بہت زیادہ افسوس کی بات ہے کہ جب بھی کسی عورت پر کچھ درندے ٹوٹ پڑتے ہیں، تو مردوں کے علاوہ ڈھیر ساری خواتین بھی طرح طرح کے بے بنیاد جواز گھڑ کر ’’وکٹم بلیمنگ‘‘ (Victim Blaming) سے چسکے لیتی ہیں۔ اکثر تو اس قدر جھوٹ بولتی ہیں جیسے معاشرے میں ’’ہراسمنٹ‘‘ نامی کوئی چیز ہے ہی نہیں اور جو کچھ نظر آتا ہے، وہ محض نظر کا دھوکا ہے۔ ایک انتہائی درجے کے پدرسری معاشرے میں مردوں سے ایک مظلوم عورت کے ساتھ کھڑے ہو جانے کی توقع کرنا تو عبث ہے لیکن جب عورت بھی اپنے جنس کے ساتھ انصاف کرنے کو تیار نہ ہو، تو ایسے میں عورت کا تماشا نہ بنے تو اور کیا ہو؟ ایسی خواتین یاد رکھیں کہ آپ صرف اپنے ساتھ ظلم نہیں کرتیں بلکہ ہر اس مظلوم عورت پر ظلم کررہی ہیں جنہوں نے کبھی مردوں کی دنیا میں جنم لیا تھا اور یا لے گی۔ عین ممکن ہے کہ کل کو آپ ہی کی بیٹی، بہن یا ماں کے ساتھ کچھ ایسا ویسا ہوجائے اور وہ آپ سے کہے: ’’خدارا، ہوش کے ناخن لو! کوئی ڈراما وراما نہیں کیا جاتا۔ عورت واقعی ہراساں ہوتی آئی ہے۔ مَیں خود اس کرب سے گزری ہوں!‘‘
14 اگست کو اقبال پارک، لاہور میں عائشہ اکرم نامی ایک لڑکی کے ساتھ ایک دل خراش واقعہ پیش آیا۔ جنسی گھٹن کے مارے بیسیوں آدمیوں نے اسے گھیرے رکھا۔ کچھ اوباش اس کا جسم نوچتے رہے۔ اُس بے چاری کو ہوا میں اچھالتے رہے اور باقی آدم زادے دور سے محظوظ ہوتے رہے۔
ماضی کی طرح اس بار بھی اس حیوانیت کے لیے یہ گمراہ کن جواز پیش کیا گیا کہ ’’لڑکی گھر سے باہر آخر نکلی کیوں تھی؟‘‘ لڑکی کا ’’ٹک ٹاکر‘‘ ہونا اس انداز میں سمجھا اور سمجھایا گیا کہ گویا ایک عورت کا کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر موجود ہونا اس کی طرف سے اس کا جسم نوچے جانے اور اسے ہر طرح سے ہراساں کرنے کی اجازت دینا ہے۔ ایک تاویل یہ پیش کی گئی کہ لڑکی نے شہرت کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت یہ سب کچھ کروایا!
اتفاق سے اُسی روز شام کے وقت چار دوستوں کے ساتھ اپنا بھی اقبال پارک جانے کا منصوبہ بنا تھا۔ نا اہل انتظامیہ اور بد تہذیب عوام کی وجہ سے اس قدر رش اور دھکم دھکا جاری تھا کہ دروازے تک پہنچنا اور پھر اندر جانا لوہے کے چنے چبانے کے مترادف تھا۔ تقریباً آدھے گھنٹے کی جد و جہد کے بعد میں تو کسی طرح اندر جانے میں کامیاب ہوگیا لیکن باقی دوست چوں کہ داخل نہ ہوپائے، تو اس لیے مجھے بھی واپس لوٹنا پڑا۔
بھیڑ میں مردوں کا رویہ دیکھ کر شرم سے سر جھک جاتا۔ جس جگہ کوئی عورت کھڑی ہوتی، وہاں دو تین مرد اس کے جسم سے اس طرح چپکے ہوتے کہ وہ آگے جا سکتی نہ پیچھے ہی ہٹ سکتی۔ باقی حضرات اس کی طرف حسرت سے دیکھتے ہوئے اپنی جگہ چھوڑنے اور کسی طرح اس تک پہنچنے کی ہر ممکن کوشش کرتے۔ آوازے کسنا، چوری کی کوشش کرنا اور دھکے دینا تو چھوٹی باتیں ہیں۔ ایک عورت گود میں بچہ اور آنکھوں میں آنسوں لیے واپسی کی راہ ڈھونڈ رہی تھی۔ دوسری خاتون ایک مرد کو تھپڑ مارنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ کیوں کہ موصوف نے اخلاقیات کی تمام حدیں پار کر لی تھیں۔
چلیں، پہلی والی لڑکی کے لیے یہ جواز مان لیتے ہیں کہ وہ ٹک ٹاکر تھی۔ اس کا ہراساں ہونا کوئی اتنی بڑی بات نہیں۔ کیوں کہ برقع پوشوں کے برعکس ایسوں کی عزتِ نفس نام کی کوئی چیز تو ہوتی نہیں ۔ روبوٹ کہیں کے……!
رش میں پھنسائی گئی خواتین بھی خود ہی قصوروار تھیں۔ عورت ہوتے ہوئے بھی ان کے دل میں مینارِ پاکستان دیکھنے کی خواہش پیدا ہی کیوں ہوئی؟ یہ حق تو صرف مردوں کا ہے۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بیماری کے سبب گھٹ گھٹ کر مرنے والی اس بچی کا کیا قصور تھا جو قبر میں بھی محفوظ نہ رہ سکی؟
بہاولپور اور اوچ شریف کی ان کم سن بچیوں کا کیا قصور تھا جن کو گھر کے اندر ان کے سگے باپوں نے بھی نہیں بخشا؟
ملاکنڈ کی اس بچی کا کیا قصور تھا جس نے اپنے ہی سگے بھائی کے خلاف تین دفعہ ریپ کا ایف آئی آر درج کیا ہے؟
چیچہ وطنی کی اس پانچ سالہ بچی کا قصور بھی بتایا جائے جس کو ریپ کے بعد قتل کیا گیا۔ ریپسٹ مشتاق نے خود ہی پہلے اِغوا کا ڈراما رچایا، پھر مدعی بن گیا، پولیس کی مدد کرتا رہا اور بعد میں اقرارِ جرم بھی کربیٹھا
کبیر والا میں معذور بچی کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو بچی میں ایسی کیا فحاشی نظر آئی جو انہوں نے اس کا ریپ کرنا اپنا حق سمجھا؟
ٹک ٹاکر گرل کے علاوہ دو عام عورتوں کے ساتھ بھی اسی دن اور اسی نوعیت کے سلوک کی ویڈیوز لیک ہوئی ہیں۔ اچھا تو اس درندگی کے سلسلے میں کون سا جواز ٹھیک رہے گا؟ کیا اب قبروں پر بھی پہرا دینا شروع کرلیں؟ اچھا تو کون پہرا دیا کرے…… ایسے باپ اور بھائی جن کا ابھی ذکر ہوا؟
کسی کا ٹک ٹاکر ہونا، گھر سے باہر نکلنا یا برقع نہ پہننا دنیا کے کس قانون میں ہراسمنٹ اور ریپ کا جواز سمجھا جاتا ہے؟ کیا یہ انتہائی منافقت نہیں کہ ایک لڑکی کا ٹک ٹاکر ہونا تو نظر آئے، لیکن آوارہ کتوں کی طرح اس کے پیچھے بھاگنے اور بے ہودہ آوازے کسنے والے سیکڑوں لوگ نظر نہ آئیں؟
چلیں، فرض کر لیتے ہیں کہ لڑکی کا کردار ٹھیک نہیں تھا اور وہ یہ سب کچھ پبلسٹی کے لیے کروا رہی تھی، پھر ویڈیوز بنانے والے، لڑکی کو فٹ بال سمجھ کر اچھالنے والے، لڑکی کے پیچھے بھاگنے والے اور دور سے اپنی گھٹن کا اظہار کرنے کے لیے لڑکی کی چیخوں پر قہقہے لگانے والے اس بے لگام انبوہ کے کردار کے بارے میں کیا خیال ہے؟
لاہور اور ملک کے ہر بڑے شہر میں جسم فروشوں کی بہتات ہے۔ اب کوئی اس لیے ان کے پاس جایا کرے کہ اسے تو انہی کی طرف سے آفر کیا گیا تھا؟ صاف صاف کیوں نہیں کہا جاتا کہ جنسی درندگی اپنی انتہا پر ہے اور صرف ذرا سا موقع ملنے کی دیر ہے۔ بقولِ عمار اقبال
رنگ و رَس کی ہوس اور بس
مسئلہ دسترس اور بس
زنا بالجبر کرنے والوں سے بھی بڑے مجرم ’’وکٹم بلیمنگ‘‘ کرنے والے یہی لوگ ہیں جو ریپ کے لیے ماحول بناتے ہیں۔ یہی لوگ زینب کے کیس میں بھی کہہ رہے تھے کہ غلطی والدین کی تھی۔ انہوں نے اس پر نظر کیوں نہیں رکھی؟
اگر ہمارے ہاں پائے جانے والے ریپ کلچر، صنفی عدم مساوات اور اس کو تقویت بخشنے والے ہمارے موجودہ رویوں کے بارے میں روحوں کو پتا ہوتا، تو وہ خدا سے ایک عورت کے جسم میں نہ پھونکے جانے کی بھیک مانگتیں!
شکر ہے دیس کے لوگوں نے ’’فیمنسٹ‘‘، ’’لبرل‘‘ اور ’’سیکولر‘‘ کی اصطلاحات کے نام سنے ہیں۔ اب جب کبھی کوئی عورت کے حقوق کی بات کرتا ہے، یا کوئی ایسی بات جس سے کسی کی دقیانوسی سوچ اور تربیت کی بنیادیں ہلتی ہوں، تو اصلاحی غور و فکر کرنے اور واقعے کی نوعیت سمجھنے کی بجائے فوراً ان اصطلاحات کا ٹھپا لگا کر اپنی بیمار ذہنیت کو دوام بخشنے کا سامان کیا جاتا ہے۔
عورت، جس کے ہمارے ہاں ریپ کے مرتکب ہونے کے بہت ہی کم کیس رپورٹ ہوئے ہیں اور جو عموماً خود ہی شکار بنتی آئی ہے، زبا بالجبر کرنے والوں کا ساتھ دے کر ان کے گھناؤنے جرم میں اپنا حصہ ڈالنے کی مزید حماقت نہ کرے، ورنہ اس رہی سہی زندگی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گی۔
جب تک ریپ اور ہراسمنٹ کے سلسلے میں جرم کی صحیح نشان دہی کرنے اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی بجائے الٹا مجرم کی گلو خلاصی کے لیے تاویلیں گھڑی جائیں گی، تب تک نہ صرف یہ سلسلہ جاری رہے گا بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ مزید شدت بھی اختیار کرتا چلا جائے گا۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہم ان تمام ثقافتی، سیاسی، قانونی، معاشی، نفسیاتی اور حیاتیاتی امور پر غور کریں جو اس قسم کے جرائم کا سبب بنتے آئے ہیں۔ بصورتِ دیگر جس سماج کا اصول یہ ہو کہ ’’ایک عورت گھر سے باہر قدم نہ رکھے ورنہ مرد وحشی بن کر اس کو چیر کے رکھ دیں گے‘‘ تو وہ مزید تہذیب یافتہ لوگوں کا معاشرہ نہیں رہتا، اسفل السافلین کا معاشرہ بن جاتا ہے۔
……………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔