ہماری مجموعی اخلاقی حیثیت کس حد تک گر چکی ہے؟ یہ جاننے کی خاطر میرے تین تجربے پڑھیں جو کہ یقینا اور بھی بہت سے دوستوں کے ساتھ ہوئے ہوں گے اور اپنی اخلاقی حالت کا مجموعی طور پر جائزہ لیں۔ یہ تینوں تجربات گذشتہ بس چند دنوں ہی میں ہوئے۔
٭ پہلا تجربہ:۔ ملک امجد میرے ساتھ والے گاؤں سے ہے جب سن 90ء میں، مَیں نے پاکستان سے معاشی بہتری کے لیے ہجرت کی، تو ملک امجد شائد سکول کا طالب علم تھا۔ اس کے بعد مجھے یاد نہیں کہ میری اس سے کوئی ملاقات ہوئی ہو۔ البتہ یہ پتا چلا کہ اول وہ کسی خلیجی ملک رہا، پھر وہاں سے یورپ کے دل سپین جا بسا۔ میری فیس بک میں تھا، لیکن کبھی بالمشافہ اس سے میسنجر یا سوشل میڈیا پر براہِ راست بات تک نہ ہوئی تھی۔ لیکن ایک دن اچانک مجھے اس کی فیس بک آئی ڈی سے دوستی کی درخواست ملی۔ مَیں نے سوچا شاید اس کی پہلی آئی ڈی ختم ہوگئی ہو ۔سو اس نے پھر بھیج دی۔ مَیں نے اس کو قبول کر لیا۔ جوں ہی قبول کیا، اس کا میسج ملا سلام کا۔ ظاہر مَیں نے جواب دیا اب ہماری گفتگو شروع ہوگئی۔ مَیں اس کو بتا رہا ہوں کہ جب مَیں سکول میں تھا، تو وہ بہت کم عمر تھا۔ مَیں کس طرح اس کے بڑے بھائی، کزنز کو جانتا ہوں۔ لیکن مجھے حیرت ہوئی جب اس نے مجھے کہا کہ مَیں اس کے بھائی طارق کو کیسے جانتا ہوں۔ اس بات پر مجھے حیرت ہوئی کہ وہ ایسے کیسے کہہ سکتا ہے؟ بہرحال پھر اس نے مجھ سے درخواست کی مَیں پاکستان میں اس کے ایک دوست کو فوراً پچاس ہزار دوں جو کہ دو دن تک واپس مل جائیں گے۔ یہ بات مجھے مزید مشکوک کرگئی کہ ایک دم وہ کس طرح یہ کہہ سکتا ہے؟ جب مَیں نے اس کو کہا کہ مَیں اس کے بھائی طارق تک پہنچا دوں؟ تو اس نے سختی سے منع کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ ’’کسی کو معلوم نہ ہو۔‘‘ اب میرا شک یقین میں بدل چکا تھا۔ بہرحال مَیں نے انتہائی دانش مندی سے اس کا واٹس اَپ لے لیا اور نہ صرف اس سے آڈیو ریکاڈنگ لے لی بلکہ وہ جس دوست کا کہہ رہا تھا، اس کا شناختی کارڈ بھی بذریعہ واٹس اَپ لے لیا۔ پھر مَیں نے سب سکرین شارٹ لے کر اپنے ایک عزیز کہ جو پولیس میں ہے، کو بھیج دیے مع دونوں نمبروں کے۔ بقول میرے عزیز کے اس نے یہ سب معلومات پولیس ہیڈ کوارٹر فیصل آباد بھیج دیں۔ اسی دوران میں، مَیں نے ملک امجد کے خاندان کو یہ سب بتا دیا اور تمام سکرین شارٹ اس کے ایک کزن کے حوالے کر دیے، تاکہ اس شخص کے خلاف سپین سے بھی کارروائی کی جائے۔
٭ دوسرا تجربہ:۔ مَیں روات کے قصبہ میں ایک دوست کے ساتھ محوِ گفتگو تھا کہ مجھے میسج آیا کہ آپ کو احساس پروگرام کے تحت 12 ہزار روپیہ حکومت دے رہی ہے۔ جب مَیں نے کہا کہ مَیں تو حق دار نہیں ہوں، تو اس نے کہا سر اَب ہوگیا ہے۔ آپ لے کر کسی غریب کو دے دیں۔ میرے استفسار پر اس نے کہا کہ فورا کسی موبائل کی شاپ جاؤں اور اس کی بات کرواؤں۔ قریب ہی شاپ تھی۔ مَیں چلا گیا اور اس سے بات کروائی۔ چوں کہ موبائل شاپ میرے جاننے والے کی تھی اور اس کا بیٹا موجود تھا۔ مَیں نے فون اس کو دیا۔ اس نے ایک منٹ بات کی اور اوکے اوکے کہہ کر فون بند کر دیا۔ اس کے بعد مجھے کہنے لگا: ’’شاہ صاحب دس ہزار دیں۔‘‘ مَیں نے کہا، کیوں؟ مَیں تو بارہ ہزار لینے آیا ہوں۔ وہ مسکرا پڑا اور بولا، ’’جناب! اس نے ایک اکاؤنٹ نمبر دیا ہے اور آپ کے لیے کہا ہے کہ اس پر دس ہزار ٹرانسفر کر دیں۔‘‘ جب مَیں اس کو تفصیل بتائی، تو اس نے بتایا کہ ’’یہ دھوکا باز ہیں۔ یوں ہی کرتے ہیں۔ کیوں کہ شہروں میں لوگ ایک دوسرے کو جانتے نہیں، سو موبائل والے کبھی یہ سوچ کر متعلقہ شخص جو بات کروا رہا ہے، ظاہر ہے پیسا ہی بھیجنا چاہتا ہے۔ سو وہ ٹرانسفر کر دیتا ہے۔ پھر بات کروانے والے اور بھیجنے والا لڑتے رہیں۔ دھوکا باز تو کھیل کھیل گیا۔‘‘
٭ تیسرا تجربہ:۔ آج صبح ہی میرا اے آر وائی سے انعام نکلا اور مجھے میسج ملا کہ اس واٹس اَپ پر رابطہ کرو۔ گو کہ میں جانتا تھا کہ یہ فراڈ ہے لیکن پھر بھی بس ایک شغل کے طور پر میں نے میسج کیا۔ وہاں سے سات تولہ سونا، ایک موٹر سائیکل اور مبلغ دو لاکھ کا چیک مجھے ملنے مع تصاویر کے خوشخبری بھی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی مجھے یہ بتایا گیا کہ اس سامان کو آپ کے گھر ڈیلیور کرنے واسطے ایک انٹری کارڈ کی ضرورت ہے ،جس کی قیمت بس صرف پندرہ سو روپیا ہے۔ یہ رقم دے کر میں لکھ پتی بن سکتا ہوں۔ فوراً بہرحال میں نے بھیجنے والے کو اخلاقی پیغام کیا کہ وہ اس دھوکا دہی پر شرم کرے۔ لیکن وہاں سے میرا نمبر فوراً بلاک ہوگیا۔
سو یہ حالت ہوگئی ہے اب ہمارے معاشرے کی۔ اب جب میں نے اس پر تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ دھندا بہت عرصہ سے بہت دلیری سے ہو رہا ہے۔ یہ کرنے والے بہت اعتماد اور سکون سے لوگوں کو احمق بنا کر لالچ دے کر لوٹ رہے ہیں۔ وہ بہت آرام سے آپ کو واٹس اَپ نمبر، موبائل نمبر، اکاؤنٹ نمبر بلکہ کچھ حالات میں شناختی کارڈ کی کاپی تک بہت آرام سے دے دیتے ہیں۔ بنا کسی خوف یا سزا کے ڈر کے۔ سو مَیں یہ غور کرتا ہوں کہ آخر ہمارے ادارے کیا اس مکروہ کاروبار سے کلی طور پر لا علم ہیں؟ یہ تو ممکن نہیں۔ کیا ہمارے کچھ بڑی سطح کے افسران اس میں حصہ دار ہیں؟ اور اگر ایسا نہیں، تو کیا حکومت سو رہی ہے؟ سائبر کرائم، ایف آئی اے اور پولیس کیا کر رہی ہے۔ ان جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہو رہی؟ معلوم نہیں کہ کتنے سادہ لوح غریب اس دھوکا میں اپنا نقصان کرچکے ہیں۔ یہ لوگ بڑے میڈیا ہاؤس، موبائل کمپنیوں اور حکومتی فلاحی اداروں کا نام بہت آرام سے استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً احساس پروگرام، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام، اے آر وائی، جیو انعامی سکیم، زونگ اور ٹیلی نار کے تعاون سے انعام وغیرہ۔ یہ بڑے بڑے ادارے بھی خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ آخر وہ کم از کم اس کی ایک آدھ تردید ہی کر دیں اپنی سکرین سے کہ ہمارا ان دھوکا بازوں سے کوئی تعلق نہیں۔ عوام نقالوں اور چوروں سے ہوشیار رہیں۔ مثلاً جو شخص مجھے سونا اور موٹر سائیکل دے رہا تھا، اس نے مجھے آڈیو کیا کہ میرا انعام فہد مصطفی کے رمضان پروگرام اے آر وائی سے نکلا ہے۔ تو کیا یہ اے آر وائی انتظامیہ کا فرض نہیں کہ وہ اس پر ایکشن لے۔
عوام کو بھی لالچ میں آکر جلد بازی سے پرہیز کرنا چاہیے اور کسی بھی شخص کے کہنے پر فوراً ہی بہت کچھ داؤ پر نہیں لگا دینا چاہیے۔ پھر پچھتانے کا فائدہ نہیں ہوگا۔ مَیں نے یہاں تک ہی لکھا کہ ابھی ایک دوست آئے اور وہ بیان کر رہے ہیں کہ ان کو کسی نے فون کرکے باقاعدہ واٹس اَپ لے کر بہت سارا سونا دکھایا اور کہا کہ اس کو یہ کھدائی میں ملا ہے۔ لیکن اس کو معلوم نہیں کہ کیسے اس کو سنبھال کر بیچا جائے۔ سو ففٹی ففٹی کی بنیاد پر میں اس کی مدد کروں۔ لیکن بقول میرے دوست کے کہ وہ یہ بات جانتا ہے کہ اس طرح لالچ دے کر وہ بھلا لیتے ہیں اور پھر قید کر کے گھر والوں سے پیسا لیتے ہیں بلکہ کچھ معاملات میں تو گردے وغیرہ نکال لیتے ہیں۔ یعنی دھوکا دہی کا یہ سب سے خطرناک طریقہ ہے۔ عوام کو اس سے ہوشیار رہنا ہوگا۔
یہاں آخر میں ہم مختلف قسم کی سماجی تنظیموں اور میڈیا کی شخصیات سے بھی اپیل کریں گے کہ وہ ان معاملات کو بھی اہمیت دیں۔ سیمینار کریں، بحث مباحثہ کروائیں۔ جرائم کے حوالے سے پروگراموں میں اس طریقہ سے لٹنے والوں کی کہانیاں بنائیں، تاکہ عام عوام اس سے آگاہ ہوسکیں۔ اس کے ساتھ اس کا ایک اور پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ اس سے عمومی طور پر کچھ سمجھ دار لوگوں میں ایک خوف اور ضرورت سے زیادہ احتیاط کا عنصر بڑھ رہا جو بے یقینی و بے اعتمادی میں اضافہ کر رہا ہے۔ اس کا بھی مجھے ذاتی ایک تجربہ ہے۔ جب مَیں نے ایک ذاتی پراپرٹی کا اشتہار سوشل میڈیا پر لگایا، تو مجھے کچھ لوگوں نے بنا رابطہ کیے، بنا سمجھے، بنا جانے دھوکا اور فراڈ قرار دے دیا۔ بلکہ ایک صاحب نے تو باقاعدہ گالیوں سے میری تواضع کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشرے میں ہر طرف دھوکا اور فراڈ اس حدتک سرایت کر چکا ہے کہ اب سچ جھوٹ میں فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ بہرحال یہ ایک انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے۔اس کو حکومت کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی،صحافتی، مذہبی، سیاسی اور تعلیمی حلقے بھی سنجیدہ ہی لیں۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔