آج ایک بار پھر ’’خانِ اعظم‘‘ جناب وزیر اعظم حضرت عمران خان کو ایک مشورہ مفت دینے کی جسارت کر رہا ہوں…… لیکن اس سے پہلے ایک واقعہ سن لیں۔
مرحوم نذر حسین کیانی ایک مرنجاں مرنج شخصیت اور پُرعزم سیاسی کارکن تھے۔ بھٹو صاحب کے دور میں اسمبلی میں چیف ویپ رہے اور بی بی کے قریب ترین ساتھیوں میں سے تھے۔ میرے سیاسی استاد تھے۔ خاص کر دورانِ طالب علمی مَیں نے کیانی صاحب کے ساتھ گھنٹوں وقت گزرا اور ہر موضوع پر راہنمائی لی۔
مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ سنہ 88ء میں جب ایسا لگ رہا تھا کہ جونیجو کی اسمبلی، عدالت بحال کرنے جا رہی ہے، تو مرحوم کرنل حبیب ’’راجہ بازار‘‘ میں پی پی کے دفتر تشریف لائے اور آتے ہی کہا: ’’کیانی رپھڑ پڑھ گیا ہے اور لگتا ہے کہ الیکشن اب سنہ 90ء کے بعد ہی ہوں گے۔‘‘ نذر کیانی نے کہا: ’’نہیں کرنل! الیکشن ہوں گے اسی تاریخ کو اور اب جماعتی بنیادوں پر ہوں گے۔‘‘ کرنل صاحب نے کہا: ’’کیانی لکھ لو…… آخر کرنل ہوں……!‘‘ کیانی صاحب نے ہلکی سی مسکراہٹ دی اور کہا: ’’کرنل……! مَیں کم اہمیت بندہ ہوں…… لیکن ’’چاچا ہرا‘‘ ہوں!‘‘ کرنل صاحب نے کہا: ’’ہرے ہو، یا لال…… بات میری لکھ لو۔‘‘ یہ کہتے ہی نکل گئے۔ تب مَیں نے کیانی صاحب سے اس بابت استفار کیا اور کیانی صاحب نے یہ حیران کن واقعہ بیان کیا۔
مَیں کیانی صاحب کے واقعہ سے قبل اپنے قارئین کو ’’چاچا ہرا‘‘ کا تعارف کروا دوں۔
چاچا ہرا کا تعلق سیالکوٹ سے تھا۔ ان کا اصل نام مطلوب احمد تھا…… لیکن وہ چوں کہ ہر وقت پی پی کے تین رنگوں والے جھنڈے سے مزین ایک لمبا سے چوغا باندھ کر ہر جلسہ میں بے ہنگم رقص کرتا رہتا تھا۔ سو ’’چاچا ہرا‘‘ کے نام سے معروف ہوگیا۔ اپنی وفات سنہ 2017ء تک وہ پی پی سے جذباتی تعلق اور رومانس کا شکار رہا۔ آج کل جو ’’چاچا کرکٹ‘‘ مشہور ہے…… چاچا ہرا تقریبا ایسا ہی تھا۔ مَیں جب بھی ’’چاچا کرکٹ‘‘ کو دیکھتا ہوں، تو مجھے ’’چاچا ہرا‘‘ یاد آجاتا ہے۔
قارئین! اب آئیں واقعہ کی طرف۔
مَیں نے کرنل حبیب کے جانے کے بعد کیانی صاحب سے استفسار کیا کہ انہوں نے خود کو ’’چاچا ہرا‘‘ سے کیوں تشبیہ دی؟ تو کیانی صاحب نے جواباً یہ واقعہ بیان کیا…… آپ خود نذر کیانی کی زبانی سنیں:
کیانی صاحب بتاتے ہیں کہ یہ سنہ 1978ء کے آخری مہینوں کی بات تھی۔ بھٹو صاحب پر قتل کا مقدمہ سپریم کورٹ میں چل رہا تھا۔ صفائی کے وکلا میں یحییٰ بختیار کے ساتھ اہم وکیل بھٹو دور کے وزیرِ تعلیم و قانون ’’سوہنے منڈے‘‘ کے نام سے معروف ’’حفیظ پیرزادہ‘‘ (مرحوم) تھے۔ مَیں ایک دن پنڈی ڈسٹرک جیل (تب اڈیالہ جیل نہ تھا) بھٹو صاحب سے ملاقات کے لیے گیا۔ مَیں نے محسوس کیا کہ بھٹو صاحب کافی پریشان ہیں۔ مَیں نے جب اس پریشانی کی وجہ پوچھی، تو بھٹو صاحب نے کہا: ’’کیانی! کل بیگم صاحبہ آئی تھیں اور ایک خط لے کر آئی تھیں۔ بس اُس خط نے پریشان سا کر دیا۔‘‘
بقولِ کیانی صاحب، مَیں نے سوچا یہ خط شاید کسی امریکی سنیٹر، کسی یورپی ذمہ دار یا کسی عرب شہزادے کا ہوگا…… جس میں بھٹو صاحب کو متوقع خطرہ سے آگاہ کیا گیا ہوگا…… لیکن بھٹو صاحب نے یہ بتا کر مجھے حیران کر دیا کہ یہ خط ’’چاچا ہرا‘‘ کا تھا۔ معلوم نہیں ’’چاچا ہرا‘‘ کس طرح ستر کلفٹن پہنچا…… کس طرح خط کسی نوکر کو اس وعدے سے دیا کہ یہ بیگم صاحبہ تک پہنچا دینا…… پھر کس طرح یہ بیگم صاحبہ تک پہنچا……؟ بہرحال کیانی صاحب کہتے ہیں کہ مجھے حیرت ہوئی…… پھر بھٹو صاحب نے خود ہی کہا: ’’کیانی! خط کیا تھا…… بس دو سطریں اُردومیں لکھی گئی تھیں کہ صاحب (مطلب ’’بھٹو صاحب‘‘) کو میری طرف سے یہ کہنا کہ وہ حفیظ پیرزادہ سے کلی ہوشیار رہیں۔‘‘
کیانی صاحب کہتے ہیں، مَیں نے ڈرتے ڈرتے بھٹو صاحب کو کہا کہ ’’سر! یہ چاچا ہرا ایک مخلوط الحواس شخص ہے۔ ملنگ ٹائپ…… آپ اس کی بات پر فکر مند ہیں……! تو بھٹو نے بہت شستہ انگریزی میں کہا: ’’کیانی! دیکھو جب تک میں چاچا ہرا اور اس جیسے اپنے مخلص کارکنان کی بات سنتا رہا…… مَیں کہاں پہنچ گیا تھا۔ لیڈر آف اسلامک ورلڈ اینڈ تھرڈ ورلڈ، صدر، وزیرِ اعظم…… لیکن جوں ہی میں ان پیرزادوں، کھروں، ٹوانوں میں گھر گیا…… دیکھ لو! اب کہاں آگیا ہوں! اب اگر مجھے قدرت نے ایک اور موقع دیا، تو مَیں انہی اپنے چاچا ہرا جیسے جیالوں کی سنوں گا۔ وہ تجربہ کار ہوتے ہیں۔ زمانہ شناس ہوتے ہیں اور سب سے بڑھ کر آپ سے مخلص ہوتے ہیں۔ ان کے اخلاص کی بے قدری مجھ جیسے بڑے قائد کو کال کوٹھری پہنچا دیتی ہے۔‘‘
کیانی صاحب آگے کہتے ہیں کہ مجھے سمجھ نہ آئی یہ بات…… بلکہ دل میں سوچا کہ قیدِ تنہائی اور پھانسی کے خوف نے اس عظیم لیڈر کو نفسیاتی طور پر وہمی بنا دیا ہے…… مگر مجھے بھٹو کی بات پھانسی کے بعد اُس وقت سمجھ آئی جب حفیظ پیرزادہ المعروف ’’بھٹو کا سوہنے منڈا‘‘ کہ پھانسی میں ایک ہفتہ بھی نہ ہوا تھا کہ معروف ادکارہ بابرہ شریف کی بہن ’’فاخرہ شریف‘‘ سے تیسری شادی کی اور ہنی مون منانے لندن پہنچ گئے۔
اس کے علاوہ بھٹو صاحب کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ شروع میں حتی کہ دورانِ اقتدار اپنے ذاتی گھریلو ملازم نور محمد عرف نورا سے بہت اہم معاملات پر مشورہ لیتے تھے۔ اس کا ذکر پھر کسی وقت…… لیکن یہاں ہم عمران خان صاحب کو یہ نصیحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ سر! آپ تسلیم کریں یا نہ کریں…… لیکن اس وقت آپ وقت کے حفیظ پیر زادوں میں بری طرح سے گھر چکے ہیں۔
سر! آپ کی ڈور اس وقت انصافین کے ہاتھ میں نہیں…… وہ کارکن جو 22سال آپ کو امید کی کرن سمجھتے رہے…… جو آپ کی خاطر خود کو تباہ و برباد کرتے رہے…… بلکہ معذرت کے ساتھ…… سر! آپ کے مشیرِ اوّل اب وہ ہیں کہ جن کا آپ کی جماعت اور نظریہ سے تعلق ہی نہیں۔ یہ شہزاد اکبر…… یہ شہباز گل…… یہ فردوس عاشق اعوان…… یہ فواد چوہدری…… یہ پرویز خٹک…… یہ خسرو بختیار وغیرہ ان کا تعلق کیا ہے تحریکِ انصاف سے…… تحریکِ انصاف کی قیادت سے…… یا تحریکِ انصاف کے نظریہ سے……!
مجھے یاد ہے یہ کوئی سنہ 2009ء، 2010ء کی بات ہے۔ ملک پر یوسف رضا گیلانی کی حکومت تھی، تو مجھے اس وقت ن لیگ کے چکوال سے ایم این اے محترم ایاز میر سے ملاقات کا موقع ملا۔ ملاقات کے آخر میں ایاز میر نے بتایا کہ وہ دو دن بعد یوسف رضا گیلانی سے ملاقات کریں گے۔ مَیں نے ان کو کہا، ’’سر! مَیں بھی گیلانی ہی ہوں۔ میرا ایک پیغام آپ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی تک پہنچا دیں گے……! تو انہوں نے کہا، ’’ضرور!‘‘ مَیں نے ان سے کہا، ’’سر، گیلانی صاحب کو کہنا کہ میرا ذاتی تو تعلق نہیں…… لیکن جب سے آپ کی حکومت بنی ہے…… شہید بے نظیر کے جیالے ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔‘‘
سو یہی بات آج عمران خان صاحب کے لیے ہے کہ ’’محترم خان صاحب! آپ اور کچھ کریں یا نہ کریں…… لیکن آپ کے انصافین کہ جن کو آپ ’’ٹائیگر‘‘ کہتے ہیں…… وہ بری طرح ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ نہ ان کی شنوائی ان کے کسی ذاتی کام میں ہے…… نہ کسی عوامی کام میں۔ وہ بے چارے منھ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ وہ اپنے تمام ووٹرز کہ جن کی منتیں کر کے انہوں نے آپ کو ووٹ دلوایا تھا…… ان کے سامنے ان کی انا کچلی جا رہی ہے۔ ان کی آنکھیں شرم سے جھکی ہوئی ہیں۔
جناب وزیراعظم! کام تو رہے ایک طرف…… مَیں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اب ان کو رسمی سی معاشرتی عزت بھی نہیں دی جا رہی…… بلکہ بعض معاملات میں رویہ یا عمل سے نہیں بلکہ آپ کے ایم این اے اور ایم پی اے ان کو باقاعدہ زبان سے ذلیل کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کو کہا جاتا ہے کہ ’’آپ کا کوئی احسان نہیں…… تم نے ہمیں نہیں، عمران خان کو ووٹ دیا تھا۔ سو اب جاؤ عمران خان کے پاس!‘‘
سر جی! یہ انصافی ٹائیگر آپ کا اصل اثاثہ ہیں۔ ان کی وجہ سے ہی آج آپ وزیرِ اعظم ہیں۔ سو ان کی دلداری آپ نہیں کریں گے، تو کون کرے گا؟ سو مَیں آپ کو ایک دفعہ پھر یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے…… خدا نہ کرے کہ آپ کو ذوالفقار علی بھٹو کی طرح کسی ’’ڈیتھ سیل‘‘ میں قیام کرنا پڑے…… لیکن یہ تو ممکن ہے کہ آپ بنی گالہ کی پہاڑی یا لندن کے کسی ہوٹل میں بیٹھ کر پھر کسی کو یہ کہتے ہوئے ملیں کہ’’اب اگر قدرت نے مجھے موقع دیا، تو میں اپنے چاچا ہرا کے پاس جاؤں گا، اس کی سنوں گا۔‘‘
سر! ابھی کل ہی کی بات ہے…… بھٹو صاحب نے ایسا کیوں کہا تھا کہ ان کو معلوم ہوگیا تھا کہ ان کی جماعت کے اکثر سٹال ورلڈ، ضیا سے مل گئے تھے۔ جب کہ بھٹو صاحب کی عوامی مقبولیت تو آج تک قائم ہے۔ اس پہلو پر آپ جتنا جلدی غور کرلیں…… اتنا ہی آپ کی خاطر بہتر ہوگا۔ وگرنہ وقت کسی کا انتظار تو نہیں کرتا۔
سر! آخر میں ایک عرض کرنی ہے کہ جو راہنما اپنے کارکنان کو احمق اور جذباتی سمجھتا ہے، وہ ہمیشہ خود احمق ہوتا ہے۔ کیوں کہ چاچا ہرا جیسوں کی دانش بہت سے رفیع رضاؤں سے زیادہ بہتر اور جان دار ہوتی ہے…… اور اس کے اول گواہ ذوالفقار علی بھٹو خود تھے۔
……………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔