عید کی مصروفیات سے فراغت ملی، تو کرنے کو کچھ ڈھونڈ رہا تھا کہ اچانک چیٹ جی پی ٹی (ChatGPT) کا خیال آیا۔ پھر کیا تھا فورا ہی موبائل فون نکالا اور چیٹ جی پی ٹی کھولا۔
جن قارئین کے لیے یہ لفظ نیا ہے، اُن کے لیے عرض ہے کہ یہ ایک نئی ٹیکنالوجی ہے، جس کے حوالے سے کمپیوٹر اور موبائل فون کے ذریعے جان کاری حاصل کی جاسکتی ہے۔ بنیادی بات مگر یہ ہے کہ اس کا دار و مدار مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) پر ہے۔ آسان لفظوں میں اس کا مطلب ہے کہ یہ ایک مشینی ذہانت ہے، جو کمپیوٹر کی دنیا میں پہلے سے موجود مواد (Data)کو بروئے کار لاکر آپ کے کسی بھی سوال کا جواب باآسانی دے دیتا ہے۔
اکرام اللہ عارف کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ikram-ullah-arif/
اگرچہ یہ عمل اب تک ابتدائی یا یوں کہیے کہ کافی حد تک آزمائشی مراحل میں ہے…… لیکن اس ابتدائی مرحلے نے بھی انسان کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ اس حیرانی کے پیچھے ڈھیر ساری وجوہات ہیں، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ابھی تک کائنات میں جتنی مخلوقات ہیں، ان میں بہ لحاظِ عقل و فہم معتبر صرف حضرتِ انسان ہے۔ باقی جتنے بھی ہیں، کئی چیزیں ان کو ودیعت کی گئی ہوں گی، مگر عقل سے انھیں محروم رکھا گیا ہے۔ اس لیے اُن کی اکثریت کامل طور پر فطری اصولوں پر کار فرما رہتی ہے۔
آج تک کسی نے نہیں دیکھا ہوگا کہ سورج مشرق کی بجائے مغرب سے نکلا ہے اور مغرب کی بجائے شمال یا جنوب میں غروب ہوا ہے۔ اس طرح کوئی نہیں کَہ سکتا کہ کہیں پر درختوں نے بہار میں سرسبز اور خِزاں میں اُجڑنے سے انکار کیا ہے۔ یہ ممکن نہیں…… کیوں کہ سورج ہو یا درخت، دونوں خدا کی مخلوقات میں سے ہیں، مگر عقل سے عاری ہیں۔ اس لیے خدا کی طرف سے مقررہ کردہ فطری اصولوں پر کاربند ہیں۔ برخلاف ان کے انسان جو عقل رکھتا ہے، اُس کو اختیار ہے کہ ایمان لائے یا کفر اختیار کرے۔ اب ان دونوں میں سے جو بھی راہ اپنائی جائے گی، وہ عقل و شعور ہی کی بنیاد پر اختیار کی جائے گی۔ اسی تناظر میں عقل نے انسان کو مخلوقاتِ خدا میں ممتاز حیثیت عطا کی…… اور کوئی مشین ایسی ہو، جو مصنوعی ذہانت استعمال کرتے ہوئے انسانی عقل کو چیلنج کردے، تو انسانی ردِ عمل فطری ہوگا۔ آخر کون اپنے اختیارات میں کمی قبول کرسکتا ہے……؟
لیکن ’’چیٹ جی پی ٹی‘‘ نے ایسا کردیا ہے۔ اب اس سافٹ وئیر کو کوئی بھی سوال دیجیے، وہ لمحوں میں جس زبان میں آپ چاہیں، جواب دے دے گا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ سوال و جواب لازم نہیں کہ سائنس کے متعلق ہو، بلکہ آپ شعر و شاعری، افسانہ، ناول یا کسی بھی قسم کا سوال پوچھ سکتے ہیں۔ مثلاً: ایک دن مَیں نے اس سافٹ وئیر سے پوچھا کہ مجھے مشہور پشتو شاعر غنی خان کے تخلیق کردہ اشعار جیسی شاعری چاہیے۔ اس نے فوراً ہی پشتو کے اشعار لکھ دیے۔ حیران کن طور پر وہ اشعار کافی حد تک غنی خان کے اشعار سے مماثلت رکھتے ہیں۔ یوں بلا مبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ کسی کو اگر غنی خان کی شاعری کا خاص علم نہ ہو اور صرف اک آدھ بار سنی ہو، تو وہ چیٹ جی پی ٹی کی بنائی ہوئی شاعری کو غنی خان کی شاعری سمجھ لے گا۔ اس طرح مَیں نے کچھ دیگر سوالات بھی پوچھے اور اس کے جوابات بھی حیرت انگیز تھے۔
اب ٹیکنالوجی سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی جب عروج پر پہنچ جائے گی، تو انسانی زندگی کی ڈھیر ساری جہتیں یک سر بدل جائیں گی۔ میڈیکل کی دنیا میں انقلاب برپا ہوجائے گا۔ عام تعلیمی نظام کو بھی بے تحاشا چیلنجوں کا سامنا ہوگا۔ مثلاً کوئی بھی چیٹ جی پی ٹی کو کوئی موضوع دے کر اس پر کتاب لکھوا سکے گا اور پھر اُسے اپنے نام ہی سے شائع کرواسکتا ہے۔ طلبہ و طالبات کے لیے اسائنمنٹ لکھنا اب قطعاً مشکل نہیں رہا۔
قارئین! چوں کہ یہ ایک نئی ایجاد ہے، اس لیے اس کے فوائد و نقصانات پر بحث جاری رہے گی۔ ہمارے لیے سوال مگر یہی ہے کہ کیا ہم اس سے فائدہ لینے کے لیے تیار ہیں…… یا حسبِ سابق اس پر بھی ’’حرام‘‘ یا اس پر ’’کاہلی و سستی‘‘ کا لیبل لگا کر راہِ فرار اختیار فرمائیں گے؟ اگرچہ ہم سے پہلے اٹلی نے چیٹ جی پی ٹی کا استعمال ممنوع قرار دے کر فی الحال اسے اپنے ملک میں بند کردیا ہے، لیکن کیا اس پر پابندی ایک دانش مندانہ عمل ہے؟
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔