ناولٹ ’’برفباری کی رات‘‘ (1960ء) لاہور مری کے ایک سفر سے شروع ہو رہا ہے اور انتساب منیر نیازی کے نام ہے۔
’’لاہور میں بھی صوفی صاحب ایک ٹوٹا پھوٹا ہوٹل ہی چلاتے ہیں جو انہوں نے ٹھیکے پر لے رکھا ہے۔ ایک دن ہم سب دوست اُن کے پاس کاؤنٹر پر بیٹھے تھے کہ ایک سفید برقعہ پوش عورت آئی اور اُس نے صوفی سے آٹھ آنے مانگے۔ صوفی نے کاؤنٹر کے تمام دراز کھول کر دکھائے اور بولے: ’’قسم لے لو جو ایک پائی بھی ہو!‘‘ جب عورت بے نیل و مرام واپس چلی گئی، تو صوفی جیب سے اٹھنی نکال کر اُس سے کھیلنے لگے۔ ہم نے پوچھا: ’’کون تھی یہ عورت؟‘‘ مسکرا کر آہستہ سے بولے : ’’میری ماں تھی۔‘‘
یہ اقتباس ہمیں اصل میں کاروباری لوگوں کی ذہنیت بتاتا ہے جو گھٹیا اور کمینے ہوتے ہیں۔ رشتہ یا مذہب اُن پر اثرانداز نہیں ہوتا۔ پیسہ ہی اُن کے لیے سب کچھ ہوتا ہے۔ یہ چوں کہ لاہور سے مری تک کے ایک سفر کی روداد ہے، اس لیے اس میں کہانی کی مقدار ایک حد سے زیادہ نہیں، مگر دوستوں کا نقشہ خوب کھینچا گیا ہے۔ اس میں اور پھر مری کا ’’سلور کنگ ہوٹل‘‘ نام جتنا بڑا اصل میں اتنا ہی گھٹیا درجے کا، کیوں کہ اُس کا منتظم وہی صوفی لاہوری ہے جس نے اپنی ماں تک کو اٹھنی دینے سے انکار کیا تھا۔ وہ لاہور سے آئے دوستوں کو بھی کچھ فائدہ دینے کی بجائے اپنی ذہنیت کے مطابق ممکنہ حد تک لوٹتا ہے۔ اُن کے سالن سے بوٹیاں چُن چُن کر کھا جاتا ہے۔ اُن کے سگریٹ پھونک ڈالتا ہے مگر بے فکری کا زمانہ ہے۔ اچھا بُرا وقت سب ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ لاہور کی گرمی سے بھاگے ہوئے مری کی سردی میں پناہ لینے کو ہی بڑی بات سمجھتے ہیں۔
’’صوفی نے ہوٹل کے احاطے میں سیب کا پودا لگایا۔ وہ کم بخت بڑا ہونے میں نہیں آتا تھا۔ ایجنٹ نے اُس کی ٹہنی پر نبض دیکھنے کے انداز میں ہاتھ رکھ کر کہا : ’’ عنبری سیب نہیں ہے پیوند کی ہے، اور پھر مرچکا ہے۔ ہاں، یاد آیا میرے ایبٹ آباد والے گھر میں عنبری سیب کا درخت ہے۔ شہنشاہِ جاپان کے خاص محل کا تحفہ ہے۔ مجھے میرے ایک دوست افسر زراعت نے دیا تھا۔ عنبری سیب کے علاوہ مَیں نے کبھی کوئی اور سیب نہیں کھایا۔‘‘
اے۔ حمید نے انشورنش ایجنٹ کا خوب نقشہ کھینچا ہے جو صرف لپاڑو ہوتے ہیں اور چرب زبانی کی کمائی کھاتے ہیں۔ مصنف کے تمام دوست رنگ برنگ اور اپنے اپنے مزاج کے ہیں۔ شراب اُن سب کا مشترکہ شوق ہے۔ عورت سے بھی دل بہلا لیتے ہیں۔ اُن میں رحمی سب سے وکھری ٹائپ کا نکلتا ہے۔ جو ہوٹل کے سامنے رہنے والی دھوبن کو قابو کر لیتا ہے۔ اُس کے اس معاشقے سے ہوٹل کے مالک صوفی سمیت سب جلتے ہیں۔ جب رحمی کے دوست اُسے کمرے میں دھوبن کے ساتھ رنگ رلیاں منانے سے منع کرتے ہیں، تو وہ خود دھوبن کے گھر جانے لگتا ہے جو رات کو گھر والوں کے سو جانے پر اُسے لالٹین لہرا کر آ جانے کا گرین سگنل دیتی ہے۔
’’چنانچہ ایک دن بعد سارا بھید کھل گیا۔ صوفی دوڑا دوڑا پریشانی کے عالم میں ہمارے کباڑ خانے میں آیا اور ہانپتے ہوئے بولا: ’’نیچے سپاہی آیا ہے۔یہ کمینے رحمی نے نیا گل کھلا دیا۔ وہ مجھ سے رحمی کا اتا پتا پوچھ رہا ہے۔اُس کے ساتھ دھوبیوں کا چوہدری بھی ہے۔ اُس سے دھوبن کو حمل ہوگیا ہے۔ اُس کے باپ نے پولیس میں رپٹ درج کروا دی ہے۔ اب کیا ہوگا؟ میری تو ناک کٹ جائے گی۔ ’’اور بیٹا جیل کی ہوا بھی کھانی ہوگی۔ تم بھی تو دھوبن کے بوسے لیا کرتے تھے۔‘‘
یہ عام سا لگنے والا ناولٹ اپنے اختتام کی طرف بڑھتا بڑھتا اچانک ایک بڑے ادبی شہ پارے کا درجہ اختیار کرلیتا ہے۔ جیسے ہی انسانیت کی بات آتی ہے اور ایک شرابی کے اندر انسانیت جاگتی ہے، تو سب کچھ بدل کر رہ جاتا ہے۔ اے حمید قاری کے دل سے کھیلنا جانتا ہے۔ اُسے پتا ہے کہ اُس نے قاری سے کہاں اور کیسے داد وصول کرنی ہے؟
’’صرف ایک کھڑکی میں ہلکی ہلکی روشنی ہو رہی تھی۔ غم نصیب غریب خاوند دیا جلائے اپنی نوبیاہتا بیوی کی راہ دیکھ رہا تھا۔ کسی نے بڑی بے تابی سے دروازہ کھول دیا۔ سامنے وہی کمبل پوش دبلا آدمی کھڑا تھا۔ اُس کی بیوی بھاگ کر اُس سے جا لپٹی اور اُس کے گلے سے لگ کر رونے لگی۔ خاوند کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔ جاوے نے صرف اتنا کہا اور اُس کی اپنی آواز رندھی ہوئی تھی: ’’مَیں تمہاری بیوی کو نہیں اپنی بہن کو اس کے گھر چھوڑے جا رہا ہوں۔‘‘
رومانوی اُسلوب اے حمید کی پہچان ہے اور وہ اُن کے مری پر لکھے ہوئے اس ناولٹ میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ کمال بانسری میں نہیں اُسے بجانے والے میں ہوتا ہے۔ اے حمید کی تحریر اس لیے بھی اپنی شفافیت رکھتی ہے کہ انہوں نے تواتر سے لکھا ہے۔ ایک اچھی تحریر کو بنانے کے لیے مصنف جو جو حربے اختیار کر سکتا ہے، وہ سب کے سب اے حمید کے پاس ہیں۔ اختتام کے حوالے سے ناولٹ کی بُنت کاری اے حمید نے کچھ یوں کی ہے کہ رحمی کے دھوبن والے سکینڈل کے بعد سب دوست گھبرا جاتے ہیں اورایک ایک کر کے مری سے نکل جاتے ہیں۔ صرف مصنف اور جاوا بھالو آف نتھیا گلی ہوٹل سلور کنگ میں رہ جاتے ہیں۔ ایسے عالم میں انہیں ہوٹل کے باہر ایک غریب آدمی ملتا ہے جو خیبرٹی کمپنی میں چپڑاسی ہے جس کی بیوی نے پنڈی سے مری آنے والی آخری بس پر آنا تھا، مگر وہ اُسے لینے بروقت نہ پہنچ سکا تھا۔ اب بہت پریشان تھا کہ وہ کہاں گئی ہوگی؟ وہ بندہ چلا جاتا ہے۔ مصنف اور جاوا بھالو اپنے کمرے میں آتے ہیں، تو کچھ ہی دیر بعد صوفی آکر انہیں بتاتا ہے کہ اُس نے لڑکی گھیری ہے۔ آ جاؤ مل کر عیش کرتے ہیں۔ وہاں جا کر جب انہیں پتا چلتا ہے کہ وہ لڑکی اُسی چپڑاسی کی نوبیاہتا ہے جسے وہ تلاش کرتا پھر رہا تھا، تو جاوے بھالو کی انسانیت اُس کی حیوانیت پر غالب آ جاتی ہے۔ وہ صوفی کو اس حرکت پر خوب مارتا ہے اور لڑکی کو اُس کے خاوند کے پاس باعزت طور پر چھوڑ آتا ہے۔
اس اختتام کی صورت میں مصنف نے قاری کے لیے یہ نکتہ چھوڑا ہے کہ گناہ کی لذت وقتی مگر ضمیر کی خلش بہت تڑپا دینے والی ہوتی ہے۔ ہمیں وقتی خوشی کی خاطر کسی کی زندگی کو تباہ کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ انسان کا ضمیر اُس کی سب سے بڑی قوت ہے۔ یہی انسان کو اچانک بڑا بنا سکتا ہے اور بصورتِ دیگر ہمیشہ کے لیے رسوائیوں کی کھائی میں دھکیل بھی سکتا ہے۔ خیر و شر ہر انسان کے اندر موجود ہے مگر وہ اسے کس وقت کیسے استعمال کرتا ہے؟ یہی بات اُس کے اصل مقام کا تعین کرتی ہے۔
اے حمید کے اسلوب کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے ناولٹ کا نام تو ’’برفباری کی رات‘‘ رکھا ہے مگر پورا ناولٹ برفباری کے بغیر ہی ختم بھی ہو جاتا ہے مگر قاری تحریر میں ایسا سمو جاتا ہے کہ اُسے برفباری سمیت سب کچھ بھول جاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جو قارئین میں مقبول ادیب کو اُس کی مسلسل محنت کے انعام کے طور پر حاصل ہو جاتا ہے۔
اے حمید کا اُسلوب ایسا پُرکشش ہے کہ قاری انہیں پڑھتا چلا جاتا ہے اور یہ عالم شروع سے آخر تک یکساں رہتا ہے۔ اُن کی نثر بڑی جاذب ہے۔
……………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔