’’ہائے! میں سٹیو جابز ہوں۔ میری عمر 12 سال ہے اور میں ہائی سکول میں پڑھتا ہوں۔ میں ایک فریکوئنسی کاؤنٹر بنانا چاہتا ہوں۔ کیا آپ مجھے کچھ سپیئر پارٹس دیں گے؟‘‘ مسٹر ہیولیٹ فون پر یہ بات سن کر ہنس پڑے اور نہ صرف یہ کہ اس نے سپیئر پارٹس دے دیے بلکہ گرمیوں کی چھٹیوں میں اس ذہین بچے کو اپنی کمپنی میں نوکری بھی دے دی۔
عزیزانِ من! عموماً 12 سال کی عمر میں ہمارے بچے آئس کریم کھانے کے شوقین، کھیلنے کودنے میں مستغرق یا زیادہ سے زیادہ کاغذ پنسل کے ذریعے اُلٹے سیدھے کارٹون یا گھر وغیرہ بناتے اور مٹاتے ہیں، لیکن یہ وہ مہان سٹیو جابز تھے جنہوں نے اتنی کم عمر میں ’’فریکوئنسی کاؤنٹر‘‘ بنانے کی کوشش کی۔ اور اس کے لیے مدد بھی کسی راستے چلتے شخص سے نہیں بلکہ مشہورِ زمانہ فرم ’’ایچ پی‘‘ کے بانی ’’مسٹر ہیولیٹ‘‘ سے مانگی۔ جب مانگنے والا ’’سٹیو جابز‘‘ جیسا بچہ تھا، تو ’’مسٹر ہیولیٹ‘‘ نے بھی اسے دینے میں فراخ دلی دکھائی اور یوں ’’سٹیو جابز‘‘ پر دنیائے علم و فن کے دروازے کھل گئے اور کمپیوٹر کی صنعت کی دنیا میں اپنا پہلا قدم رکھ دیا۔ چناں چہ اپنی گاڑی بیچ کر ’’سٹیو جابز‘‘ نے ایپل کمپنی قائم کی اور 1976ء میں دنیا کا پہلا ’’پرسنل کمپیوٹر‘‘ متعارف کرایا۔ آگے چل کر ایپل کو 1980ء میں کافی مقبولیت حاصل ہوئی جس نے ’’سٹیو جابز‘‘ کو کروڑ پتی بنا دیا۔ اسی طرح ’’آئی میک‘‘ نے جسے 1998ء میں پیش کیا گیا ’’ایپل‘‘ کی قسمت بدل دی۔ ’’سٹیو جابز‘‘ نے ’’آئی بی ایم‘‘ اور ’’موٹرولا‘‘ کے ساتھ اشتراک کرکے ’’پاؤر بک لیپ ٹاپس‘‘ کے لیے ’’چپس‘‘ بنائے۔ اس نے ’’آئی پوڈ سیریز‘‘ کو ’’نینو‘‘ اور ’’ویڈیو ورژن‘‘ کے ساتھ بڑھایا جس کی بہت بڑی تعداد میں فروخت ہوئی۔ بلآخر 2007ء میں سٹیو جابز نے اکیسویں صدی کے شاہکار یعنی ایپل کا پہلا سمارٹ فون پیش کیا۔ اس نئے فون کو خریدنے کے لیے لوگوں کا ہجوم رات بھر انتظار کرتا رہا۔ ایپل کے آئی فون، آئی پیڈ ٹبلیٹ نے ٹچ سکرین کمپیوٹرز کی مارکیٹ میں انقلاب برپا کر دیا۔ کیوں کہ ایپل کے تمام پراڈکٹس کی ڈیزائننگ اعلیٰ درجے کے تھی۔ اس کی بناوٹ قابلِ رشک تھی اور کام کرنے کی صلاحیت تو قابلِ دید تھی ہی۔ سٹیو جابز کا ماننا تھا کہ ایک پراڈکٹ بنانے کے لیے لازمی ہے کہ اسے نہ صرف شکل سے خوبصورت نظر آنا چاہیے بلکہ اس کا کام اور پرفارمنس بہترین ہونی چاہیے۔ انہی اصولوں کی بدولت سٹیو جابز نے ایپل کو دنیا کا نمبرون برانڈ بنا دیا، جس کا جادو دیکھتے ہی دیکھتے سلیکان ویلی سے اُٹھ کر پوری دنیا پر چھا گیا۔
عزیزانِ من! یہ سلیکان ویلی ہی تھی جس کے پلیٹ فارم نے سٹیو جابز کو ہر قسم کی سہولیات فراہم کیں یعنی یہاں پر ایک جدید فکر پہلے ہی سے موجود تھی، جسے سٹیو جابز نے بہت اچھی طرح سمجھ کر آگے بڑھایا۔ اگر سلیکان ویلی کی بات کی جائے، تواس کے بنانے میں سٹین فورڈ یونیورسٹی کا کردار سب سے اہم ہے۔ جس کے پروفیسرز، گریجویٹس اور طلبہ نے مل کر ایک نئی دنیا کا دروازہ کھول دیا۔ اس میں سٹیو جابز جیسے لوگوں نے حیران کن طور پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ 1950-60ء کے عشرے میں پروفیسر فریڈرک جو کہ شعبۂ انجینئرنگ کا ڈین تھا، اس نے اپنے طلبہ اور پروفیسروں کی توجہ کا رُخ کمپیوٹر کی صنعت کی طرف موڑ دیا۔ اسی راستے نے ایک دن ان کو انٹرنیٹ کی راہ پر گامزن کردیا اور آج سلیکان ویلی کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی صنعت میں تمام دنیا میں ایک انقلاب برپا کر چکی ہے۔
مشہورِ زمانہ فرم ’’ایچ پی‘‘ کے بانی مسٹر ہیولیٹ اور مسٹر پیکارڈ سٹین فورڈ یونیورسٹی کے ہی گریجویٹ اور پروفیسر فریڈرک کے شاگرد تھے۔ آج سان فرانسسکو کی سلیکان ویلی میں ایپل، ڈیل، انٹیل، گوگل، یاہو اور وکی پیڈیا جیسے عالمی شہرت کی حامل کمپیوٹر بنانے والی فرموں کے ہیڈ آفس موجود ہیں، یعنی سان فرانسسکو نے دنیا کو کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے راستے پر ڈال دیا اور آج امریکہ کی 3/1 سرمایہ کاری اسی علاقے میں کمپیوٹر کی صنعت سے ہی وابستہ ہے۔
عزیزانِ من! سٹین فورڈ یونیورسٹی کو مسٹر فریڈرک جیسا پروفیسر مل گیا۔ پروفیسر فریڈرک کو ہیولیٹ اور پیکارڈ جیسے شاگرد مل گئے۔ مسٹر ہیولیٹ کو سٹیو جابز جیسا ذہین بچہ مل گیا جس نے سلیکان ویلی کے سر پر ایپل کا تاج رکھ کر اسے کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے دنیا کا بادشاہ بنا دیا۔ یہ باتیں جان کر شاید بہت سے لوگوں کو یہ خیال آیا ہوگا کہ ہمارے ملک میں سٹین فورڈ کے معیار کی کوئی یونیورسٹی کیوں نہیں؟ مسٹر فریڈرک جیسا پروفیسر یا سٹیو جابز جیسا ذہین بچہ پیدا کیوں نہیں ہوا؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم ایک قوم نہیں بلکہ ہجوم ہیں، جو ایک دوسرے کے کچھ کام نہیں آرہے۔ اگر ہم میں کوئی شخص زیادہ قابل اور ذہین ہو، تو ہم اس کی حوصلہ افزائی کی بجائے الٹا اس کی ٹانگ کھینچتے ہیں۔ اس وجہ سے ہمیں تو کیا ہمارے ذہنوں کو بھی غلام بنایا گیا ہے، یعنی ہماری نفسیات کو ایک لونڈی کی طرح قید میں رکھا گیا ہے، جس وقت، جس کو بھی چاہے ہماری نفسیات پر اثر انداز کر دیا جاتا ہے ۔ اسی چیز کو ایک آسان مثال میں یوں سمجھ لیں کہ کبھی کرکٹ کے ایک کھلاڑی کو اتنا پروموٹ کر دیا جاتا ہے کہ صبح وشام ٹیلی ویژن اور اخبارات میں اس کا ہی تذکرہ ہوتا ہے۔ جیسے اس نے کوئی پانی پت کا میدان جیتا ہو، نتیجتاً ملک کا بچہ بچہ کرکٹر بننے کے خواب دیکھتا ہے اور مذکورہ کھلاڑی کو اپنا آئیڈیل سمجھتا ہے۔ پھر وہ کھلاڑی پارلیمنٹ میں آکر سیاست سے کھیلتا ہے، جو باہر ملکوں کے تاجروں کو اکٹھا کرکے کہتا ہے کہ میرے ملک میں کرپشن عروج پر ہے۔ لہٰذا آپ لوگ آئیں اور انوسٹ کرلیں، تاکہ آپ کا بھی بیڑا غرق ہو جائے۔ جب کبھی ہم میں ارفع کریم جیسے بچے پیدا ہوئے جس نے صرف 9 برس کی عمر میں مائیکرو سافٹ پروفیشنل ہونے کا اعزاز حاصل کیا، جس نے سلیکان ویلی کے مقابلے میں ڈی جی خان ویلی بنانے کا عزم کیا تھا، جس کی سوچ آنے والی نسل کی سوچ بننے جارہی تھی، جو اس قوم کے بچوں کے لیے رول ماڈل بن رہی تھی، اچانک اس ترقی کی سوچ کو ملالہ کی سوچ سے یو ٹرن دیا گیا اور پوری شد و مد کے ساتھ دنیا کی اسٹیج پر یہ نعرہ بلند کیا گیا کہ پاکستانی قوم اپنی بچیوں کو تعلیم سے محروم رکھتی ہے۔ اس آواز کو کچھ اس انداز میں پیش کیا گیا جس پر ملک کے طول و عرض میں سب نے یک زبان ہوکر لبیک کہا، جس کے نتیجے میں ارفع کریم رندھاوا کی ترقی کی سوچ نئی نسل کے ذہنوں سے کوچ کر گئی۔ اور بات واپس وہیں پر آکر رک گئی کہ ہم نے آج بھی تعلیم کے حصول کے لیے صرف آواز اٹھانا ہے، یعنی ہم نے ترقی کی طرف لپکنا نہی۔ اگر محترمہ ملالہ نے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے آواز اُٹھائی ہے، تو کیا اس سے پہلے پاکستانی لڑکیاں اَن پڑھ تھیں؟ کیا اس ملک میں لڑکیاں ڈاکٹر، انجینئر، سائنٹسٹ، جج اور وکیل نہیں بنی تھیں؟ کیا اس ملک کی بیٹیاں آرمی اور ائیر فورس کی آفیسرز نہیں رہی تھیں؟ اس سے بڑھ کر اور کیا اعزاز ہوسکتا ہے کہ اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو ہمارے ملک سے ہی تھی۔ آپ کوئی ایک ادارہ بتا سکتے ہیں جہاں پر لڑکیوں کی ملازمت پر پابندی ہو؟ محترمہ ملالہ تو ایک نفسیاتی باڑ ہے جس کے لگانے کا مقصد ہی یہی ہے کہ پاکستانی بچوں کی سوچ اس سے آگے نہ جائے، بلکہ محترمہ ملالہ کے پیچھے ہی جائے۔ یہ نوبل پرائز تو ملالہ کو شاید اسی وجہ سے دیا گیا ہے کہ اس نے عالمی سطح پر پاکستانی قوم کی بے عزتی کی ہے کہ پاکستانی قوم لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھتی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ بحیثیت مجموعی ہماری خواندگی کی شرح کم ہے جس میں لڑکے اور لڑکیاں برابر ہیں۔ محترم ضیاء الدین صاحب کو تو قدرت کی طرف سے ایک اچھا موقع ملا تھا، لیکن اس موقع کو اس نے شہرت حاصل کرنے میں ضائع کر دیا اور ملک و قوم کو کوئی فائدہ نہیں دیا۔ اسی شہرت کے ہاتھوں وہ "ضیاء الدین یوسف زئی” کی جگہ اب صرف اور صرف "ملالہ کے والد” رہ گئے ہیں۔ اگر وہ اس دو دن کی زندگی کی شہرت کی بجائے ملک و قوم کی فکر کرتے، خود پروفیسر فریڈرک کی طرح بن جاتے، اپنے ادارے کو سٹین فورڈ کے معیار کا بنا تے اور اپنے بچوں کو مسٹر ہیولیٹ، مسٹر پیکارڈ اور سٹیو جابز کی طرح ٹیکنالوجی کی تعلیم دیتے، سوات ویلی کو پاکستان کی سلیکان ویلی بنا دیتے، تو آج ان کی شہرت بھی لازوال ہوتی۔ اس ملک کی 3/1 سرمایہ کاری اسی صنعت میں اسی علاقے میں انویسٹ ہوتی۔

……………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔