گیلپ اینڈ گیلانی فانڈیشن پاکستان ایک معتبر ادارہ ہے جو مختلف حوالوں سے پاکستانیوں کے رویوں اور رجحانات پر تحقیق کرتا رہتا ہے۔ ان کا تازہ ترین سروے مطالعے کے رجحانات کے حوالے سے ہوا ہے جو کہ انتہائی پریشان کن نتائج لیے ہوئے ہے۔ اس سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان میں ہر 4 میں سے 3 طالب علم ایسے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں کورس ورک کے علاوہ کوئی کتاب مطالعہ نہیں کی ہے اور صرف 9 فی صد ایسے ہیں جو کہ باقاعدہ مطالعہ کا ذوق رکھتے ہیں۔ مشہور مقولہ ہے، ’’اگر آپ چاہتے ہیں کہ کوئی نیا آئیڈیا سامنے آئے، تو ایک پرانی کتاب کھولیے، کام آسان ہوجائے گا۔‘‘
کتب بینی کے حوالے سے یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ جس سے ہمیں اپنے معاشرتی ترجیحات کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔ اب اگر طالب علم، جس کی بنیادی تعریف ہی علم کی بنیاد پر ہے، اس حوالے سے پیدل ہو، تو معاشرے کے دوسرے طبقات سے کیا توقع! یہی وہ محرومی ہے جس کی وجہ سے ہم سطحیت، لا اُبالی پن اور ناعاقبت اندیشی کے گرداب میں من حیث القوم دھنستے چلے جارہے ہیں۔ تعلیمی نظام کو ایک ایسے عفریت نے گھیرا ہوا ہے جہاں سے سالانہ لاکھوں لوگ فارغ التحصیل ہو رہے ہیں لیکن بس فارغ ہی ہو رہے ہیں تحصیل کا صرف دعویٰ ہی ہے۔ سکول لیول پر تو لائبریری کا نام و نشان ہی نہیں ہوتا، لیکن کالج اور یونیورسٹی لیول پر بھی اکثریتی طلبہ پورے دورانیہ میں لائبریری رجسٹر میں مختص شدہ صفحے کا افتتاح بھی نہیں کرپاتے۔ ہمارے دورِ طالب علمی میں منگورہ سوات میں دو پرائیویٹ لائبریریاں تھیں جو اب ختم ہوگئی ہیں۔ ہمارے سکول (الہدیٰ پلک سکول) کی نسبتاً کم ذخیرہ کتب والی لائبریری کے باوجود ہمارے ڈائریکٹر صاحب اور اساتذہ کرام کی خصوصی دلچسپی کی وجہ سے کتابوں سے ایسا تعلق بنا کہ یہی اب سب سے بڑی دلچسپی اور فارغ البالی ہے۔ علاوہ ازیں کالج دور میں ہمارے تاریخ کے استاد پروفیسر خورشید خان اپنے آفس میں مختلف النوع موضوعات پر باقاعدہ بحث و مباحثہ کا اہتمام کروایا کرتے تھے۔ ان دنوں جب ہم میونسپل کمیٹی کی نسبتاً کم سہولتوں والی لائبریری میں جاتے، تو کافی سرگرمی دیکھنے کو ملتی، لیکن آج یہ حال ہے کہ ایم ایم اے دور میں تعمیر ہونے والی ’’سٹیٹ آف دی آرٹ لائبریری‘‘ میں بھی بہت کم لوگ آتے جاتے ہیں۔
پچھلے دنوں سینیٹ آف پاکستان میں جماعت اسلامی کے صوبائی امیر نے لائبریریوں کے حوالے سے سوال کیا جس کے جواب میں منسٹری نے تفصیلات سامنے رکھیں۔ 116 یونیورسٹیوں میں سے دو ایسی بھی یونیورسٹیاں ہیں جن میں سرے سے لائبریری ہی نہیں۔ باقیوں میں ایسی بھی یونیورسٹیاں ہیں جہاں 5 ہزار سے کم کتب موجود ہیں۔ مشتاق احمد خان نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے سینیٹ میں کہا کہ یہ کیسی یونیورسٹیاں ہیں، جہاں 5 ہزار سے کم کتب ہوں۔ اتنی کتب تو میری ذاتی لائبریری میں موجود ہیں۔
ہایئر سیکنڈری سکولوں میں لائبریرین کی اکثریتی آسامیاں خالی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سطحیت کے شیطانی چکر میں ہی گھوم رہے ہیں۔ ہایئر ایجوکیشن کمیشن پچھلے 18 سالوں سے تحقیقی کاموں کی بڑھوتری کے لیے سالانہ اوسطاً 70 ارب روپے کی رقم مختص کر رہا ہے، لیکن اس کے نتیجے میں صرف تعداد میں ہی اضافہ ہورہا ہے، معیار کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ تحقیقی مقالوں (Research papers) کی تعداد سالانہ 2 ہزار سے بڑھ کر 9 ہزار تک تو پہنچ گئی ہے، لیکن ان میں سے 70 فی صد مقالے غیر معیاری ہیں۔ پہلے ہزار یونیورسٹیوں کی رینکنگ میں پاکستان کی صرف 3 یونیورسٹیاں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی ہیں جب کہ اس کے مقابلے میں انڈیا کی 30 یونیورسٹیاں پہلے 5 سو کی فہرست میں جگہ پاچکی ہیں۔ یہ سب کچھ ہماری کم علمی اور کم فہمی کا منھ بولتا ثبوت ہے اور یہ خرابی سکول دور سے ہی شروع ہوجاتی ہے جس میں والدین، اساتذہ اور انتظامیہ برابر کے شریک ہیں۔ زبان دانی اور تنقیدی سوچ کا جتنا کچھ فقدان ہم اپنے طالب علموں میں دیکھ رہے ہیں، اسی عدم مطالعے کا شاخسانہ ہے۔ ہمیں تعلیمی اداروں اور گھروں دونوں جگہوں میں ایسا ماحول فراہم کرنا چاہیے کہ بچوں کی دلچسپی مطالعے اور کتب بینی کی طرف راغب کی جاسکے۔ اپنے مباحثوں اور معاشرتی بیٹھکوں میں اس حوالے سے باتوں کو شامل گفتگو کرنا چاہیے اور اس گفتگو میں حصہ لینے والے بچوں کی حوصلہ افزائی کرکے ان کی جرأت و ہمت کو بڑھاوا دیا جانا چاہیے۔ کیوں کہ اس سے ان کے دل میں مطالعے کے حوالے سے اچھے احساسات اور آمادگی پیدا ہوگی اور یہ جذبہ بڑھتے بڑھتے دلچسپی اور عادت پر منتج ہوگا اور یہی عادت ترقی کا ضامن ہوگی۔ اس حوالے سے سٹڈی سرکل کا انعقاد سکولوں، کالجوں اور گھروں میں انتہایی فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے جس میں ایک خاص کتاب یا موضوع پر پہلے سے تیاری کرکے ایک دائرے میں بیٹھ کر اس پر نکتہ وار بحث و مباحثہ کیا جائے۔ اور حاصلِ بحث کو بار بار دہرا کر شرکا کے سامنے لایا جائے۔
اس کے علاوہ غیر رسمی اجتماعی مطالعہ بھی مفید ثابت ہوسکتا ہے کہ ایک ایسا ماحول دوستوں یا شرکائے محفل کے مابین موجود ہو، جہاں ہر بہترین اور منتخب مضمون پڑھ کر اس کا تنقیدی جائزہ لیا جاسکے۔ اپنی اپنی مصروفیات اور ماحول میں کوشش کرکے اس عمل کو مختلف انداز و ترتیب کے ساتھ جاری کیا جاسکتا ہے۔
جب تک ہم مطالعے کی عادات و ترغیبات کو اپنے تعلیمی، سیاسی اور معاشرتی ترجیحات میں جگہ نہیں دیں گے اور ’’کتاب بہترین ساتھی ہے‘‘ کے مقولے کو زبان زدِ عام نہیں کریں گے، اس پاتال میں اور گرتے چلے جائیں گے۔ کیوں کہ ہمارے پاس اگر بچ نکلنے کا کوئی راستہ ہے، تو وہ بھڑکوں اور جگتوں کی بجائے علم و تحقیق کے میدان سے ہوکر گزرتا ہے۔
اس کے علاوہ کویی پتلی گلی نہیں ہے جو تبدیلی پر منتج ہوسکے۔

………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔