فرہنگِ آصفیہ اور نوراللغات دونوں کے مطابق ’’بزّاز‘‘ کے معنی کپڑا بیچنے والے کے ہیں۔
فرہنگِ آصفیہ کے مطابق تلفظ ’’بزّاز‘‘ ہے جب کہ نوراللغات نے اس حوالہ سے یوں صراحت کی ہے: ’’اُردو میں بغیر تشدیدِ حرفِ دوم (بزاز) بھی زبانوں پر ہے۔‘‘
مذکورہ لفظ کے بارے میں علی عباس جلال پوری اپنی کتاب ’’خِرد نامہ جلالپوری‘‘ کے صفحہ نمبر 64 پر رقم کرتے ہیں: ’’بز کے معنی ہیں کپڑا۔ بزّاز کپڑا بیچنے والا اور بزار جہاں کپڑا بیچنے کی دکانیں ہوں۔‘‘
’’بزار‘‘ آگے چل کر ’’بازار‘‘ کا روپ دھار گیا۔