بچوں کے تحفظ کے لیے دن رات کام کرنے والی ایک مقامی این جی اُو ’’ساحل‘‘ کی پچھلے سال کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گذشتہ ایک سال کے دوران میں بچوں پر جنسی تشدد کے مجموعی طور پر 2960 واقعات درج ہوئے ہیں۔ مذکورہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں پچھلے سال روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً آٹھ بچوں کو جنسی طور پر نشانہ بنایا گیا ہے۔ بچوں سے زیادتی کے واقعات کی تفصیل میں، بدفعلی کے 985، زیادتی کے 787، زیادتی کے بعد ویڈیو بنانے کے 89، زیادتی کے بعد قتل کے 80، اِغوا کے 834، بچوں کی گمشدگی کے 345 اور کم عمری کی شادی کے 119 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ بدقسمتی سے رواں سال کے اعداد و شمار پچھلے سال سے بھی زیادہ ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان کیسوں میں چار فیصد تک اضافہ دیکھا گیا ہے۔
درجِ بالا اعداد و شمار کو دیکھ کر ہمارے معاشرے کا مجموعی شعور اب تک جنسی زیادتی کے جن اسباب کا تعین کر چکا ہے وہ درجِ زیل ہیں:
٭ جنسی زیادتی کی سب سے بڑی وجہ فحاشی ہے، سخت سزاؤں کی عدم موجودگی کی وجہ سے جرائم بڑھتے ہیں، یہ سب اسلامی تعلیمات سے دوری کے نتائج ہیں، ہم اپنے مشرقی اقدار کو چھوڑ کر مغرب کے پیچھے بھاگ نکلے ہیں، ساری برائیوں اور مسائل کی وجہ خواتین کا لباس ہے، اس کی ایک وجہ انڈین فلمیں اور کلچر بھی ہے۔
حالاں کہ سائنس ان تمام تر مفروضوں کو کئی عرصہ قبل مسترد کرچکی ہے۔ مثلاً مسئلہ اگر فحاشی ہے، تو چھوٹے بچے اپنے گھر کی چار دیواری میں کیوں محفوظ نہیں؟ آپ کے بقول اگر سارے جرائم کی وجہ سخت سزاؤں کی عدم موجودگی ہے، تو سویڈن اور ناروے جیسے ممالک (جہاں سنگین سے سنگین تر جرائم کے لیے بھی سخت سزائیں موجود نہیں) کی جیلیں کیوں خالی پڑی ہیں؟ وہاں جرائم کی شرح کم کیوں ہے؟ اس کے ساتھ اگر یہ سب اسلامی تعلیمات سے دوری کا نتیجہ ہے، تو دینی مدارس اور دن رات مساجد میں قرآن کی درس و تدریس کرنے والے کچھ مفتی حضرات کیوں اس بیماری کی زد میں ہیں؟ اس طرح اگر آپ کے خیال میں جنسی آلودگی کی وجہ خواتین کا لباس ہے، تو چار اور پانچ سال کی بچیوں کے ساتھ ہونے والی درندگی کے لیے آپ کیا جواز پیش کریں گے؟ اور جو لوگ خواہ مخواہ انڈین فلموں کو جواز بنا کر اس گھٹن زدہ معاشرہ پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، اُن سے سوال یہ ہے کہ مفتی عزیز الرحمان نے اب تک کتنی انڈین فلمیں دیکھیں ہوں گی، جس نے 70 سال کی عمر میں مسلسل تین سال تک اپنے ایک طالب علم کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس فساد کی جڑ درج شدہ وجوہات نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔
بات یہ ہے کہ سب سے پہلے ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا ہوگا کہ یہ مسئلہ مشرق یا مغرب کا نہیں بلکہ ہمارے معاشرہ میں موجود ثقافتی، معاشرتی، معاشی اور سماجی گھٹن کے ساتھ ساتھ جنسی گھٹن کا موجود ہونا بھی ہے۔ یہ جنسی گھٹن معاشرے میں غیر فطری پابندیوں کی وجہ سے جنم لیتی ہے اور یوں وقت کے ساتھ ساتھ مذکورہ گھٹن لاوا بن کر کسی معصوم بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کے شکل میں اُبل پڑتی ہے۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ مجموعی طور پر یہ پورا معاشرہ جنسی گھٹن کا شکار ہے، مگر مدارس کا معاملہ قدرے الگ ہے۔ جب آپ کسی انسان کو غیر فطری اور غیر ضروری پابندیوں میں روکے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، تو انسانی فطرت اُس کے برعکس چل پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر جب آپ کسی مدرسہ کے طالب علم پر یہ پابندی لگاتے ہیں کہ آپ نے کسی خاتون کو نہیں دیکھنا، اس سے بات کرنا حرام ہے ، تصویر دیکھو، تو اُس پر سیاہی پھیر دو، ہر حال میں اپنے نفس کی حفاظت کرو، چوں کہ یہ بیانیہ کہنے، سننے اور دیکھنے کی مذمت کرتا ہے۔ سو اس میں تعلق، معاملہ، محبت اور پسند و نا پسند کی گنجائش از خود ختم ہو جاتی ہے۔ ساتھ ہی اس پورے بیانیے میں فحاشی، عیاشی، شہوت اور زنا جیسے کئی دوسرے الفاظ کا تکرار بہت شدت کے ساتھ ہوچکا ہوتا ہے اور جب یہ جملے اُن کے سامنے بار بار دھرائے جاتے ہیں، تو اس کے اندر ایک جنسی گھٹن اور محرومی جنم لیتی ہے۔ یوں وقت کے ساتھ ساتھ یہ گھٹن اور محرومی لاوا میں تبدیل ہو جاتی ہے۔آخرِکار یہ غبار کسی معصوم بچے یا بچی کے جنسی زیادتی کا نشانہ بننے کے بعد ہی بیٹھتا ہے۔
مدارس میں پڑھنے والے زیادہ تر طلبہ دیہات سے تعلق رکھتے ہیں جو کہ ظاہر ہے غربت کے مارے مدرسے کی تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔یہی طلبہ معاشی مجبوریوں کی وجہ سے ہر قسم کی اذیت سے گزرتے ہیں۔یوں ایسے کئی طلبہ آسانی سے شکار بن جاتے ہیں۔ اس کے برعکس مدرسہ میں شہروں سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کی تعداد کم ہوتی ہے، مگر یہی طلبہ اِس جنسی ثقافت کا حصہ نہیں بنتے۔ یوں یہ کہا جا سکتا ہے کہ شہری بچوں کو قدرے آزاد ماحول میسر ہوتا ہے۔ خاتون اور دولت ان کے لیے دنیا کا آٹھواں عجوبہ نہیں ہوتی۔
قارئین، جب تک اس جنسی گھٹن کا تعین نہیں کیا جاتا، اس کے لیے تعلیمی نصاب میں نمایاں تبدیلیاں نہیں کی جاتیں، ریاست کی طرف سے بچوں کے لیے یکساں تعلیمی مواقع فراہم نہیں کیے جاتی اور حکومت کی طرف سے بچوں کو محفوظ بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کیے جاتے، تب تک ہم اسی طرح اپنے بیمار معاشرے کا یہ روپ بار بار دیکھیں گے ۔
اس ضمن میں والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو بنیادی تعلیم سے آراستہ کرائیں۔ ان کو معاشرہ میں موجود خطرات سے واقف کرائیں۔ اسی طرح اپنے بچوں کے ساتھ ایک دوستانہ تعلق پیدا کریں، تاکہ کل وہ آپ سے ہر قسم کی بات شیئر کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔ غیر ضروری اور غیر فطری پابندیوں میں اپنے بچوں کے مستقبل کو داؤ پر مت لگائیں۔
……………………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔