیا جا رہا ہے۔ آسان بات یہ کہ عمران خان نے انتخاب سے پہلے تعلیم بارے جو وعدے کیے تھے، وہ وفا کیا ہونا تھے، الٹا نظامِ تعلیم میں تنزلی کا سفر شروع ہوچکاہے۔ خاص کر اعلیٰ تعلیم میں۔
پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کی بہتری کے لیے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کاادارہ کام کر رہا ہے، اس ادارے کا بانی چیئرمین معروف سائنس دان ڈاکٹر عطاء الرحمان صاحب تھے جب کہ حالیہ چیئرمین طارق بنوری صاحب ہیں۔ ڈاکٹر عطاء الرحمان نے بیس اور چوبیس اگست کو ایک قومی اخبار میں دو مضامین لکھے ہیں جو ملک میں اعلیٰ تعلیم کی صورتحال اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی کارکردگی کا نوحہ ہیں۔ تفصیل کے لیے ڈاکٹر صاحب کے ان مضامین تک رسائی حاصل کیجیے، جس کے لیے روزنامہ جنگ کی مذکورہ بالا تاریخوں کے شمارے دیکھے جاسکتے ہیں۔ مختصراً بات یہ ہے کہ بقول ڈاکٹر عطاء الرحمان ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے چھے ایسے چلنے والے پروگرام بند کیے ہیں جو اعلیٰ تعلیم کے لیے زہر قاتل ہیں۔ پروگرام درجِ ذیل ہیں:
٭ تازہ ترین پی ایچ ڈی ڈگری محصول کنندگان کے لیے ابتدائی تحقیقی گرانٹ پروگرام۔
٭ سائنسی آلات کی مرمت اور بحالی کے لیے گرانٹس۔
٭ سائنسی ساز و سامان تک رسائی کا پروگرام۔
٭ تحقیقی سفری گرانٹ برائے جامعاتی شعبہ و طلبہ۔
٭ سیمینار، ورکشاپ، کانفرنسوں کے انعقاد کے لیے گرانٹس۔
٭ سب سے اہم پی ایچ ڈی کی سطح کی تربیت کے لیے غیر ملکی اسکالرشپ پروگرام جس میں بری طرح سے کمی ہوئی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے بقول یہ اعلیٰ تعلیم کے خلاف سازش ہے۔ کیوں کہ شنید ہے کہ اعلیٰ تعلیم کی بجائے انڈر گریجویٹ تعلیم پر توجہ دی جائے، اور اسی لیے یہ اقدامات کیے گئے ہیں، جو ملکی مستقبل میں تحقیقات کا دروازہ بند کرنے کے مترادف ہیں ۔
ڈاکٹر صاحب کے اس حوالے سے لکھے گئے آخری مضمون سے ٹھیک تین دن بعد یعنی ستائیس اگست کو حکومت خیبر پختونخواہ نے صوبے بھر کے تیس سرکاری جامعات کو ایک حکم نامہ جاری کیا ہے، جس میں کسی بھی قسم کی بھرتی پر تاحکمِ ثانی پابندی لگادی گئی ہے( حکم نامے کی کاپی راقم کے ساتھ موجودہے)۔ حکومت کے اس اقدام کو دیکھتے ہوئے ہر کوئی سمجھ سکتاہے کہ واقعی اعلیٰ تعلیم کے خلاف کوئی سازش چل رہی ہے، مگریاد رہے اگر یہ سازش کامیاب ہوگئی، تو پھر پاکستان کوختم کرنے کے لیے کسی اور دشمن کی ضرورت ہی نہیں۔ جب کسی قوم پر تعلیم و تحقیق کے دروازے بند کیے جائیں، تو وہ اپنی موت آپ مرنے سے کیسے بچ سکتی ہے؟ اعلیٰ تعلیم جو جامعات یعنی یونیورسٹیز میں دی جاتی ہے، جہاں تحقیق ہوتی ہے اور تحقیق کے لیے رقم کی ضرورت ہوتی ہے، جب کہ حالیہ حکومت نے اعلیٰ تعلیم کے لیے پہلے ہی سے تقریباً چالیس فیصد بجٹ کم کیا ہے۔ اب نئی بھرتیوں پر پابندی بھی لگا دی گئی۔ شنید ہے کہ اسی طرح پابندی پنجاب میں بھی لگا دی گئی ہے؟ تو اس کا سیدھا مطلب یہی تو ہے کہ اعلیٰ تعلیم حکومت ترجیحات سے نکل چکی ہے۔
ڈاکٹر عطاء الرحمان کے تحفظات اور نوکریوں پر پابندی کا حکومتی اقدام اور اس کے بعد جامعۂ پشاور میں فیڈریشن آف پاکستان یونیورسٹیز اکیڈیمک ایسوسی ایشن (فپواسا) کا اجلاس ۔فپواسا ملک بھر کے جامعات کے اساتذہ کی نمائندہ اور منتخب تنظیم ہے۔ اس تنظیم نے اُنتیس اگست کو ایک ہنگامی اجلاس میں حکومت سے بھرتیوں پر پابندی کا حکم واپس لینے کامطالبہ کیا ہے۔ بصورتِ دیگر ملک بھر کے جامعات میں احتجاج کی بات کی گئی ہے۔
تنظیم کے اجلاس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پشاور بی آر ٹی بس پر سواکھرب روپے لگنے کے باوجود بس چل نہ سکی، جب کہ صوبے بھر کے جامعات کامالی بحران جو فقط دس ارب سے حل ہوسکتا ہے، حکومت دینے سے گریزاں ہے۔ اس سے حکومت کے وعدوں، دعوؤں اور ترجیحات کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔
عمران خان سے گذارش ہے کہ فی الفور اعلیٰ تعلیم کے بند کیے گئے چھے پروگراموں کو جاری کرنے کے احکامات صادر فرمائے، تاکہ تحقیق کا سفر جاری رہے، لیکن اس سفر کوجاری رکھنے کے لیے جامعات میں اساتذہ کی بروقت بھرتی بھی لازمی ہے۔ اس لیے جامعات میں بھرتیوں پر عائد پابندی بھی ختم کی جائے۔ ورنہ یہ تعلیم دشمن اقدامات پاکستان کے لیے کسی بھی بیرونی دشمن سے زیادہ طاقت ور ثابت ہوسکتے ہیں۔
……………………………………………………….