ہمارا مقصدکم از کم اسی حالت میں سیارۂ ارتقا کو آنے والی نسلوں تک منتقل کرنا ہے جیسا کہ ہمیں ملا ہے۔ اگر ہم نے بروقت موسمی تبدیلیوں پر کان نہ دھرا، تو ہمارا شمار اچھی کتابوں میں نہیں ہوگا۔
ماحولیاتی آلودگی کے بھیانک اثرات سے آب و ہوا میں ہونے والی تبدیلیوں سے پوری دنیا بدلے گی۔ خاص طور پر دنیا کے 2.6 ارب غریب لوگوں کے ساتھ یہ دیگر جانداروں کو بھی ختم کردے گی۔ پچھلے 40 سالوں کے دوران میں جانوروں اور پودوں میں 50 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
آئی سی یو سی این کی رپورٹ کے مطابق، 20 سے 30 فیصد پودوں اور جانوروں کو خطرہ ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے جلد ناپید ہوجانے کا امکان ہے۔ سمندر جوگرمی کو جذب کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں، وہ بھی شدیدموسمی تبدیلیوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
1969ء کے بعد سے اوسط درجۂ حرارت 0.4 ڈگری سے 700 میٹر سمندروں میں گرم تر ہوتا جارہا ہے۔
ناسا کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 1993ء سے 2016ء تک برف کی اوسط پگھلنے کی شرح 280 بلین ٹن سالانہ ریکارڈ کی گئی ہے، جب کہ اسی عرصہ کے دوران میں انٹارکٹیکا میں 127 ارب ٹن سالانہ برف پگھلنا ریکارڈ کیا گیا ہے۔
پچھلی دہائی کے دوران میں انٹارکٹیکا میں برف پگھلنے کا تناسب 3 فیصد ریکارڈ کیا گیا ہے۔ پگھلتے گلیشیرز، ابلتے سمندر، سمندری زندگی، جنگلی حیات کی معدومیت، بڑھتی گرمی اور موسمیاتی تبدیلیوں کا نقارہ بجا رہے ہیں۔
اپنے سیارے کو اس حال میں پہنچانے کے ذمہ دار ہم ہی ہیں۔ گرین ہاؤس گیسوں کی وجہ سے درجۂ حرارت میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جولیٹ جارجیا، ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے پاس کوئلے کا سب سے بڑا پلانٹ ہے جو روزانہ 34000 کنڈلی کھاتا ہے اور سالانہ 25 ملین ٹن CO2 کا اضافہ کر رہا ہے۔
زرعی اراضی کے حصول کے لیے ایمیزون کے جنگلات میں جنگلات کی کٹائی شروع کردی گئی ہے۔ سائنس دان 1824ء اور بعد میں 1895ء میں موسمی تبدیلیوں سے ہونے والی تباہی کے بارے میں انتباہ کر رہے ہیں۔
گرین ہاؤس گیسوں کے اتار چڑھا ؤکی تاریخ اب مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ عالمی درجۂ حرارت میں پچھلے 150 سالوں میں تشویشناک حدتک اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ آتش فشاں پھٹنا، شمسی ہواؤں اور دیگر عوامل جن کی وجہ سے آب و ہوا میں رد و بدل انسانی حصص سے کم حصہ ڈال رہے ہیں۔
آتش فشاں پھٹنے سے ماحولیاتی تبدیلیوں پر صرف دو فیصد اثر پڑتا ہے۔ صنعتی انقلاب کے بعد CO2 میں تین فیصد اضافہ ہوا ہے۔ وہ تبدیلیاں جو صدیوں بعد رونما ہوتی تھیں، اب دہائیوں میں رونما ہو رہی ہیں۔ کرۂ ارض کا اوسط درجۂ حرارت برف کے دور سے 9 ڈگری سے بھی زیادہ بڑھ چکا ہے۔ تیزی سے پگھلتی برف کی وجہ سے سمندروں میں 1 سے 2.3 فٹ کا تخمینہ اضافہ ہوگا اور 4 فیصد اضافہ سے سونامی کا سبب بن سکتا ہے۔
شدید موسمی حالات مزید تباہ کن سیلاب، خشک سالی، زمین کا بنجر ہوجانے اور بہت سی بیماریاں پیدا کرنے کاموجب بن رہے ہیں۔ زرعی پیداواری صلاحیت میں کمی اور پانی کی قلت کے خطرات ایک گدھ کی طرح ہمارے سروں پر منڈلا رہے ہیں۔ ماحول میں CO2 میں اضافہ کے سلسلے میں سال 2020ء انسانی تاریخ کا بدترین سال رہا۔
ناسا کے اعدادوشمار کے مطابق 2019ء میں دنیا کا درجۂ حرارت 1.8 ڈگری تھا جو 2020ء کے دوران میں توقع سے زیادہ بڑھ گیا ہے۔ 1880ء سے 2019ء تک کی انسانی تاریخ کے پانچ گرم ترین سال 2015ء سے 2020ء تک ہیں۔
اگر ہم اس سنگین مسئلے کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو ہم مستقبلِ قریب میں زراعت میں کمی اور آبادی میں اضافہ کے ساتھ ساتھ پانی کی قلت، معاشی انحطاط، دفاعی اور صحت کے مسائل کا بھی سامنا کریں گے۔ ہمارے پاس ٹروجن ہارس کو اپنے قلعے میں لے جانے سے پہلے غور کرنے کا وقت ہے۔ ہمیں آب و ہوا کی تبدیلی کے خلاف جنگ جیتنے کے لیے ’’ایکی لیز‘‘ کی ایڑی پر ضرب لگانا ہوگی۔
موسمیاتی تبدیلیوں میں گرین ہاؤس گیسوں میں 11 فیصد اضافہ کرکے دیگر ذمہ داران عوامل کے ذریعہ شامل کُل 6 فیصد کے مقابلے میں انسان انتہائی ذمہ دار ہیں۔
یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے مختص فنڈز میں سے صرف 3 فیصد قدرتی حل پر استعمال ہوتے ہیں۔
اس عفریت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ہمیں قدرتی حل میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔ ہمیں پودے لگانا اور دوبارہ لگانا ہوں گے۔ شجرکاری کے ذریعہ ہم نہ صرف آب و ہوا کی عفریت کو قابو کرسکتے ہیں بلکہ ہم تیل اور گیس کی صنعت سے زیادہ ملازمتیں بھی پیدا کرسکتے ہیں۔
اگر درجۂ حرارت اپنے موجودہ تناسب کے ساتھ بڑھتا رہا تو، 2030ء سے 2052ء میں درجۂ حرارت میں 1.5 فیصد اضافہ کا خدشہ ہے۔
پچھلی صدی کے دوران میں آٹھ جزیروں کو سمندروں نے نگل لیا تھا۔ لندن کی زوالوجی سوسائٹی کے مطابق جنگلی حیات میں گذشتہ 40 سالوں کے دوران میں 40 فیصد کمی واقع ہوئی ہے اور 1970ء سے 2014ء تک مچھلی، پرندوں، رینگنے والے جانوروں اور کچھ دوسری نسلوں میں 60 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں CO2 سب سے بڑا خطرہ ہے۔ CO2 کی مقدار جس کا اندازہ لگایا جاتا ہے کہ وہ 1750ء کے بعد سے موجود ہے۔ پچھلے 40 سالوں کے دوران میں ہوا میں شامل کیا گیا ہے۔ہم ان کی پیداوار سے زیادہ قدرتی وسائل بھی استعمال کر رہے ہیں۔
انسانی تاریخ کی سب سے مہلک اور خطرناک موسمی صورتِ حال گذشتہ دو دہائیوں میں تین فیصد زیادہ واقع ہوئی ہے۔ موسلا دھار بارش نے چار فیصد، ہیٹ اسٹروک میں 43 فیصد، قحط سالی 17، سیلاب میں 16 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔
2018ء میں 120000 مربع کلومیٹر اشنکٹبندیی جنگلات کاٹ دیے گئے، جس کے نتیجے میں دنیا کی آب و ہوا میں 11 فیصد زیادہ CO2 پیدا ہوا۔ ہم آنے والے 20 سالوں میں 1 عرب ٹن پلاسٹک شامل کرنے جا رہے ہیں جو صورتِ حال کو مزید گھمبیر بنا دے گا۔
برطانیہ نے موسمیاتی تبدیلیوں سے بچنے کے لیے 2050ء تک موٹر کاروں کو بجلی بنانے کا ہدف بنایا ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کے بارے میں ہماری مشکوک پالیسی ہے…… جیسا کہ مسئلہ کشمیر پر ہمارے پاس ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی تلوار ہمارے سروں پر لٹک رہی ہے اور ہم ابھی تک تسلی بخش سطح پر نہیں پہنچ سکے ہیں۔ ہمیں اپنی آب و ہوا کی پالیسی کا جائزہ لینا ہوگا اور اسے موجودہ حالات کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ ہم بدی کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنے کے پابند ہیں۔ ہمیں شعور بیدار اور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
قارئین، ہمیں اس کے بارے میں اپنے قومی نصاب میں ابواب تحریر شامل کرنا ہوں گے۔ ہم پودے لگانے کی مہمات کے ساتھ ساتھ قدرتی وسائل کی حفاظت کرکے بھی اسے سنبھال سکتے ہیں۔ شدید بارشیں موسمی تبدیلیوں کی طرف ایک اشارہ ہے۔ ہمیں فوراً اس مسئلے پر کان دھرنے کی ضرورت ہے۔ ہندوکش، قراقرم اور ہمالیہ پہاڑوں پر برف پگھلنے سے شدید سیلاب آسکتا ہے جس سے ہماری زراعت متاثر ہوگی۔ اس سے آبادی میں مزید ردوبدل ہوسکتا ہے۔
اگرچہ ’’پلاننگ کمیشن‘‘ نے آب و ہوا کی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے قیمتی تجاویز دی ہیں…… لیکن پھر بھی ہمیں ان فائل کی تجاویز کو عملی شکل میں لانے کی ضرورت ہے۔
اگر ہم اس سنگین مسئلے کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو ہم مستقبلِ قریب میں زراعت میں کمی اور آبادی میں اضافہ کے ساتھ ساتھ پانی کی قلت، معاشی انحطاط، دفاعی اور صحت کے مسائل کا بھی سامنا کریں گے۔ ہمارے پاس ’’ٹروجن ہارس‘‘ کو اپنے قلعے میں لے جانے سے پہلے غور کرنے کا وقت ہے۔
ہمیں آب و ہوا کی تبدیلی کے خلاف جنگ جیتنے کے لیے اکیلیز کی ایڑی (Achilles Hell) پر ضرب لگانا ہی ہوگی۔
………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔