کہتے ہیں ایک مسافر سخت گرمی میں ایک جھونپڑی میں جاپہنچا جس پر ناریل کے درخت کا سایہ تھا۔ جھونپڑی والے میزبان نے مسافر کو شراب، دودھ اور حلوا نہایت ہی عمدہ برتنوں میں پیش کیا۔ مسافر نے حیرت بھرے لہجے میں اس میزبان سے پوچھا، میرے بھائی! اس لق و دق میدان میں یہ نعمتیں کہاں سے آئیں؟ جھونپڑی کے مالک نے درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، کچے ناریل سے پانی، پختہ ناریل سے دودھ، پتوں سے حلوا، شگوفوں سے شراب، چھال سے برتن، لکڑی سے ایندھن، سوکھے پتوں سے چھت، ریشوں سے رسیاں اور تیل سے روشنی حاصل کیا کرتا ہوں۔ جب یہ مسافر چلنے لگا، تو میزبان نے ایک شاخ کو جھاڑا جس سے گرد سا گرا۔ اس گرد سے سیاہی کا کام لے کر میزبان نے اپنے دوست کو خط لکھ دیا۔
عزیزانِ من، آج سے کم و بیش نصف صدی پیشتر اکثر مسلمان ممالک غلام تھے۔ استعمار کے شکنجے میں جکڑے ہوئے تھے۔ آج وہ آزاد ہیں۔ اگر مغربی استعمار نے 1924ء میں مسلمانوں کی مرکزیت خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ کیا، لیکن 1949ء میں موتمر عالم اسلامی کے ذریعے عالم اسلام کو متحد کرنے کی کوشش کی گئی۔ 1962ء میں رابطۂ عالم اسلامی قائم کیا گیا اور پھر 1969ء میں سارے مسلمان ممالک نے سرکاری سطح پر اسلامی کانفرنس تنظیم ’’او آئی سی‘‘ کے پلیٹ فارم پر جمع ہو کر امت کے اجتماعی مسائل پر آواز اٹھائی۔ اس ادبار کے دور میں دین کے سیاسی غلبے کے لیے ’’امام حسن البنا‘‘ نے 1938ء میں اخوان المسلمون جب کہ ’’مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی‘‘ نے 1941ء میں جماعت اسلامی قائم کی۔ 1962ء میں برصغیر ہی میں مسلمانوں کو دین کے قریب لانے کے لیے تبلیغی جماعت کے لوگ متحرک ہوئے۔ صرف انڈونیشیا میں دینی تحریک ’’نہضتہ العلما‘‘ کے ارکان کی تعداد تین کروڑ ہے۔ الغرض، آپ جس ملک میں بھی چلے جائیں وہاں آپ کو ایسی تحریکیں، تنظیمیں اور ادارے ملیں گے جو لوگوں کو دین کے قریب لانے کے لیے یا دین کے سیاسی غلبے کے لیے جدوجہد کرتے نظر آئیں گے۔ تعداد کے لحاظ سے مسلمان اس وقت ڈیڑھ ارب سے زیادہ ہیں۔ گویا دنیا کا ہر چوتھا فرد مسلمان ہے۔ اگر مسلم دنیا کی اسٹرٹیجک لوکیشن کا اندازہ کیا جائے، تو مسلمان انڈونیشیا بحر الکاہل کے ساحل پر سنتری کی طرح کھڑا ہے۔ مسلمان مراکش بحر متوسط کے ٹکڑے کا پہرے دار ہے۔ اگر جبل الطارق مسلمانوں کے قبضے میں نہیں ہے، تو اس کے برخلاف مراکش کا شہر مسلمانوں کی اہم چوکی ہے۔ دنیا کے بڑے براعظم افریقہ کی 65 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ نہر سوئز اور بحر قلزم کی مشہور آبی شاہراہیں بھی مسلمانوں کی ہیں۔ خلیج فارس اور باب المندب بھی مسلمانوں کے ہی ہیں۔ درۂ دانیال اور باسفورس پر ترکی بیٹھا ہوا ہے۔ مشرق میں آتے ہوئے دیکھیے انڈونیشیا اور ملائیشیا کا محل وقوع ایسا ہے کہ جس کسی کو بھی گزرنا ہے، انہی دونوں کے بیچ سے گزرنا ہے۔ اسی طرح مشرق و مغرب کے درمیان بحرِ عرب کے ساحل پر پاکستان کھڑا ہے اور خلیج بنگال میں بنگلہ دیش۔ افریقہ اور ایشیا کے سمندر اور بحیرۂ روم کی تنگ پٹیاں جو بین الاقوامی تجارت کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتی ہیں، وہ عالمِ اسلام میں واقع ہیں۔ عالمِ اسلام اس شہ رگ کو دبا کر بین الاقوامی اقتصادی زندگی کو مفلوج کرسکتا ہے۔
عزیزانِ من، زرعی اور معدنی دولت بھی مسلم دنیا کو بدرجہ اتم ودیعت ہوئی ہے۔ دنیا کی کل پیداوار میں مسلم دنیا کی پیداوار کا تناسب ملاحظہ فرمائیں۔ پٹ سن 90 فیصد، قدرتی ربڑ 70 فیصد، عربی گوند 85 فیصد، مسالے 97 فیصد، کھجور کا تیل 65 فیصد، کپاس 35 فیصد، معدنیات 51 فیصد اور فاسفیٹ 32 فیصد، یہ بالکل اجارہ داری کی سی صورت ہے۔ اس کے علاوہ کچا لوہا، قدرتی گیس، تانبا، ایلومینیئم، کوئلہ، باکسائیٹ، مینگانیز، کرومائیٹ، یورینیئم، سونا چاندی اور کوبالٹ میں بھی اسلامی ممالک دولت مند اور زرخیز ہیں۔
پیٹرول اور تیل کے ضمن میں بھی مسلم دنیا کو ایک طرح کی اجارہ داری حاصل ہے۔ صرف مشرقِ وسطیٰ میں دنیا کی کل پیداوار کا 40 فیصد تیل نکلتا ہے۔
عزیزانِ من، میزان میں تول لیجیے، اعداد و شمار جمع کرلیجیے، کل آپ غلام تھے اور آج آزاد ہیں ۔ 57 ممالک جس کی ڈیڑھ ارب سے زیادہ آبادی ہے، بہترین اسٹریٹجک لوکیشن، سمندروں تک رسائی، زرخیز میدان، بلند وبالا پہاڑ، صحرا اور جنگل، معدنیات کے ذخائر، ہر قسم کی صنعتوں کے لیے خام مال کی فراہمی، زرعی اجناس بفراغت اور بہت بڑی افرادی قوت حاصل ہے۔ آپ کے پاس کس چیز کی کمی ہے؟ اور آپ دنیا میں ذلیل و خوار کیوں ہیں؟ آج آپ کی معیشت اتنی کمزور کیوں ہے؟ آج آپ کے ذخائر پر غیروں کا قبضہ کیوں ہے؟
آج اگر مسلمانوں کی سیاسی صورت حال دیکھی جائے، تو بظاہر آزادی حاصل کرلینے کے باوجود یہ اپنے فیصلے خود نہیں کرسکتے بلکہ ان کے فیصلے واشنگٹن اور لندن میں ہوتے ہیں۔ ان کے حکمران مغرب کے گماشتے ہیں۔ اگر مسلمانوں کی معاشی صورتحال کا جائزہ لیا جائے، تو اکثر مسلمان ممالک بین الاقوامی یہودی اور مغربی معاشی اداروں اور حکومتوں کے مقروض ہیں اور جو مسلمان ممالک امیر ہیں، ان کی اصل دولت مغربی بینکوں میں پڑی رہتی ہے۔ اکثر مسلمان ممالک کے وزرائے خزانہ ’’آئی ایم ایف‘‘ اور ’’ورلڈ بینک‘‘ کے نمائندے اور امریکی ایجنٹ ہیں، جو اپنے مالکان کا حقِ نمک ادا کرتے رہتے ہیں، جس کی بہ دولت غریب مسلم ممالک کے عوام خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، جن کی تعداد تقریباً 45 کروڑ سے بھی زیادہ ہے۔
اگر دفاعی لحاظ سے دیکھا جائے، تو اسلامی دنیا اسلحے میں خود کفیل نہیں بلکہ مغرب کی محتاج ہے۔ مسلم ممالک کے درمیان کسی قسم کا کوئی معاہدہ نہیں ہے جس کے نتیجے میں مغربی ممالک جب چاہتے ہیں، مسلم ممالک کو نرم چارے کی طرح کھا جاتے ہیں۔
انڈسٹریل زون کا یہ حال ہے کہ کوئی بھی مسلمان ملک بھاری مشینری اور الیکٹرانک مصنوعات نہیں بناسکتا۔
اخلاقی معیار ہمارا اتنا گر چکا ہے کہ کرپٹ ترین ممالک میں ہمیشہ اسلامی ملکوں کا نام سرِفہرست ہوتا ہے۔ ہم اسلام کے نام لیوا رشوت، فراڈ، دھوکا دہی، اقربا پروری اور بددیانتی میں سب سے آگے ہیں۔
ہماری سماجی حالت یہ ہے کہ ہم کافروں جیسا بننا چاہتے ہیں، ان جیسا لباس پہن کر اتراتے ہیں، تمدن و ثقافت میں مغرب کی پیروی کرنا چاہتے ہیں۔
اس کے علاوہ زراعت کے شعبے میں بھی مسلم دنیا خود کفیل نہیں ہے۔ پیٹ بھرنے جیسی بنیادی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ہم ترقی یافتہ ممالک کے محتاج ہیں۔
انڈونیشیا سے مراکش تک پھیلا عالم اسلام لگ بھگ تین کروڑ مربع کلومیٹر رقبے پر محیط ہے۔ صرف پانچ اسلامی ممالک سعودی عرب، عراق، متحدہ امارات، کویت اور ایران کے دریافت شدہ تیل کے ذخائر658.3 بلین بیرل ہیں، لیکن پھر بھی دنیا کی برآمدات میں ہمارا حصہ 7.5 فیصد ہے۔ عالمی معیشت میں ہمارا حصہ صرف 5 فیصد ہے۔
جدید تحقیق جو کبھی مسلمانوں کی گھر کی لونڈی سمجھی جاتی تھی، آج اس شعبے میں بھی مسلم ممالک کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ آج سائنس اور ٹیکنالوجی کے بڑے رسالوں میں مسلم ممالک کے لکھنے والے ماہرین کا حصہ صرف ایک فیصد ہے۔ دنیا میں ہرسال سائنس پر تقریباً ایک لاکھ کتابیں چھپتی ہیں، لیکن بدقسمتی سے ان میں سے ایک بھی کسی مسلم ملک میں نہیں لکھی جاتی اور حصولِ تعلیم جس کی بدولت قومیں ترقی یافتہ بنتی ہیں، اس کا تو یہ حال ہے کہ اکثر مسلم ممالک میں شرح تعلیم 30 یا 40 فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ پورے عالم اسلام میں یونیورسٹیوں سمیت اعلیٰ تعلیمی ادارے تقریباً ایک ہزار ہیں، جن میں بیشتر یونیورسٹیوں میں اعلیٰ سماجی تعلیم اور سائنس وٹیکنالوجی پڑھانے اور سکھانے کی سہولتیں انتہائی ناقص ہیں۔ اس کے برخلاف امریکہ اور یورپ تو دور اگر ہم ایک چھوٹے سے ملک جاپان کا جائزہ لیں، تو اکیلے جاپان میں اس وقت ایک ہزار سے زیادہ اعلیٰ پائے کی یونیورسٹیاں موجود ہیں۔
عزیزانِ من، قصہ مختصر ملت اسلامیہ اس وقت اس جھونپڑی والے سے بدتر ہے جس نے ایک ناریل کے درخت سے شراب، دودھ، حلوا، برتن، چھت اور روشنی کے لیے تیل حاصل کیا تھا۔ اور ہم اتنی بھرپور افرادی قوت کے ہوتے ہوئے اتنی زیادہ وسائل اور معدنی ذخائر سے بھی کچھ حاصل نہ کر سکے۔

……………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔