کیلاش ہمارے بورے والا (پنجاب) سے خاصا دور ہے۔ دو تین دن یہاں تک پہنچتے پہنچتے لگ جاتے ہیں۔ کیلاش بھی تو پاکستان کی آخری نکر میں یعنی پاکستان کے شمال مغربی کونے میں اس جگہ پر ہے کہ جس سے آگے پاکستان کی آبادی ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے آگے جنگل ہے، پہاڑ ہیں اور پھر ان پہاڑوں کے پرے افغانستان کا صوبہ نورستان ہے۔ وہی نورستان جو پہلے پہلے کبھی کافرستان کہلاتا تھا، جہاں سے ان کافر قبیلوں کی ایک قسم جنھیں ’’کاتی‘‘ یا ’’سرخ کافر‘‘ کہا جاتا تھا، ہجرت کر کے یہاں برمبوتول میں آن چھپی تھی۔
برومبوتول کو آج کل شیخاناندہ یا شیخان دیہہ کہا جاتا ہے۔ شیخاں دیہہ نام کا ایک گاؤں وادئی ریمبور میں بھی ہے، جس میں بھی یہی نو مسلم (شیخ) رہتے ہیں۔ ایسے کچھ لوگ چترال کے حصے گرم چشمہ کے قریب گبور گاؤں میں بھی رہتے ہیں، مگر اُنھوں نے اپنے گاؤں کا نام شیخان دیہہ نہیں رکھا ہے۔
یہ بڑے وحشی، خطرناک اور جنگ جو قسم کے لوگ ہوا کرتے تھے۔ ان کے قبیلے میں اُسی کو مرد تصور کیا جاتا تھا جو کسی مسلمان کو قتل کرتا تھا۔ یہ اپنے آپ کو سکندرِ اعظم سے ’’ری لیٹ‘‘ کرتے ہیں۔ جب 324۔326ء میں سکندرِ اعظم پوری دنیا فتح کرنے کے چکر میں مقدونیہ (یونان) سے چلا، یورپ سے ہوتا ہوا برِ اعظم ایشیا میں داخل ہوا اور پھر اس دور کی عالمی طاقت ایران میں دارا سوم کو شکست دے کر بدخشاں پہنچا اور پھر وہاں سے نکل کر پاکستان کے اس حصے میں داخل ہوا تھا۔ اُن کے مطابق وہ اسی لشکر کی باقیات میں سے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ سکندر کی فوج کے کچھ زخمی سپاہی واپس یونان جانے کی بہ جائے نورستان کے انھی علاقوں میں بس گئے تھے۔ یہ لوگ اُسی نسل کے باشندے ہیں، جنھوں نے صدیوں پرانی اپنی روایات، رہن سہن اور مذہب کو اب بھی اپنے سینے سے لگا کر رکھا ہے۔ وہ مختلف دیوتاؤں کی پوجا کرتے ہیں۔ ان کی ایک اکثریت اپنے آپ کو سیام (تھائی لینڈ) سے وابستہ قرار دیتی ہے۔ ان کے مذہبی اشلوکوں (گیتوں) میں اب بھی سیام کا ذکر ملتا ہے۔ ایک چینی مورخ ’’جین می‘‘ انھیں بھارت میں ’’ڈیرہ دون‘‘ کے سلسلہ ’’کوہِ گھڑوال‘‘ کی وادی کیلاش پربت سے قرار دیتا ہے اور ان کا تعلق دراوڑ قبیلے سے جوڑتا ہے۔
ویسے تبت میں ایک مقدس پہاڑ کیلاش بھی ہے، جس کی وہاں پر اب بھی پوجا کی جاتی ہے۔
یورپی مورخین کے مطابق یہاں بسنے والے کیلاشیوں کی دو قسمیں ہیں:
٭ نمبر ایک، سرخ پوش کافر جن کا تعلق افغانستان کے صوبے نورستان سے ہے۔ اُن کا تعلق وہاں پر موجود کاتی قبیلے سے ہے…… اور جنھیں کاتی کافر یا سرخ پوش کافر بھی کہا جاتا ہے، جب کہ دوسرے سیاہ پوش کافر ہیں۔
سرخ پوش کافر جو بعد میں مسلمان ہو گئے تھے اور وہ اپنے آپ کو ’’مسلم شیخ‘‘ کہلاتے ہیں۔ جن کا بسیرا ’’شیخاندہ‘‘ میں ہے۔ جو اس وادی کا آخری گاؤں ہے۔ یہ لوگ نسبتاً زیادہ جابر و ظالم اور وحشی تھے۔ جب کہ ان کی نسبت سیاہ پوش کافر قدرے نرم دل اور کم خطرناک سمجھے جاتے تھے۔ لمبے قد، نیلی آنکھوں اور سنہری بالوں والے کیلاشیوں کو سکندرِ اعظم کی یونانی سپاہ کی نسل سے مانا جاتا ہے، جب کہ کوتاہ قد اور کالے بالوں والے کیلاشی مقامی یا فارسی نسل کے کہے جاتے ہیں، مگر ان دونوں قسم کے کیلاشیوں کی عادات ایک جیسی ہی ہیں۔ اب یہاں ان وادیوں میں سیاہ پوش، سرخ پوش اور مسلمان سب ایک دوسرے کے مذہب کو چھیڑے بنا باہم مل کر اکٹھے رہتے ہیں۔
پہلے پہل افغانستان کے صوبہ نورستان کا نام کافرستان ہوا کرتا تھا۔ یہیں پر یہ قبائل رہایش پذیر تھے۔ یہ سارا علاقہ آزاد علاقہ تھا، جس پر نہ تو برطانوی ہند حکومت کی عمل داری تھی اور نہ افغانستان حکومت کی …… اور اسی چیز کا یہ فائدہ اٹھاتے تھے۔ یہ وہاں کے مسلمانوں کے خلاف چھاپا مار کارروائیاں کرتے رہتے تھے۔ جب جب اُن کا داو چلتا، یہ کسی بھی مسلم شخص کو قتل کر ڈالتے۔ کیوں کہ ان کے ہاں کسی شخص کو اس وقت تک مرد تصور ہی نہیں کیا جاتا تھا کہ جب تک وہ کسی مسلمان کو قتل نہ کرے۔
برطانوی عمل داری اور افغان عمل داری والے علاقوں میں بسنے والے سارے مسلمان ان سے خائف تھے۔ آخرِکار 1890ء میں وائسرائے برطانوی ہند اور افغانستان کے درمیان ایک معاہدہ کی رو سے نورستان کے موجودہ علاقہ پر افغانستان کی عمل داری تسلیم کر لی گئی تھی، مگر پھر بھی یہ لوگ اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے اور مسلمانوں کے خلاف ان کی چھاپا مار کارروائیاں جاری رہیں۔ 1890ء کے معاہدے کے بعد آخرِکار ان کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔ اُن دنوں افغانستان پر امیر عبدالرحمان کی حکومت تھی۔ اس معاہدے کے بعد اب افغان فرماں روا امیر عبدالرحمان کو اُن کی بیخ کنی کرنے کا کھلا موقع میسر آگیا۔ اس نے اُنھیں 4 ماہ کا الٹی میٹم دیا کہ وہ ان 4 ماہ کے اندر اندر یا تو مسلمان ہو جائیں، یا یہ جگہ چھوڑ کر کسی جانب ہجرت کر جائیں۔ ورنہ ان پر فوج کشی کر کے انھیں قتل کر دیا جائے گا۔ اسی عرصے کے دوران میں کچھ لوگ مسلمان ہو گئے، جنھیں وہاں پر امان دے دی گئی۔ کچھ وہاں سے دوڑ کر اس علاقے میں آکر روپوش ہو گئے تھے۔ اُس وقت برطانوی ہند اور افغانستان کے درمیان والا یہ سارا علاقہ خالی پڑا تھا۔ جب کہ وہاں نورستان میں بقیہ بچے سرخ کافر کیلاشیوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انھیں قتل کر دیا گیا تھا۔
اس علاقے کی کوئی باقاعدہ تاریخ تو کبھی لکھی نہ گئی تھی، مگر مورخین کے نزدیک یہ لوگ سنہ 1896ء کے لگ بھگ دوڑ کر یہاں پر آ چھپے تھے۔ پھر یہیں پر ہی انھوں نے مکمل بسیرا کر لیا اور یہیں پر ہی کھیتی باڑی شروع کردی۔ اس وقت یہ علاقہ برطانوی حکومتِ ہند اور افغانستان کے درمیان کوہ ہندوکش کے اونچے اونچے پہاڑوں میں گھرا ہوا بالکل خالی پڑا تھا۔ یہ علاقہ چترال سے بھی دور اور افغانستان سے بھی دور ان دونوں کے بیچ خالی جگہ پر تھا، جس طرف کوئی آتا جاتا نہ تھا۔ نہ تو چترال کی طرف سے وہاں تک جانے کا کوئی آسان رستہ تھا اور نہ افغانستان کے صوبہ نورستان سے۔
افغانستان کی طرف سے دو نالے آ کر اور پھر ایک جگہ پر باہم مل کر نیچے ایون کے قریب دریائے چترال میں گرتے ہیں۔ یہ لوگ انھیں نالوں کے آس پاس اس ویران علاقے میں چھپے تھے۔ ان کی یہاں تین وادیاں ہیں، جن کے نام ’’بمبوریت‘‘، ’’ریمبور‘‘ اور ’’بریر‘‘ ہیں۔ ان میں سے بمبوریت کی وادی سب سے بڑی وادی ہے، جو ان تینوں وادیوں میں سے درمیان والی وادی ہے۔ اسی میں ہماری طرح کے زیادہ تر ٹوریسٹ جاتے ہیں۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان سیاہ پوش اور سرخ پوش کافروں کا کسی زمانے میں افغانستان سے ملحقہ کچھ علاقوں سے لے کر چترال اور اس کے جنوبی علاقے میں ہولڈ تھا۔ ان علاقوں پر ان کی حکومت ہوا کرتی تھی۔ یہ بات ہے نویں صدی عیسوی کی۔ اس وقت ان کے ایک بڑے حکم ران کا نام کلاش تھا، جس کی وجہ سے یہ لوگ کیلاش کہلاتے ہیں۔ ان کی زبان کا نام بھی کلاش وار ہے، جو فارسی، سنسکرت اور یونانی زبان کا مجموعہ ہے۔ چترال کی مقامی زبان ’’کھوار‘‘ میں انھیں ’’بومکی‘‘ کہتے ہیں اور موجودہ نورستان کو ان لوگوں کے ظلم و جبر اور قتل و غارت گری کی بنیاد پر ’’بشگال‘‘ کہا جاتا تھا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔