یہی تو وجہ ہے کہ سرد جنگ کے بعد مغرب نے پہلے سے سوچا تھا کہ ہمیں زندہ رہنے اور آگے بڑھنے کے لیے اب سے ایک دشمن پیدا کرنا ہے۔ لہٰذا انہوں نے مدتوں سے اسلام پر نظریں مرکوز کر رکھی تھیں کہ ’’کمیونزم‘‘ کے بعد اس کو بطورِ دشمن لینا ہے۔ قدرت میں اضافہ کرنے بلکہ بسا اوقات اسے قائم رکھنے کے لیے بھی مقابل کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا انہوں نے اس پر تھنک ٹینک اور ادارے لگائے کہ ابھی سے خاکہ اور منصوبہ بنایا جائے۔ اب انسان تو فطری اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں۔ حتی کہ ان کے اپنے دین کے حوالے سے ایپروچ اور طریقۂ کار بھی مختلف ہوتا ہے۔ بسا اوقات یہ اختلاف دشمنی کی حد تک چلا جاتا ہے۔ عیسائیوں میں، یہودیوں میں اور ہندوؤں میں بھی یہ دیکھا جاسکتا ہے، تو مسلمانوں میں بھی ایسا ہوگا اور ہے بھی۔ تو انہوں نے بھرپور ریسرچ اور تحقیق کے بعد مسلمانوں کی چار کیٹیگریاں بنائیں۔
٭ بنیاد پرست:۔ بنیاد پرست یعنی "Fundamentalist” ان کے نزدیک وہ ہیں جو اسلامی اقدار کو اپنانا اور اسلامی قوانین کو اس کی اصل روح کے مطابق نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں سے بعض اوقات دہشت گرد بھی نکل آتے ہیں، لیکن ضروری نہیں کہ سارے بنیاد پرست دہشت گرد یا ان کے سپورٹرز بھی ہوں۔
٭ روایت پرست:۔ روایت پرست یعنی "Traditionalists” وہ ہیں جو مغرب کی جدیدیت یعنی ’’ماڈرنزم‘‘ کو شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ ایک قدامت پسند معاشرہ کے خواہاں ہوتے ہیں۔
٭ جدت پسند:۔ جدت پسند یعنی "Modernist”وہ ہوتے ہیں جو دل سے مغرب کی جدیدیت کے دلدادہ ہیں، اسے اپنانا چاہتے ہیں لیکن اسلام کو بھی نہیں چھوڑنا چاہتے۔ البتہ وہ اسلام کو بھی جدید بنانا چاہتے ہیں کہ اس میں صرف اصطلاحات نئے نہ ہوں، بلکہ نئی اصلاحات ہوں اور وہ یہ اصلاحات قطعی الثبوت وقطعی الدلالہ اور ظنی الثبوت وقطعی الدلالہ نصوص یعنی مسلمات و متفقاتِ دین میں بھی کرنا چاہتے ہیں جس کو علمائے امت بالاتفاق الحاد اور تزندق کہتے ہیں۔
٭ سیلر:۔ سیکولر (Secular) جو امورِ اجتماعیہ میں دین کو دخیل نہیں کرنا چاہتے یعنی اجتماعی معاشرت، اجتماعی معیشت اور اجتماعی سیاست جیسے بھی ہوں، دین کا اس سے کوئی سروکار نہیں۔ اس کا تعلق صرف فرد سے ہے یعنی دین اور سیاست کو الگ کرنا ہے۔
کہتے ہیں کہ اول الذکر دونوں ایک دوسرے کے قریب تو ہیں، لیکن ایک جیسے نہیں۔ تو کوشش کی جائے کہ وہ کبھی ایک نہ ہوجائیں یعنی بنیاد پرست اسلام کو نافذ کرنا چاہتے ہیں جب کہ روایت پرست اس کو صرف اپنانے اور مغرب کی جدیدیت کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ کوشش کی جائے کہ ان کو ایک دوسرے سے لڑائیں۔ ایسا نہ بھی ہو، تو کوشش ایسا کریں کہ وہ ایک دوسرے سے نفرت کریں، یا کم از کم ایک دوسرے کو پسند نہ کریں۔ ان بنیاد پرستوں یا قدامت پسندوں سے اگر کوئی لغزش ہوجو انسان میں ہوگی ضرور، تو اس کو بڑھا چڑھا کے پیش کریں۔ اس کا بھرپور پروپیگنڈا کریں اور اس کام پران جدیدیت پسندوں اور سیکولرز کو لگائیں اور ان کو بھرپور سپورٹ اور تعاون دیا کریں، تاکہ ان کو قوت ملے اور بنیاد پسند اور قدامت پسند بدنام ہوں اور عامۃ المسلمین ان کے ساتھ جڑنے سے رہیں بلکہ ان سے نفرت کریں ۔
ان جدیدیت پسندوں کے ساتھ مکالمات کریں اور وہ بھی ان موضوعات پر جن میں ان کی تربیت کی گئی ہے۔ ان کو اس کا زیادہ پتا نہیں۔ نیز وہ موضوعات کہ جن میں وہ زچ ہوں اور یوں ان کے متعلق یہ تأثر عام ہو کہ یہ لوگ توحکومت چلانے کے اہل ہیں اور نہ ہمارے لیے کوئی مفید کام ہی کرسکتے ہیں، نہ ہمیں ترقی کے راستے پر گامزن کرسکتے ہیں بلکہ یہ تو ہمیں پتھر کے زمانہ میں واپس لے جائیں گے۔
نیز بنیاد پرستوں کے اگر کہیں ایک سے زیادہ گروہ ہیں، تو ان کو ایک دوسرے کے قریب آنے سے بھی روکے رکھیں بلکہ انہیں آپس میں لڑائیں، تاکہ ان کی قوت ایک نہ ہوسکے۔ نیز ریاست اور مذہب کو علیحدہ ثابت کرنے اور اسی کو خیر کا منبع قرار دینے کے لیے کانفرنس کیے جائیں جن میں جدت پسند اس موضوع پر بولتے رہیں۔ ان جدت پسندوں کو ایسا پروجیکٹ کریں کہ یہ دین کے صحیح نمائندے یا صحیح دین کے نمائندے تصور ہوں۔یوں ان کی بات خصوصاً دین وسیاست کی علاحدگی لوگوں کے قلب ودماغ میں بیٹھ سکے۔ ان کو بھرپور نوازشوں سے نوازیں بھی، ان کو مغربی ممالک کے سرکاری دورے بھی کروائیں۔ اگر کسی ملک میں کوئی ادارہ ہو جو دین کے لیے کام پر مامور ہو، تو کوشش کریں کہ ان اداروں میں ان قراقلیوں اور لکیر قسم کی داڑھیوں والوں کو بٹھائیں، تاکہ وہ دین کے صحیح تصور کو آگے نہ آنے دیں بلکہ جتنا محرف کرسکتے ہیں، وہ بھی کریں۔ ہاں! ان کے ساتھ ایک دو لکیر کے فقیر قسم کے لمبی داڑھی اور پگڑی والے بھی بٹھا کے رکھیں، تاکہ سند رہے۔ انہوں نے ویسے بھی کچھ کرنا تو ہے نہیں کہ انہیں تو کسی چیز کا پتا نہیں ہوتا۔ اور اگر ممکن ہو، تو قدامت پسندوں کے اداروں کے مقابلے میں کچھ جدید علوم اور جدید تصورات اور دین کے نشاۃِ ثانیہ کے نام پر ادارے بنائیں۔ ان میں بھی ایسی لمبی داڑھیوں پگڑیوں والوں کو بٹھاؤ تاکہ بیرونی کور صحیح دینی معلوم ہو لیکن ان داڑھیوں ،پگڑیوں والوں کا مختلف طریقوں سے پہلے ختنہ کرائیں، تاکہ انتشار نہ ہو۔کسی کو مال کے ذریعے اور کسی کو اخلاقی برائی کے حوالے سے بلیک میل کرکے۔
ایسے میں اہلِ دین ودل کو سوچنا ہے۔
……………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔