حالیہ ایک کتاب زیرِ مطالعہ تھی جس نے میری کئی الجھی ہوئی گتھیوں کو سلجھایا۔ واقعی کتاب ’’دی پرنس‘‘ (اردو ترجمہ از ڈاکٹر شاہد مختار) پڑھنے لائق ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ترجمہ شدہ کتاب کی چاشنی برقرار نہیں رہتی، مگر ڈاکٹر صاحب کے ذکر شدہ ترجمہ پر طبع زاد کا گمان ہوتا ہے۔ یوں تو ’’دی پرنس‘‘ کئی ابواب پر مشتمل ہے، مگر جو صفحات مَیں نے ہائی لائٹ کیے ہیں، مَیں سمجھتا ہوں کہ وہ کام کے ہیں۔ بیٹھے بیٹھے خیال آیا کیوں نہ میکاولی اور اس کے نظریات پر قلم اٹھایا جائے اور اسے حالاتِ حاضرہ سے جوڑا جائے، یوں ہوسکتا ہے کہ کسی کی کوئی الجھی ہوئی گتھی سلجھ جائے۔
سب سے پہلے میکاولی کے حالات ِ زندگی پر تھوڑی روشنی ڈالتے ہیں جس کے حوالہ سے کتاب میں دی گئی تفصیل من و عن ملاحظہ ہو: ’’بہترین سفارت کار، مؤرخ، ڈراما نگار، فلسفی، اپنے عہد کا کلبی مفکر اور جدید سیاسی فکر کا بانی، اٹالین نژاد نکولو مکاولی 3 مئی 1469ء کو اٹلی کے شہر فلورنس میں پیدا ہوا۔ اس کے باپ کا نام برناودودی نکولو تھا جو فلورنس کا ایک ممتاز وکیل تھا۔ تاریخ میں میکاولی کی زندگی کے بارے میں 1498ء سے پیشتر کی معلومات صرف اس حد تک ملتی ہیں کہ اس کا باپ ایک معتدل نچلے گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ میکاولی نے لاطینی زبان میں تعلیم حاصل کی۔ قانون کا مطالعہ کیا اور پھر سیاست کی طرف راغب ہوگیا۔ اس کی عملی زندگی کا آغاز فلورنس کے جمہوری نظام سے شروع ہوتا ہے۔‘‘
میکاولی جسمانی لحاظ سے کیسا تھا؟ اس حوالہ سے مذکورہ باب میں تفصیل یوں ملتی ہے: ’’میکاولی ایک دبلا پتلا اور زرد شخص تھا جس کے گال پچکے ہوئے، ہونٹ باریک، آنکھیں کالی اور تیز تھیں۔ وہ ایک صاحبِ فکر اور گہری ذہانت کا مالک تھا۔ اگرچہ وہ متعصبانہ خیالات کا حامل تھا، لیکن اپنے وطن کا ایسا وفادار تھا کہ اس نے وطن کی خاطر تمام تر اخلاقی اصولوں کو بالائے طاق رکھ دیا تھا۔ وہ اپنے ملک کی تقسیم، بدنظمی، بے ایمانی اور کمزوری کو حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا۔‘‘
اسی باب کے آخر میں میکاولی کے انتقال کی تاریخ بھی درج ہے۔ رقم کیا گیا ہے کہ وہ وہ قیدِ تنہائی میں 22 جون 1527ء کو 58 سال کی عمر میں انتقال کرگیا۔ اس کے چھے بچے تھے۔
اب آتے ہیں ان نظریات کی طرف جن کی وجہ سے میکاولی شہرتِ دوام پاچکا ہے اور جدید سیاسی فکر کا بانی مانا جاتا ہے۔ ’’دی پرنس‘‘ سے وہ نظریات منتخب کرکے یہاں رقم کیے جاتے ہیں جن کی مماثلت ’’مملکتِ خداداد‘‘ کے سابقہ و حالیہ حکمرانوں میں بالخصوص پائی جاتی ہے:
1:۔ حکمرانوں کو لومڑی کی طرح مکار ہونا چاہیے اور انہیں دنیاوی شان و شوکت کے لیے سچائی، دین اور ایمان کو قربان کر دینا چاہیے۔ مملکت کی بقا، تحفظ اور سلامتی کے لیے جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی، دھوکا، فریب اور ظلم جائز ہے۔
پہلا جملۂ معترضہ:۔ اب اگر یہاں پر کسی کو وہ ہزاروں نوکریوں اور سیکڑوں مفت گھروں والی بات یاد آرہی ہو، تو براہِ کرم مجھے قصور وار نہ ٹھہرائیں۔
2:۔ بادشاہ کو چاہیے کہ مملکتی مقاصد کے لیے مذہب کو بھی ایک آلے کی حیثیت سے استعمال کرے۔
دوسرا جملۂ معترضہ:۔ اگر اس موقعہ پر آپ صاحبان کو وہ ایک نجی ٹی وی چینل والی دعا اور وہ روتے ہوئے مولانا صاحب یاد آ رہے ہوں، تو اس میں میرا کیا قصور ہے؟
3:۔ اصل چیز سیاسی طاقت ہے اور حکمران اخلاقی اصولوں کو صرف اُسی وقت تک اختیار کرسکتے ہیں، جب تک اُن اصولوں پر چلنے سے سیاسی قوت کو کسی قسم کا اندیشہ یا خدشہ ہو۔
تیسرا جملۂ معترضہ:۔ بھلے ہی کپتان صاحب کھیل کے میدان سے اصولوں کے پکے مشہور کیے گئے ہوں، اب اگر مسندِ اقتدار پر وہ آپ کو میکاولی کے اس تیسرے نمبر پر ذکر ہونے والے نظریے کے قائل نظر آرہے ہوں، تواس میں میرا کیا قصور ہے؟
4:۔ اخلاق نے انسان کو نجی زندگی تک محدود کر رکھا ہے۔ سیاسی اقتدار کی جنگ میں مسلمہ اخلاقی اصولوں کی پابندی ضروری نہیں ہے اور سیاسی اقتدار کے حصول اور اسے برقرار رکھنے کے لیے بدترین چیز یا بہترین فعل کو اپنانا جائز ہے۔ مذہب، ضمیر اور اعلیٰ اخلاق کو سیاسی مقاصد کے لیے قربان کیا جاسکتا ہے۔
چوتھا جملۂ معترضہ:۔ اس موقعہ پر آپ کا ذہن چاہے کسی بھی طرف جائے، مگر جنگ اور جیو گروپ کو دھول چٹانے کی طرف ذہن کو اپنی ضمانت پر لے جائیے گا۔
5:۔ وہ حکمران، مملکت کی کمزوری کا باعث ہوتے ہیں، جو دوسروں کی رائے سے متاثر ہوکر اپنی رائے بدلتے رہتے ہیں، جس سے حکومت کے احکام بے وقعت ہوجاتے ہیں اور سیاسی اقتدار کمزور ہوجاتا ہے۔ اس لیے حکمرانوں کو اپنی رائے اور فیصلوں پر اعتماد کرنا چاہیے اور اپنے مشیروں کی رائے پر زیادہ اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔
پانچواں جملۂ معترضہ:۔ ویسے اتنے ترینوں، بخاریوں، قریشیوں، دیکھی اور اَن دیکھی طاقتوں کے درمیان حکمرانِ وقت کی خوش فہمی کو داد دینا پڑے گی کہ اب بھی وہ یہ سمجھتے ہیں کہ فیصلے وہ ’’فرماتے‘‘ ہیں۔ لاک ڈاؤن کے اوپر حضرت کا سخت ترین مؤقف کہ مکمل لاک ڈاؤن نہیں کرسکتے کہ یہ عوام کے مفاد میں نہیں، اور اگلے روز لاک ڈاؤن ہوجانا ویسے حضرت کی خوش فہمی دور ہونے کے لیے کافی ہے۔
6:۔ اچھی حکومت وہ ہے جو عوام کی ضروریات پوری کرتی ہے اور عوام کی امیدوں اور آرزوؤں کی تکمیل کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔ اگر کوئی حکومت ایسا نہیں کرسکتی، تو وہ روبہ زوال ہوجاتی ہے۔
چھٹا جملۂ معترضہ:۔ کاش، میکاولی کے وقت میں ’’خلائی مخلوق‘‘ ہوتی، تو وہ کبھی یہ نظریہ نہ گھڑتے۔
7:۔’’مملکت‘‘ اور ’’اخلاقیات‘‘ جداگانہ حیثیت کے حامل ہیں۔ اس لیے انفرادی اخلاقی اصولوں کو معیار نہ بنایا جائے۔ مملکت پر سچ اور جھوٹ جیسی ثانوی باتوں کو مسلط نہ کیا جائے۔ اگرچہ حکام اور پورے معاشرے کے افراد کو سچ بولنا چاہیے، لیکن بعض اوقات مملکت کی بقا، استحکام اور عظیم مقاصد کے حصول کے لیے جھوٹ بولا بھی جائے، تو کوئی برائی نہیں بلکہ یہ جھوٹ، سچ سے زیادہ مقدس ہوگا۔ مملکت کے مقاصد کو خطرہ کی صورت میں جھوٹ کے علاوہ تشدد بھی جائز ہے۔ حاکم کو چاہیے کہ ہر جائز و ناجائز ذریعے کو استعمال کرکے مملکت کے استحکام کو برقرار رکھے۔
ساتواں جملۂ معترضہ:۔ نو کمنٹس، یہ لازم نہیں کہ ہر جگہ مَیں ہی ٹانگ اڑاؤں۔ یہاں قارئین بھی ٹانگ اڑا سکتے ہیں۔ میری چوں کہ دو ٹانگیں ہیں اور گاڑی کوئی نہیں۔ اس لیے مجھے چلنے پھرنے کے لیے ان کو سلامت بھی رکھنا ہے۔
8:۔ حاکم کے لیے عہد کی پابندی ضروری نہیں اور کوئی حکمران ایسا نہیں گذرا جس نے بدعہدی پر پردہ ڈالنے کے لیے خوشنما دلیلیں پیدا نہ کرلی ہوں۔
آٹھواں جملۂ معترضہ:۔ میکاولی کے عہد میں کورونا وائرس جیسی آفت نہیں گذری، مگر کمال کا آدمی ہے کہ پھر بھی کیا نظریہ چھوڑ رکھا ہے۔ کرونا وائرس سے پہلے اگر ہم تحریکِ انصاف کے کسی کارکن سے پوچھتے کہ ’’بھئی، وہ خاں صاب اپنے کیے ہوئے وعدوں کو وفا کریں گے، یا وہ بھی گذرے ہوؤں کی طرح بس ’’گذرنے‘‘ ہی پر اکتفا فرمائیں گے۔‘‘ تو جواب بڑا کڑاکے دار ہوتا، ’’یار کچھ تو خدا کا خوف کریں۔ 70 ، 72 سالہ گند 2، 3 سالوں میں کیسے ٹھکانے لگایا جاسکتا ہے؟‘‘ ہم جیسے متعصب لکھاری سوچتے کہ ’’یار، یہ پارٹی ہے یا واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسز کمپنی (واسا)؟‘‘ مگر خدا کرونا وائرس کا بیڑا غرق کرے۔ اب ایک زبردست تاویل انصافیوں کے ہاتھ آگئی ہے کہ ’’خاں صاب تو اس ملک کی تقدیر بدلنے ہی والے تھے مگر کرونا اُن سے پہل کرگیا۔‘‘ اس سے خوشنما دلیل کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی۔
کرونا تیرا بیڑا غرق ہو، تو نے تحریکِ انصاف کے پُتلے میں ایک بار پھر روح پھونک دی۔ تیرا بیڑا غرق ہو کرونا!
…………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔