کوئی بھی نظام جب بحران کا شکار ہو جائے، تو حکمران طبقات پرانے طریقوں سے حکمرانی کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ علاوہ ازیں حکمران طبقات اور اُن کے اداروں کی دھڑے بندیاں اور آپسی لڑائیاں زیادہ شدید ہوکر منظرِ عام پر آنے لگتی ہیں۔ پاکستان میں پچھلے کچھ عرصے میں یہ کیفیت بہت واضح ہوکر سامنے آئی ہے اور بحیثیتِ مجموعی پورے نظام کے انتہائی گہرے بحران کی غمازی کرتی ہے، جو اپنا اظہار معیشت، سیاست، ریاست اور صحافت کے بحرانوں میں کرتی چلی جا رہی ہے، لیکن نظام کا کوئی بھی بحران چاہے کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہو کبھی ایک سیدھی لکیر میں سفر نہیں کرتا بلکہ اس دوران میں وقتی بحالی اور استحکام کے عرصے بھی آسکتے ہیں۔ ایسے عرصے حکمران طبقات کے موضوعی اقدامات اور نظام کی معروضی حرکیات، دونوں کی پیداوار ہوسکتے ہیں۔ تاہم عمومی رجحان زوال پذیر ہی رہتا ہے۔ ماضی کے بغیر کوئی مستقبل نہیں ہوتا اور ماضی کو سمجھے بغیر نہ صرف یہ کہ حال کو سمجھا نہیں جاسکتا بلکہ مستقبل کا تعین بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے ہم کچھ تاریخی عوامل سے اسباق حاصل کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جن کا طرزِ ارتقا کئی سیاسی صورتوں سے مختلف ہے۔ ریاست کی مذہب سے علیحدگی، صحت مند پارلیمانی جمہوریت، صنعت کاری اور سماجی و مادی انفراسٹرکچر کی تعمیر سمیت یہاں کی سرمایہ داری اپنا ایک بھی تاریخی فریضہ ادا نہیں کرپائی اور یوں ایک جدید سماج کی تعمیر سے قاصر رہی۔ سامراجی تقسیم نے ہزاروں سال پرانی تہذیب کو جس بے دردی سے چیرا اس کے ثقافتی، تہذیبی اور نفسیاتی صدمے سے یہ معاشرے آج تک صحت یاب نہیں ہو پائے۔ دونوں اطراف کی مذہبی بنیاد پرستی، ہجرت کرنے والوں کے مقامی آبادیوں میں ضم نہ ہو پانے، قومی شاونزم اور وقتاً فوقتاً اُبھارے جانے والے جنگی جنون کی صورت میں تقسیم کے یہ زخم آج تک رس رہے ہیں۔
یہاں کے حکمران طبقات آج تک اس ریاست کی نظریاتی اساس کا فیصلہ ہی نہیں کر پائے۔ یہ کنفیوژن آج بھی موجود ہے کہ پاکستان کی ریاست کا کردار سیکولر اور لبرل ہونا تھا یا مذہبی اور تھیوکریٹک؟ مضحکہ خیز المیہ یہ بھی ہے کہ دونوں اطراف اپنے مؤقف کی دلائل جناح صاحب کی تقاریر سے پیش کرتے ہیں، لیکن جس ریاست کی تشکیل ہی مذہب کی بنیاد پر ہونے والے خونی بٹوارے سے ہوئی ہو، اُسے سیکولر بنانے کی باتیں ایک مذاق بن جاتی ہیں۔ یوں مذہبیت پاکستانی ریاست کے خمیر میں شامل ہے اور اپنا وجود بر قرار رکھنے کے لیے یہاں کا حکمران طبقہ روزِ اول سے ریاست پر منحصر رہا ہے۔ یوں ریاست کواپنے اقتدار کا اوزار بنانے کی بجائے یہ ہمیشہ ریاست کے تابع رہا۔ اسی لیے جوں جوں نظام کا بحران بڑھا اس کے ساتھ سماجی اور سیاسی انتشار میں بھی اضافہ ہوا۔ پورے نظام کو بچانے کے لیے ایک سے زیادہ بار ریاست کے سب سے طاقتور اور فیصلہ کن ادارے کو براہِ راست سیاسی اقتدار سنبھالنا پڑا۔ ایسے پسماندہ معاشروں میں شخصیات کا کردار مبالغہ آرائی کی حد تک بڑھ جاتا ہے۔ یہی مظہر ’’پاپولزم‘‘ کہلاتا ہے، جس کی بنیاد پرایک انقلابی تحریک یا کسی انقلابی تبدیلی کے محور ومرکز کے طور پر ذوالفقار علی بھٹو یا عمران خان کے اُبھار کی وضاحت کی جاسکتی ہے، لیکن کوئی بھی فرد محض اپنی کرشماتی شخصیت اور شعلہ بیانی کے ذریعے عوام کی قیادت میں نہیں آسکتا۔ درحقیقت سیاسی اُفق پر نمودار ہونے والی کوئی بھی شخصیت سماج میں موجودکسی نہ کسی طبقے یا اس طبقے کی کسی پرت کے مفادات کی غمازی کررہی ہوتی ہے۔ یوں یہ مفروضہ سراسر بے بنیاد ہو جاتا ہے کہ لیڈر لوگوں کو زبان دیتے ہیں، بلکہ اس کے برعکس وہ لوگوں کی اُمنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے اُن کی زبان بنتے ہیں۔
جس طرح معروف افراد و شخصیات سے دیو مالائی صلاحیتیں منسوب کر دی جاتی ہیں۔ اسی سوچ کے تحت ضیاء الحق کی شخصیت کو بھی تمام تر بدی کا ماخذ قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہ رجحان باالخصوص یہاں کے لبرل حلقوں میں بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ حالاں کہ ضیاء الحق اس سماج کے باہر سے واردنہیں ہوا تھا، بلکہ ایک رجعتی سماجی عمل کی پیداوار اور ایک طبقے کا نمائندہ تھا۔ ضیا آمریت ایک ردِ انقلاب کی نمائندگی کرتی تھی اور خود ضیاء الحق اس کا شخصی اظہار تھا، جس کے لیے ضروری تھا کہ نہ صرف ہر انقلابی رجحان کو کچلا جائے بلکہ رتی بھر ترقی پسندی کے حامل ہر سماجی، سیاسی اور ثقافتی دھارے کو کاٹ دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے براہِ راست ریاستی جبر سے لے کر مذہبیت اور مذہبی بنیاد پرستی، فرقہ واریت، لسانیت، ذات پات، منشیات غرض یہ کہ ہر رجعتی رجحان کو استعمال کیا گیا جو سیاسی قوتوں کو تقسیم در تقسیم اور عمومی شعور کو پست اور مسخ کرسکے۔
اگر لمبے عرصے کے تسلسل میں دیکھا جائے، تو یہ رجعتی عوامل ضیا آمریت کے بعد بھی نہ صرف جاری و ساری رہے بلکہ کئی حوالوں سے وقت کے ساتھ ایک آزادانہ وجود اور مزید شدت اختیار کرتے گئے ہیں۔ یہاں کی ریاست اور حاوی سیاست کے لازمی جز اور اس نظام کے وجود کی ضرورت بن چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ضیاء الحق کی داخلی و خارجی پالیسیاں بعد کی نام نہادجمہوری حکومتوں نے بھی جاری رکھیں اور ضیا آمریت کے دوران میں آئین میں ٹھونسی گئی رجعتی و آمرانہ شقیں آج کی مروجہ سیاست میں ’’صداقت اور امانت‘‘ کے پیمانوں کا درجہ اختیار کرچکی ہیں۔ لیکن یہ پورا خطہ آج جس انتشار اور خوں ریزی کا شکارہے، اس کے پیچھے 1978ء کے بعد امریکی سامراج کے شروع کردہ افغان ڈالرجہاد اور ثور انقلاب کی زوال پذیری (اور بعد ازاں بکھر جانے) جیسے علاقائی عوامل بھی کار فرماتھے۔
ڈالرجہاد کی نظریاتی اور افرادی کمک کے لیے یہاں نہ صرف مدرسوں (جو چند دہائیوں میں چند سوسے ہزاروں کی تعداد میں پھیل گئے) اور ٹریننگ کیمپوں کا جال بچھایا گیا بلکہ مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سی آئی اے (CIA) نے منشیات کی تیاری اور ترسیل کا وسیع و عریض نیٹ ورک بھی تشکیل دیا، لیکن ہر شعبے اور ہر معاملے میں ریاستی اداروں کی یہ بڑھتی ہوئی مداخلت ریاست کی مضبوطی کی بجائے اس کی کمزوری، خوف اور بحران کی غمازی کرتی ہے۔ نظام کاانتشار اس قدر شدید ہے کہ ایسے اداروں اور ایسے طریقوں کا استعمال معمول بن چکا ہے جو عام طور پر انتہائی نازک حالات میں ہی بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ اس عمل سے عدلیہ اور فوج جیسے ریاستی اداروں، جن کا تقدس دہائیوں میں میڈیا اور نصابوں کے ذریعے قائم کیا جاتا ہے، کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

…………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔