جمیلہ ہاشمی نے ناولٹ ’’یادوں کے الاؤ‘‘ (1966ء) کے مرکزی کردار دلدار سنگھ کے خاندان اور اس کی زندگی کے ماضی کے واقعات کو بہت موثر پیرائے میں کہانی کی صورت میں پیش کیا ہے۔ یہ ایک سکھ گھرانے کی کہانی ہے۔ ناولٹ کے ماحول اور فضا سازی میں بھی شدید تاثر اور دلکشی پیدا کی گئی ہے۔
ناولٹ کا مرکزی کردار دلدار سنگھ اپنی زندگی کے بچپن اور جوانی کے واقعات کو ناولٹ کی مجموعی کہانی کا روپ دیتا ہے۔ یہ کہانی ناولٹ کا مرکزی کردار دلدار سنگھ خود کلامی کی پیرائے میں بیان کرتا ہے۔
اپنے بچپن میں پوہ کی ٹھنڈی رات میں وہ اپنی بہن چنتی کے ساتھ اپنی دادی سے کہانی سنانے کی خواہش ظاہر کرتا ہے۔ اس کی دادی اسے کوئی روایتی یا خیالی کہانی سنانے کی بجائے اپنے بیٹے اتم سنگھ کی حقیقی واردات سناتی ہے۔ اتم سنگھ دلدار سنگھ کا باپ تھا، لیکن بھاگو سے اس کے تعلقات تھے اور ایک دن اس نے بھاگو اور اپنے باپ انوسنگھ کو مار ڈالا۔ اسے جیل ہو جاتی ہے، ہر سنگھ اتم سنگھ کو سزا دلانے کے لیے ولایت سے سفارش کرتا ہے اور آخرِکار اتم سنگھ کو سزائے موت ہوجاتی ہے۔ دلدار سنگھ کی دادی کے جذبات میں لاوا ابلنے لگتا ہے اور انتقام کی شدید آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ وہ اپنے پوتے دلدار سنگھ کو بچپن ہی سے اس انتقام کے لیے اکساتی ہے اور اس کا یہ خیال اور عمل اس قدر شدت اختیار کر جاتا ہے کہ گویا دلدار سنگھ کی پیدائش کا حقیقی مقصد ہی یہ انتقام لینا ہو۔
مہر سنگھ کی بیٹی دیپو اور دلدار سنگھ کی بہن چنتی میں شروع ہی سے دوستی تھی۔ وہ دلدار سنگھ کے گھر چنتی سے ملنے اکثر و بیشتر آتی رہتی ہے۔ دالدار سنگھ کو دھیرے دھیرے اس سے محبت ہو جاتی ہے، لیکن وہ کبھی اس سے اس کا اظہار نہیں کرتا: ’’آج بھی سوچتا ہوں تو سمجھ نہیں آتی کہ دیپو کے اور میرے درمیان کیا رشتہ تھا، وہ میرے لیے گرنتھ کی طرح متبرک تھی، وہ میرا ایما ن تھا، اگر کوئی ان دنوں مجھے پوچھتا…… تو میں اُسی کی سوگندھ اُٹھا کرکہتا کہ مَیں نے کبھی اس کے زیادہ قریب ہونے اور اُسے چھونے کی کوشش نہیں کی تھی۔‘‘
اتم سنگھ کی سزائے موت کے بعد تمام گھریلوذمہ داریاں دلدار سنگھ کے ناتواں کندھوں پر آجاتی ہیں۔ و ہ اپنی بہن چنتی کی شادی بھی کر دیتا ہے، مہر سنگھ اپنی بیٹی کی شادی وزن کھڑے گاؤں کے ایک لڑکے حاکم سنگھ سے کر دیتا ہے، اگرچہ دیپو اس شادی کے لیے تیار نہیں تھی، لیکن وہ اپنے باپ کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی اور پھر پہلی ہی رات کو حاکم سنگھ نے دیپو کو مار کر ختم کر دیا۔ اُس نے اُسے بتلایا تھا کہ میں کسی اور کو چاہتی ہوں: ’’تیسرے دن پولیس حاکم سنگھ کو وزن کھڑے سے پکڑ کر لے گئی، اس نے اپنا جرم قبول کر لیا تھا کہ دیپو کے گلے میں دوپٹا ڈال کر اور مروڑ کر اُسی نے مارا ہے، اس لیے کہ دیپو نے اُسے بتایا تھا کہ میں نے تو بس باپو کے قول کا پالن کرنے کے لیے اُس سے بیاہ کیا ہے، ورنہ میں تمہارے ولایت پاس ہونے پر تھوکتی بھی نہیں۔‘‘
ادھر دیپو کی ماں بھی اپنی جوان بیٹی کی المناک موت کے غم میں خود بھی مر جاتی ہے او رسردار مہر سنگھ بھی اس غم میں بن مارے مر گیا۔ سردار انوپ سنگھ سے اس کا اختلاف محض ایک گھوڑی کی وجہ سے تھا۔ جسے و ہ دونوں حاصل کرنا چاہتے تھے اور بھگو کے واقعے کو بنیاد بنا کر دلدار سنگھ نے اتم سنگھ کو پھانسی دلوا دی۔ ادھر دلدار سنگھ اور دیپو کی محبت پروان چڑھے بنا ہی ختم ہوگئی اور خود دیپو کی زندگی کا المیہ دلدار سنگھ کو بسا اوقات اپنی گذشتہ زندگی کی یاد دلاتا رہتا ہے۔
جمیلہ ہاشمی نے اپنے اس ناولٹ میں سکھوں کا رہن سہن اور ثقافتی و تہذیبی زندگی کی جھلکیوں کو کہانی کے پس منظر میں اختصار اور جامعیت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ یادوں کے الاؤ میں دلدار سنگھ اور دیپو کی ناکام محبت کا المیہ شدید جذباتی تاثر پیدا کرتا ہے۔ کبھی ہم یہ کہتے ہیں کہ ’’خطائے بزرگاں گرفتن خطا است‘‘ یہ درست سہی، لیکن اس کے نتیجے میں معصوم نئی نسل کی زندگی جس عذاب سے دو چار ہو جاتی ہے، اس کی تلافی کیسے ممکن ہے؟ دلدار سنگھ کی زندگی یادوں کا ایک سلگتا الاؤ ہو کر ر ہ گئی ہے، کیوں کہ کسی عظیم سانحے کے بعد زندگی سے دلچسپی اور رغبت بڑی مشکل سے پیدا ہوتی ہے۔
تکنیک اور پیشکش کے لحاظ سے بھی ’’یادوں کے الاؤ‘‘ قاری کو متاثر کرتا ہے۔ اس میں مرکزی کردار واحد متکلم کے طرز میں کہانی کو بیان کرتا ہے۔ گذشتہ واقعات زمانِ حال میں بیان کرنے کے باوجود کردار کی وابستگی اپنے ماضی سے شدید ہے، جس سے اس کی حال کی زندگی بھی متاثر ہوجاتی ہے، ناولٹ کے زبان و بیان پر پنجابی لب و لہجہ حاوی ہے اور یہی اصل میں اس کا اسلوب ہے اور اپنے موضوع سے پوری طرح جُڑا ہوا ناولٹ ہے۔
…………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔