کئی جھومر بیک وقت گلگت بلتستان کے وسیع پیشانی کی زینت بنے دکھائی دیتے ہیں۔ آپ اس کے اِرد گرد گھومتے جائیں، جھومر بدلتے جائیں۔ جونہی موسم بدلے، سویہ میک اَپ بدلے۔ یہ جھومر اپنے باسیوں کی خوشی کو دوبالا کریں۔ تھکان کو ہلکا اور غم و فسوں کو پس کریں۔ غذرکی وادی واقعی جادو کی نگری ہے جو جھومروں کی جھلک میں اپنی پہچان آپ کروائے۔ کوئی دو لاکھ نفوس بستے ہیں یہاں۔ گلگت مختلف علاقوں کے لئے مرکزی انٹری پوائنٹ ہے۔ ہُنزہ اور سوست یا خنجراب جانا ہے، یہیں سے چلے چلو۔ سکردو اور نلتر وادیاں آپ کو اپنی طرف کھینچ رہی ہیں، توگلگت دعوت دیتا ہے، یہاں سے ہو کے چل۔ غذر،چترال کا چکر دل کو چکرا رہا ہے، تو گلگت سے بغلگیر ہوئے بغیر کیسے جاؤ گے؟ اس بابرکت شہر کا طواف تو کرنا ہی پڑے گا ہر حال میں۔ ہنزہ سے غذر جاتے ہوئے کسی شارٹ کٹ کی تلاش میں راستہ بھول کر گلی کوچوں میں پھنس گئے، لیکن جہاں راستہ بھول جاؤ، تو یہاں کی پولیس اور کس کام کی؟ وہ تو ایسی ہے جیسے مدتوں سے شناسائی ہو۔ نہ صرف یہ کہ آپ کو سیدھا راستہ بتا ئے گی، ضرورت ہو تو ساتھ بیٹھ کر آپ کو منزلِ مقصودتک پہنچائے گی بھی۔ ہاتھ باندھ کرخدمت کا بھی پوچھے گی۔ یہ بات ہوتی ہے ٹریننگ کی، بے لوث خدمت کی اور حسن و اخلاق کے اعلیٰ معیار کی۔ صرف پولیس والوں پر کیا موقوف، کسی بھی راہ چلتے مقامی فرد سے اپنا مسئلہ بیان کریں ۔وہ مسئلہ کے حل کی راہ نکالے گا، تو ہی اپنی راہ لے گا۔

غذر کے علاقہ کا ایک منظر

غذر اور استور میں رات کو ہماری ایک گاڑی خراب ہوئی اور دونوں جگہوں پر نہ صرف قیام و طعام کی پیشکش ہوئی بلکہ گاڑی ٹھیک کرنے کے لئے لوگوں نے موٹر سائیکلیں نکال کر میکنک کا بندوبست کیا اور مشکل آسان ہونے تک ہمارا ساتھ بھی دیا۔ گلگت بلتستان کے تمام لوگوں، کاروباری حضرات، ہوٹلز کے مالکان، پولیس والوں اور اُن کے بڑوں کو ہماری طرف سے بے حساب پیار و محبت اور سلام و دعا۔ پولیس والے ہوں، تو ایسے ہوں، ورنہ نہ ہوں۔ اس وقت اپنے علاقوں کی اکثر پولیس والوں کی حریص آنکھیں، بدنما شکلیں، کالے کرتوت اور کالی زبانیں ذہن میں آتی ہیں، تو دل کرتا ہے کہ وہاں سے یہاں مستقل نقلِ مکانی کی جائے۔
آخرِکار ہنزہ سے گلگت پہنچ کر ہی دم لیا، دوستوں کی آؤ بھگت سے مستفید ہوئے اور آگے چلتے بنے۔ گلگت سے غذر تک کی کوئی ایک سو چالیس کلو میٹرسڑک کہیں تنگ ہے، کہیں خراب۔ یاسین درہ تک ڈھائی سے تین گھنٹے یا زیادہ کا وقت لگتا ہے۔ ویسے اپنے ملک میں یہ پہلی سڑک دیکھی ہے جہاں سے گزرتے ہوئے باقاعدہ طور پر اگلے گاؤں کا نام، فاصلہ، سطحِ سمندر سے بلندی اور بعض دیگر معلومات بہت ہی خوشنما انداز میں سائن بورڈز پر درج ہیں۔ عام لوگوں کو بھی سیاحوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے ملنے اور اُن کی مدد کرنے سے متعلق ہدایات جگہ جگہ سائن بورڈز پر لکھی ہوئی ہیں۔ شکریہ فدا خان فدا، جو وزارتِ سیاحت کے وزیر ہیں اور اُن کی ٹیم کا۔
وادئی غذر کھلا ڈھلا علاقہ ہے۔ مجھے رشک آیا جب سڑک کنارے سوات کی طرح ایک دریا بہ روئے اباسین تیزی سے بہتا دیکھا، لیکن سوات کے مقابلے میں یہاں کا پانی بہت ہی ’’باوضو‘‘، ’’نیک و پارسا‘‘، شفاف اور یخ ٹھنڈا دیکھا۔ پلاسٹک کے تھیلے اِدھر اُدھر پڑے دیکھے، نہ غلاظت کے ڈھیر۔ اپنے سوات کے میونسپل کارپوریشن کی گاڑیوں کی طرح یہاں گندگی اور آلائشوں سے بھرپور گاڑیاں’’اَن لوڈ‘‘ ہوتی دیکھیں، نہ لوگوں کو گندگی کا ملبہ پھیلاتے دیکھا۔ بس جو بھی دیکھا، جس کو بھی دیکھا اس دریا سے پیار و محبت کرتے دیکھا۔ دریا کا یہ پانی اباسین میں ڈوبنے کے لئے اتنی بے چینی سے دوڑ رہا ہے، جتنا دھماکا کرنے کے لئے کوئی خود کش۔ گویا کہ یہ بھی کسی’’حور‘‘سے ملنے کے لئے بے قرار ہے۔ کاش، اس دریا کو عقل آ جائے کہ آگے جا کر خود کش کی طرح نام سے بھی ہاتھ دھونا ہوگا اور حورسے بھی……!

گلگت سے غذر تک کی کوئی ایک سو چالیس کلو میٹرسڑک کہیں تنگ ہے، کہیں خراب۔ یاسین درہ تک ڈھائی سے تین گھنٹے یا زیادہ کا وقت لگتا ہے۔ ویسے اپنے ملک میں یہ پہلی سڑک دیکھی ہے جہاں سے گزرتے ہوئے باقاعدہ طور پر اگلے گاؤں کا نام، فاصلہ، سطحِ سمندر سے بلندی اور بعض دیگر معلومات بہت ہی خوشنما انداز میں سائن بورڈز پر درج ہیں۔

ٹراؤٹ مچھلی دریا میں بھی ہے اور پرائیویٹ فارمز میں بھی۔ مارچ کے مہینے میں مچھلی کے شکاریوں کی آمد شروع ہوجاتی ہے، جو چھے سات مہینے تک جاری رہتی ہے۔ خبردار! شکار کے لئے فشریز ڈیپارٹمنٹ کا لائسنس لینا ضروری ہے۔ رشک آیا جب اس ضلع کے ہیڈ کوارٹر گاہکوچ کی کھلی ڈھلی سڑک، اُجلے دھلے اور باسلیقہ بازار سے گزرے۔ سڑکوں، گلی کوچوں، لوگوں اور انتظامی عملہ کو غائبانہ سلام کیا، دل سے دعائیں دیں اور چلتے بنے۔ مجھے رشک آیا جب باغات اور سڑک کنارے خوبانی، انگور، انار، سیب، چیری اور اخروٹ کے درختوں میں بعض کوپھلوں سے لدھے پھولوں جیسے غنچے آنے جانے والوں کو ’’آ،مجھے کھا‘‘ کی دانستہ دعوت بھی دے رہے ہیں ، دعوتِ نظارہ بھی اور ’’پخیر راغلے‘‘ بھی کہہ رہے ہیں۔
ستا د راتلو پہ خوشالئی کے حمزہ
لیونے نہ شو لیونے غوندے شو
کائنات کے قرینے کا یا بے ترتیبی کا جلوہ ہو، یا انسانوں کی خوبصورتی یا حسن و جمال کا جلوہ ہو، اسے دیکھ دیکھ کر نظریں سکون و طمانیت اور مٹھاس سے ایسے مسرور ہوں ایسے، جس کو الفاظ کا جامہ پہنانا کم از کم ہمارے لئے ممکن نہیں۔ یہاں کے لوگوں کی دیگر قوموں کے علاوہ پختونوں کے ساتھ بھی زیادہ ہم آہنگی ہے۔ کھیت کھلیان میں خواتین اپنے مردوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ کام کرتی ہیں۔ مہمانوں کے ساتھ راہ چلتے سلام دُ عا کرتی ہیں۔ ہلکے پھلکے گھرہیں۔ چھوٹے چھوٹے نِکے نِکے در و دیوار ہیں۔ ہریالی اور سبزہ ہے۔ مال مویشی اور پرندے ہیں اور انسان ہیں۔ یہ جنت نظیر ٹکڑا ان سب کا آپس میں مشترکہ مسکن ہے، کسی کا کسی چیز پر کوئی غاصبانہ قبضہ نہیں، کیوں کہ یہ ریاستی نہیں۔ پرندے کو کوئی ڈر نہیں انسان سے۔ انسان کوڈر نہیں کسی چور سے،کسی ’’پڑھ‘‘ یا اَن پڑھ سپاہی سے جس کے ہاتھوں میں ریاستی کلاشنکوف بھی ہو،کسی درندے سے نہ کسی سانپ بچھو یا کسی جانور سے۔ مرد و خواتین، بچے اور بچیاں گلی کوچوں میں، دروازوں میں، کھیتوں میں بیٹھے کھڑے آپس میں حال و احوال بیان کرتے ہیں، ’’حالہ دئی‘‘ کرتے ہیں۔ مرد و زن کو تعلیم کے ایک جیسے مواقع حاصل ہیں۔ ایک کمی کا احساس بعض خواتین میں ضرور ہے، یہاں ساری بچیاں تقریباً پڑھی لکھی ہیں، لیکن اُن میں اکثر کے ساتھ اپنے مستقبل کے متعلق فیصلہ کرنے کا آزادانہ اختیار نہیں ہوتا۔ ایسے میں بعض تعلیم یافتہ خواتین جب اپنی ان مجبوریوں کی طرف دیکھتی ہیں، تو مشکلات کا مقابلہ کرنے کے بجائے اپنی زندگی کا چراغ گل کرنے کی طرف مائل ہو جاتی ہیں اور بسا اوقات خود کشی کرتی ہیں یا خاندانی غیض و غضب کا شکار ہو جاتی ہیں، تاہم وقت کے ساتھ ساتھ اس رجحان میں کمی آ رہی ہے۔ یہاں کے تدریسی اور غیر حکومتی اداروں کو اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لئے طور طریقے تلاش کرنے ہوں گے اور سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہ خواتین کو مہیا حالات میں خود کو ’’ایڈجسٹ‘‘ کرنے کے ڈھنگ کیسے سکھائے جائیں؟ ویسے غیرت کے نام پر قتل یہاں بھی ہوتے ہیں، لیکن کبھی کبھار۔ جائیداد کے نام پر قتل کا کوئی واقعہ ہمارے ایک مقامی دوست جس کی عمر پچاس پچپن برس ہوگی،کو یاد نہیں۔ پہنتے شلوار قمیص ہیں۔ پینٹ شرٹ کے ساتھ بھی رغبت رکھتے ہیں، لیکن جوان۔ اسماعیلی فرقہ ساٹھ فیصد اور دیگر میں زیادہ سنی اور پھرشیعہ فرقہ غالب ہے۔ ایسے خاندان بھی ہیں جن میں آدھے سنی اور آدھے اسماعیلی ہیں۔ ’’لوکل جسٹس‘‘ کی بروقت فراہمی کے لئے ایک ثالثی بورڈ بھی ہے جو خانگی جھگڑے اور معمولی نوعیت کے معاملے خود ہی نمٹاتا ہے۔ تھانوں وغیرہ میں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ اور ہاں جماعت خانے (مسجد) کے امام کو باقاعدہ ماہانہ وظیفہ بھی دیا جاتا ہے۔ ہمارے جیسے ’’مفت ملا‘‘ نہیں ڈھونڈتے۔ اٹھارہ سال سے کم عمر بچیوں کی شادیاں نہیں کی جاتیں۔ سوائے زبان کے یہاں کے لوگوں کے رواج، سماج، کھانے پینے، اُٹھنے بیٹھنے اور رنگ و روغن کو دیکھ کر لگا کہ ہم اپنے گاؤں میں ہیں۔ کھاتے دال سبزیاں ہیں۔ نمک مصالحہ، گھی وغیرہ کے ساتھ کھانے پینے کا بہت کم شغل کرتے ہیں۔ عمریں بھی بڑی لمبی اور بیماریاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اپنے مقامی دوست نے معلومات کا خزانہ کھول کر ہماری مشکلیں آسان کیں۔
گل متی، ٹوپس، ہُنڈر اور فنڈر سے ہوتے ہوئے شام ڈھلے ہم یاسین پہنچے۔ غلام محمد اور اُن کے بھائی جان محمد، شیر افضل خان اور دیگر دوست گھر سے کئی کلو میٹر دور آکر راستے میں ہمارے استقبال کے لئے کھڑے تھے۔ ہماری آمد کی خوشی میں قربانی دینا پڑی، تو عجز و نیاز کے پیکر زندہ بکرے کی، جس کی ماں خیر مناتے مناتے تھک گئی ہے اور بکرے قربانی دیتے دیتے۔ جو مزید چیزیں ہم پر قربان کی گئیں، اُن میں ٹراؤٹ مچھلی اور مرغیوں کاایک جمِ غفیر بھی شامل تھا۔(جاری ہے)