وزیرِ اعظم پاکستان جناب میاں شہباز شریف نے گذشتہ روز فخریہ انداز میں قوم کو مژدۂ جاں فزا سنایا کہ مہنگائی کی شرح میں اس حد تک نمایاں کمی ہوئی ہے کہ گذشتہ سال اگست میں مہنگائی کی شرح 27.4 فی صد کے مقابلے میں اس اگست میں سنگل ڈیجیٹ پر آ کر محض 9.6 فی صد پر آ گئی ہے۔ اُنھوں نے مہنگائی میں اس تاریخی کمی کا سہرا حکومت کی معاشی پالیسیوں اور معاشی ٹیم کے سر باندھا جس کی مسلسل اور اَن تھک محنت کی بہ دولت اس مشکل ہدف کا حصول ممکن ہوا۔
وفاقی ادارۂ شماریات کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس سال اگست میں ماہانہ بنیادوں پر پیاز 23.62 فی صد، انڈے فی درجن 12.39 فی صد، تازہ سبزیاں 12.25 فی صد، دال چنا 4.55 فی صد، آلو 2.90 فی صد، تازہ اور خشک دودھ بالترتیب 1.27 فی صد اور 1.20 فی صد مہنگے ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق ماہانہ بنیادوں پر تازہ پھل 13.10 فی صد، ٹماٹر 8.09 فی صد اور آٹا 3.40 فی صد سستا ہوا۔ اس موقع پر وزیرِ اعظم نے یہ بات دُہرانا بھی ضروری سمجھا کہ ان کی پارٹی نے اپنی سیاست کی قربانی دے کر ملکی معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچایا ہے۔
حکومت کے پیش کردہ اعداد و شمار چاہے بجٹ کے ہوں، یا کسی تحقیقاتی رپورٹ کے ہوں…… عام آدمی تو کیا اچھے خاصے پڑھے لکھے بندے کو بھی چکرا کر رکھ دیتے ہیں۔ وزیرِ اعظم کے دعوے کے مطابق مہنگائی اور افراطِ زر کی شرح کا سنگل ڈیجیٹ پر آنا یقینا ایک بہت بڑی کام یابی ہے، مگر بیان کردہ حقائق اگر آنکھوں کے سامنے نظر بھی آئیں، تو بات میں زیادہ وزن پیدا ہوجاتا ہے۔ دعوا یہ کیا گیا ہے کہ مہنگائی کی تین سال پہلے والی شرح 37 فی صد کو 9.6 فی صد پر لانے میں کام یابی حاصل کی گئی ہے، مگر جب ہم تین سال پہلے والی اشیائے صرف کی قیمتوں کا موجودہ قیمتوں سے موازنہ کرتے ہیں، تو ادارۂ شماریات کی پیش کردہ رپورٹ مشکوک لگنے لگتی ہے۔ سبزیاں اور پھل تین سال پہلے کی نسبت زیادہ قیمت پر مل رہے ہیں۔ سیمنٹ، زرعی ادویہ، صابن، چینی، چائے وغیرہ کی قیمتیں بھی بڑھی ہیں۔ ادویہ کی قیمتوں میں تین مرتبہ سرکاری طور پر اضافہ کرنے کے بعد اب ادویہ ساز کمپنیوں کو اپنی مرضی سے قیمتیں بڑھانے کا اختیار دے دیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں ادویہ کئی گنا مہنگی ہوگئی ہیں۔ ڈاکٹروں نے اپنی فیسیں بڑھا دی ہیں، جب کہ میڈیکل ٹیسٹ لیبارٹریوں نے بھی اپنے ریٹس میں اضافہ کر دیا ہے۔ بجلی اور گیس کے سلیب ریٹس مقرر کرکے عوام کی رگوں سے خون نچوڑ لیا گیا ہے۔ تین سال پہلے کے مقابلے میں تیل اور ڈالر کے ریٹ بھی بڑھے ہیں۔ بینکوں کی شرحِ سود میں بھی اضافہ ہوا ہے جس سے مہنگائی میں اضافہ اور کاروبار تباہ ہوکر رہ گئے ہیں۔ اگر واقعی مہنگائی اور افراطِ زر میں کمی ہوئی ہے، تو شرحِ سود کم از کم تین فی صد نیچے آنی چاہیے تھی۔ پتا نہیں ادارۂ شماریات ہمارے سادہ لوح وزیرِ اعظم کو دھوکا دے رہا ہے، یا وہ جان بوجھ کر دھوکا کھا رہے ہیں؟
جناب وزیرِ اعظم کا سیاسی قربانی کا دعوا بھی خوب ہے۔ یہ کیسی قربانی ہے کہ مرکز میں دوسری مرتبہ ان کی حکومت قائم ہوئی ہے، جب کہ پنجاب میں بھی بلاشرکتِ غیرے ان کی پارٹی کی حکومت ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ مہنگائی نے عام آدمی سے لے کر مڈل کلاس طبقے تک سب کو پیس کر رکھ دیا ہے۔ مہنگائی نے ڈاکٹر کے نسخے کا روپ دھار رکھا ہے۔ صبح، دوپہر اور شام کے حساب سے عوام مہنگائی کی ’’نئی خوراک‘‘ کھانے پر مجبور ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مہنگائی میں 48 فی صد اضافہ ہوگیا تھا، جو پہلے 37 فی صد پر نیچے آ گیا اور اب محض 9.6 فی صد ہے، جب کہ حقیقت میں یہ اضافہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اضافے کی شرح تمام اشیا کی قیمتوں میں اضافے کی اوسط نکال کر بتائی جاتی ہے۔ ان میں بہت سی اشیا ایسی بھی ہوتی ہیں جو غریبوں کی پہنچ سے دور ہوتی ہیں اور ان میں اضافہ نہیں ہوتا۔ مثلاً لگژری گاڑیوں اور موبائل فونز کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی ہو گئی ہے، لیکن غریب لوگوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ البتہ گندم اور آٹے کی قیمتوں میں کمی سے غریبوں کو ضرور فائدہ پہنچا ہے۔ اس میں بھی حکومت کے خلوص سے زیادہ مس مینجمنٹ اور اربوں روپے حکم رانوں کی جیبوں میں جانے کی وجہ زیادہ اہم ہے۔
برسبیلِ تذکرہ، ایک اجنبی دریا کے کنارے پہنچا۔ اُسے دریا پار جانا تھا۔ جب کافی دیر تک انتظار کے بعد بھی کشتی دوسرے کنارے سے واپس نہ آئی، تو اُس نے پیدل دریا عبور کرنے کا فیصلہ کیا۔ اب اس میں قباحت یہ تھی کہ اُسے پانی کی گہرائی کا اندازہ نہ تھا۔ کنارے پر ایک نوجوان بڑے انہماک سے مطالعے میں مصروف بیٹھا نظر آیا۔ اجنبی اُس کے قریب گیا اور دریا کی گہرائی کے بارے میں پوچھا۔ اجنبی نے تھوڑی دیر سوچا۔ پھر جیب سے قلم نکالا۔ کتاب کے ایک صفحے پر کچھ حساب کتاب لکھا اور بولا: ’’دریا کی گہرائی تین فٹ ہے!‘‘ اجنبی یہ جان کر خوش ہوگیا اور دوسرے کنارے پر جانے کے لیے دریا میں اُتر گیا۔ جب وہ دریا کے درمیان پہنچا، تو پانی اُس کے گلے سے بھی اوپر تک آ گیا اور وہ ڈوبنے لگا۔ اُس کا شور سن کر ایک آدمی نے دریا میں چھلانگ لگا دی اور اُسے بچا کر کنارے پر لے آیا۔ جب اجنبی کے اوسان بہ حال ہوئے، تو اُس نے غصے سے دریا کی گہرائی بتانے والے نوجوان کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا: ’’آپ نے تو دریا کی گہرائی تین فٹ بتائی تھی، مگر وہ تو چھے فٹ سے بھی زیادہ نکلی۔ آپ نے مجھ سے جھوٹ کیوں بولا؟‘‘ وہ نوجوان اطمینان سے بولا: ’’مَیں نے آپ سے جھوٹ نہیں بولا تھا۔ دریا کی گہرائی کہیں ایک فٹ، کہیں دو فٹ اور کہیں آٹھ فٹ ہے۔ مَیں نے تو آپ کو اوسط گہرائی تین فٹ بتائی تھی۔‘‘
یہی حال معیشت کے ہمارے حکومتی ماہرین کا ہے۔ وہ اوسط مہنگائی 9.6 فی صد بتا رہے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ روزمرہ کی عام استعمال ہونے والی اشیا ضرورت کی چیزوں میں 100 فی صد سے بھی زائد اضافہ ہو چکا ہے۔ صرف سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں میں اضافے کی شرح ہی سے اصل اضافے کا بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ کپڑے کی دُکان پر جائیں، تو قیمت سن کر ہوش اُڑ جاتے ہیں۔ ادویہ کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ پٹرول اور ڈالر کے ریٹ کو جس طرح سے پر لگے ہیں، اُس سے دوگنی شرح سے دیگر اشیا مہنگی ہوئی ہیں۔
عوام مہنگائی میں کمی کے دعوے کو تب ہی تسلیم کریں گے جب بجلی، گیس اور تیل کے ریٹ کم ہوں گے۔ یہ دعوا اُس وقت سچا ہوگا، جب شرحِ سود میں نمایاں کمی ہوگی۔ ہم تب تسلیم کریں گے جب ادویہ سابقہ قیمتوں پر دست یاب ہوں گی۔ جب پھل اور گوشت غریب کی پہنچ میں ہوگا، تو اس دعوے میں حقیقت نظر آئے گی۔ زمینی حقائق کے برعکس ’’اوسط‘‘ کی بنیاد پر پیش کردہ اعداد و شمار عام آدمی متاثر نہیں کریں گے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔