قینچی کو بائیں ہاتھ میں پکڑیں اور کپڑے کو کاٹنے کی کوشش کریں۔ کپڑا نہیں کٹے گا، اور اگر کٹ بھی گیا، تو سخت مزاحمت کے بعد۔ کیوں کہ قینچی سجوں (دائیں ہاتھ والے) کے لیے بنی ہوتی ہے۔
قارئین، ڈھیر ساری چیزیں ایسی ہیں جو صرف دائیں ہاتھ کی مدد سے استعمال میں لائی جاسکتی ہیں۔ ان میں کمپیوٹر ماؤس یا کی بورڈ پر دائیں جانب ہندسے بھی شامل ہیں۔ کلاس روم کے لیے بنائی گئیں کرسیاں کھبوں (بائیں ہاتھ والوں) کے لیے کسی مصیبت سے کم نہیں۔ کیوں کہ ان کا ہینڈل بھی دائیں طرف ہوتا ہے، تو کھبے جب اس کرسی پر کچھ لکھتے ہیں، تو وہ بے چارے سیدھا نہیں بیٹھ سکتے۔ یہ لوگ سبق پڑھتے ہوئے مشکلات سے دو چار ہوتے ہیں۔
قارئین، کھبوں کا ذہن تیز ہی کیوں نہ ہو، پھر بھی ’’اکیڈمک ریکارڈ‘‘ ان کا سجوں کی طرح شان دار نہیں رہتا۔
عورتوں کی نسبت کھبے مرد تعداد میں زیادہ ہیں۔ دنیا میں تقریباً دس سے لے کر پندرہ فی صد لوگ اُلٹے ہاتھ والے (کھبے) ہیں، جن میں اکثریت نیدرلینڈز میں پائی جاتی ہے۔ سجے خوراک کو منھ میں دائیں جانب جب کہ کھبے بائیں جانب چباتے ہیں۔
سجوں اور کھبوں کا دماغ کافی حد تک ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ جتنی بھی تحقیقات ہوئی ہیں، ان سب کے مطابق کھبوں کو سجوں پر قابلیت اور صلاحیت کے لحاظ سے فوقیت حاصل ہے، مگر ان لوگوں کو سر درد اور الرجی کا مرض عام طور پر لاحق ہوتا ہے۔ بے خوابی کی شکایت کے ساتھ ساتھ یہ آسانی کے ساتھ ڈپریشن کا شکار ہوا کرتے ہیں۔ یہ لوگ زیادہ دیر تک پڑھ سکتے ہیں نہ لکھ ہی سکتے ہیں۔ جلدی بور ہوجاتے ہیں۔ انہیں ذہنی تناؤ کی شکایت رہتی ہے، جس کی وجہ سے غصہ آنے میں انہیں دیر نہیں لگتی۔ سوتے وقت اچانک بازوں یا ٹانگ کو جھٹکا لگنے کی بیماری بھی ہوتی ہے، اور اچانک یہ بیدار بھی ہوجاتے ہیں۔
قارئین، تحقیق سے ثابت ہے کہ کھبے (بائیں ہاتھ والے) باآسانی ڈر جاتے ہیں اور نروس ہونے میں دیر نہیں لگاتے۔ نفسیاتی اور دماغی امراض کھبوں کو باآسانی جکڑا کرتے ہیں۔ ان کے ذہنی تناؤ کی وجہ یہ ہے کہ معمولی سی بات کو یہ لوگ دل پہ لیتے ہیں، اور ذہنی خلجان کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ غلطیوں سے کتراتے بہت ہیں۔
کھبے اپنی منفرد سوچ و فکر رکھتے ہیں۔ یہ لوگ خیال باف اور مفکر قسم کے ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کے بائیں ہاتھ کے ناخن جلدی بڑھ جایا کرتے ہیں۔ ان کی سننے کی حس بہت تیز ہوتی ہے۔
اس حوالہ سے امریکن جرنل آف سائیکالوجی میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کھبے کی فکری صلاحیت مضبوط ہوتی ہے۔ دنیا کے بڑے مجددین میں کھبوں کی تعداد زیادہ ہے۔
کھبوں کی قابلیت اور تخلیقی صلاحیتوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انسانی دماغ کراس وائیرڈ ہوتا ہے۔ اس لیے یہ لوگ زیادہ تر دماغ کے دائیں حصے کا استعمال کرکے سوچتے ہیں، جب کہ سجے (دائیں ہاتھ والے) دماغ کے بائیں حصے پر انحصار کرتے ہیں۔
کھبوں میں اسامہ بن لادن، بل گیٹس، امریکی مشہور صدر باراک اُبامہ کے علاوہ بش سینئر، بالی ووڈ کے بادشاہ امیتابھ بچن، سائنس کی دنیا میں تہلکہ مچانے والے البرٹ آئن سٹائن اور اساک نیوٹن شامل ہیں۔
اس کے علاوہ امریکہ کے آٹھ صدور کھبے ہو گزرے ہیں۔ ہالی ووڈ کی مشہور اداکارہ انجلینا جولی، مشہور کامیڈین چارلی چپلن، وسیم اکرم، تھومس جیفرسن، نپولین، بھارت کے مہاتما گاندھی جی، ارسطو، سکندرِ اعظم، برطانیہ کی ملکہ وکٹوریہ اور ڈیوڈ کیمرون کے علاوہ کشمیر کے مسلمانوں کا قتلِ عام کرنے والا نریندر مودی، مشہور بھارتی کامیڈین کپل شرما اور جسٹین بائبر بھی کھبے ہیں۔
یہ ہی نہیں برطانوی ملکہ الزبتھ دوم، پرنس ویلئم اور پرنس چارلس بھی اسی فہرست میں آتے ہیں۔ سنچریوں کی سنچری بنانے والا بھارت کا سچن ٹنڈولکر کرکٹ دائیں ہاتھ سے کھیلتا تھا، مگر باقی کام کاج کے لیے الٹا ہاتھ استعمال کرتا تھا۔ ٹنڈولکر تیرہ اگست کو ’’ورلڈ لیفٹیز ڈے‘‘ (کھبوں کا عالمی دن) بھی مناتے ہیں۔تیرہ اگست کو ٹویٹر پر ٹنڈولکر کے اکاؤنٹ کے وال پر یہ الفاظ دیکھے گئے ہیں: "I may be left handed…. but I am always right. Happy Left Handers Day.”
ہمارے لیجنڈ کرکٹر وسیم اکرم بھی تو کھبے ہی تھے۔
قارئین، ان ذکر شدہ شخصیات کے علاوہ سطحِ زمین پر ڈھیر ساری شخصیات ایسی ہیں، جنہیں اس مختصر سی تحریر میں سمونا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
یاد رکھیں کہ ہر سال تیرہ اگست کو ’’کھبوں کا عالمی دن‘‘ منایا جاتا ہے۔

………………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔