اِک قدم بھی ساتھ چلنا ہو، تو اتنا سوچنا
دوستی اور دشمنی میں قبر تک جاتا ہوں مَیں
بخدا مَیں اس شعر کے مصداق ایک طرح کا انتہا پسند ہی تھا۔ یہ تو بھلا ہو، باباجی کا، قبلہ ڈاکٹر سلطانِ روم کا اور پروفیسر احمد غامدی صاحب کا، جن کی بدولت ایک طرح سے ہمارا کافی حد تک’’تنقیہ‘‘ ہوچکا ہے۔
یادش بخیر! ایک دفعہ مَیں نے کہا: ’’ڈاکٹر صاحب، آپ نے سنا……! آج تو موصوف نے حد کر دی۔ ’’ٹیڈ ٹاک‘‘ (TED Talk) نامی عالمی فورم پر کھڑے ہو کر اس نے مجھے، آپ کو اور ہمارے پورے معاشرہ کو ضعیف الاعتقاد اور دقیانوس کہا۔‘‘ یہ ذکر کرتے وقت غیر ارادی طور پر میری آواز اونچی ہوگئی تھی اور چہرہ بھی غصہ سے تلملا اٹھا تھا۔ تبھی تو قبلہ کے لبوں پر وہی مخصوص سی گوتمی مسکراہٹ پھیلی اور جواباً کہنے لگے: ’’سحابؔ! ہمیں موصوف سے اختلاف ہے، اس میں کوئی شک نہیں، مگر اختلاف کو ہرگز بغض اور عناد کا جامہ نہیں پہنانا چاہیے۔‘‘
بخدا، اس سے پہلے مجھے کسی نے قبلہ ڈاکٹر سلطانِ روم صاحب کی طرح سمجھایا نہیں تھا کہ کسی کے ساتھ بھلے ہی اختلاف ہو، احترام ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے۔ پھر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، مَیں مختلف تجربات سے گزر کر سمجھتا گیا کہ نہ تو کسی کے ساتھ پورے کا پورا اتفاق ہوسکتا ہے اور نہ اختلاف۔
کچھ عمر کا سورج بھی مرے سر پہ آگیا
کچھ تجربے بھی سوچ کی گہرائی دے گئے
رہی سہی کثر آج سے کوئی تین چار ماہ قبل پروفیسر احمد غامدی صاحب کے ایک انٹرویو سے لیے گئے چھوٹے سے حصے نے پوری کردی جس میں انٹرویو لینے والے موصوف، پروفیسر صاحب سے پوچھتے ہیں: ’’ہم مسلمانوں کو کیسے اکھٹا کرسکتے ہیں؟‘‘
پروفیسر صاحب ایک گلاس پانی غٹا غٹ پینے کے بعد اُلٹا انٹرویو لینے والے سے سوال کچھ اس انداز سے کربیٹھتے ہیں: ’’کس مقصد کے لیے اکھٹا کرنا ہے؟‘‘
موصوف جواب دیتے ہیں: ’’مطلب، اتحاد ہونا چاہیے مسلمانوں کے درمیان!‘‘
جواباً پروفیسر صاحب کچھ یوں گویا ہوتے ہیں: ’’دیکھیے، اتفاق فطرت کے تقاضوں سے ہوتا ہے۔ مسلمانوں کو اتحاد سے زیادہ اختلاف کے آداب سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اور اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کا احترام سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اختلاف کا اظہار کرنے کے سلیقے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ چیزیں سیکھائیے مسلمانوں کو۔ اتحاد، اتحاد کی تسبیح پڑھنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ جب ہم مہذب انسان بنیں گے، جب ہم الزام تراشیاں نہیں کریں گے، جب ہم سوچ سمجھ کر بولا کریں گے، جب ہم پہلے تولیں گے، پھر بولیں گے، جب ہم تحقیق کا طریقہ اختیار کریں گے، جب اپنے دین کو بھی اس کی روح کے مطابق جانیں گے، جب اللہ کی کتاب کو بھی سچائی کے ساتھ پڑھیں گے، جب کوئی نئی بات، نئی تحقیق ہمارے سامنے آئے گی، اُس کی قدر کرتے ہوئے اُسے سمجھنے کی کوشش کریں گے، اس کے بعد یہ خواب (مسلمانوں کو اکھٹا کرنے کا) بھی دیکھ لیجیے گا۔‘‘
اب ذکر شدہ دونوں مواقع سے میری لرننگ یہ ہوئی کہ ’’واقعی اختلاف کے آداب سیکھنے کی ضرورت ہے۔‘‘
برسبیلِ تذکرہ، مَیں نے ایک تحقیق پڑھی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ جس طرح ایک انسان کے فنگر پرنٹ دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں، ٹھیک اُسی طرح ہر انسان کے وجود کی بُو(Human Body Smell) بھی دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ اس طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آنکھوں کا رنگ ہر انسان کا دوسرے سے الگ ہے۔
اب جب ہماری شکلیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں، آوازیں مختلف ہیں، احساسات مختلف ہیں، جذبات مختلف ہیں، ذریعۂ اظہار مختلف ہے، طرزِنگارش مختلف ہے، تو ایسے میں فکر کا دھارا کیسے یکساں ہوسکتا ہے؟ اس لیے چاہیے کہ ہم اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کی رائے کا احترام کریں۔
مَیں بھی باباجی، قبلہ ڈاکٹر سلطان روم صاحب اور پروفیسر احمد غامدی صاحب کو سننے سے پہلے ہر اختلاف کرنے والے کے پیچھے پڑجاتا تھا، یا جس سے بھی معمولی سے اختلاف کی گنجائش نکلتی، گویا اس سے دشمنی مول لیتا تھا۔ اب ہر گزرتے دن کے ساتھ مَیں اپنی کاؤنسلنگ کرتا ہوں۔ خود کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ اپنا جوتا ہر کسی کو اگر پہنانا چاہوں گا، تو ناکامی کا منھ دیکھوں گا۔ میرا جوتا کچھ انسانوں کو تو فِٹ آسکتا ہے، مگر سب کو نہیں آسکتا۔
مَیں خود کو سمجھاتا ہوں کہ اول تو مجھے رائے زنی سے حتی الوسع اجتناب کرنا چاہیے، اگر بامرِ مجبوری رائے دے بھی دی، تو اس کے ساتھ سب کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
ٹھیک اسی طرح اوّل کوئی مؤقف اپنانا ہی نہیں چاہیے، اور اگر باامرِ مجبوری اپنا بھی لیا، تو پھر اُس پر ڈٹ کر کھڑا رہنا ہوگا۔ بقولِ شاعر
جھوٹ بولا ہے، تو قائم بھی رہو اس پر ظفرؔ
آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہیے
قارئینِ کرام! حاصلِ نشست یہی ہے کہ ہر انسان اپنی جگہ منفرد ہے۔ ہماری شخصیات ایک دوسرے سے مختلف ہیں، اسی طرح ہمارے افکار ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اس وجہ سے لازمی ہے کہ ہماری آرا بھی ایک دوسرے سے مختلف ہی ہوں گی۔
ہاں، اگر پھر بھی کسی ’’برخود غلط‘‘ یا سوشل میڈیائی سقراط و بقراط ٹائپ لوگوں سے پالا پڑ جائے، تو فارسی کے اس مقولہ ’’جوابِ جاہلاں باشد خموشی‘‘ کے مصداق خاموشی اختیار فرمالیں۔ اور اگر پھر بھی تسلی نہ ہو، تو قربان جاؤں ’’مارک زکر برگ‘‘ کے جنہوں نے اپنی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’’فیس بُک‘‘ میں بلاک آپشن رکھ کر ہمیں مقولے میں من مرضی کے اختراع کا راستہ سجھایا، یعنی:’’جوابِ جاہلاں باشد بلاک آپشن۔‘‘
…………………………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔