اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اہلِ سوات انتہائی مہمان نواز اور محبتوں کے شان دار سوداگر ہیں، جو محبتوں کے بدلے محبتوں کا ہی سودا کرتے ہیں۔ ان کے دل سوات کے حسن کی مانند بے پناہ فطری خوب صورتی سے مالا مال ہیں۔ اس لیے تو انھیں مصنوعی غازہ و مشاطگی کی چنداں ضرورت نہیں۔ یہ اپنے خلوص و ایثار کے بَل بوتے پر دل میں گھر کرنا جانتے ہیں۔ سوات کے خربوزہ، آڑو، آلو بخارے، املوک اور مسمی کے مانند میٹھے اور رسیلے ہیں۔ پچھلی چند دہائیوں سے بارود کی بُو سے سوات آلودہ رہا، کشت و خون کا بازار گرم رہا، بوئے گل لہو لہو تھی اُوپر سے سیلاب جیسی آسمانی آفت نے اسے بے خانماں کیا، مگر بلند حوصلگی اور اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے مردِ کہستانی کے وصف سے مزین اہلِ سوات درجِ بالا تمام آفات اور بلاؤں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے سرخ رُو ٹھہرے۔ اب سوات میں زندگی پھر سے رواں دواں ہے ، وادیاں اپنی آغوش سب کے لیے وا کرتی ہیں، ہر طرف چہل پہل ہے، چشمے، آبشاریں، ندی نالے اور دریا اُلفت و مودت کے گیت گنگناتے ہیں، چہار سو پھیلے جنگلات اور سبزہ زار آنکھوں کو طراوت بخشتے ہیں۔
حنیف زاہد کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/hanif/
درجِ بالا تمہید کے اصل مدعا کی طرف لوٹتے ہوئے عرض ہے کہ گو اہلِ سوات تو لاکھوں ہیں، مگر ان میں سحابؔ فقط ایک ہی ہے، مگر اُن کو سحاب بنانے میں وحدہ لاشریک کے بعد بنیادی اور اولین کردار انتہائی پارسا، نیک اور عظیم والدہ محترمہ کا ہے۔ اُنھی کی عالی تربیت کے زیرِ اثر فرہاد کی مانند کوہ کنی کرکے جوئے شیر لانے میں اک زمانہ لگا۔ جہدِ مسلسل کی بھٹی میں سلگنا پڑا، تبھی کندن ہوئے اور زمانے کا سامنا کرنے کا ہنر سیکھا۔
امجد علی سحابؔ مینگورہ میں محلہ وزیر مال میں عدم سے وجود میں آئے۔ ابتدائی تعلیم ملا بابا کے پرائمری اسکول سے حاصل کی، جہاں اُن کے اور سب کے پسندیدہ استاد محترم ریاض احمد صاحب تھے۔ گورنمنٹ ہائی سکول میں زیرِ تعلیم تھے کہ اسی دوران میں والد صاحب جو روئی کے کاروبار سے وابستہ تھے، دارالفنا سے دارالبقا روانہ ہوئے، تو بالی عمر ہی میں یتیمی کے گراں ابدی بار تلے آنا پڑا۔ گویا اُن کا بچپن اور لڑکپن خوش گواری اور آسودگی سے مبرا تھا۔ وہ برملا اس کا اظہار کرتے ہیں کہ ’’مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ زندگی کی گاڑی چلانے کے لیے میٹرک کے بعد دیہاڑی کی، ہتھ گاڑی پر ٹماٹر بیچے، بطورِ مزدور سخت کام بھی کیے ۔‘‘
دیگر متعلقہ مضامین:
صحافی امجد علی سحابؔ کی ضمانت قبل از گرفتاری منظور
دل کی رہ جائے نہ دل میں یہ کہانی 

جاروگو آبشار، فردوس بر روئے زمیں است 
مشق سخن اور چکی کی مشقت پر کاربند رہے۔ محنت و مشقت ساتھ ساتھ والدہ محترمہ کی نصیحت اور بصد شوق اپنی پرائیویٹ تعلیم بھی جاری رکھی۔ چوں کہ ممدوح کو اسکاؤٹنگ سے دلی لگاؤ تھا اور دل میں نئے علوم سیکھنے کا جنون بھی، سو آپ نے اس میں بھی مہارت حاصل کی اور یہی مہارت اُن کی عملی زندگی میں کام آئی۔ جب غمِ روزگار کے لیے اسی مہارت کی بنا پر مکہ ماڈل سکول، دی سہارا سکول ، یتیموں کے سکول خپل کور ماڈل سکول اور دیگر سکولوں میں فزیکل ٹیچر کے طور پر فرائض سر انجام دیے۔ ماہ و سال بیتتے گئے اور اس شاہین نے پرائیوٹ ایم اے اُردو کرنے کے بعد فضل ربی راہی اور والدہ محترمہ کی دعاؤں، اپنی محنتِ شاقہ اور قابلیت کے بل بوتے پرایس پی ایس میں بطورِ اُردو استاد شمولیت کی۔
امجد علی سحابؔ کی زندگی میں ایک انقلاب اُس وقت آیا جب محقق ڈاکٹر سلطان روم، ماہرِ تعلیم سید منور شاہ، پونوں کے چاند فضل خالق اور سینئر صحافی فضل ربی راہیؔ جیسے اساتذہ نے اس خوجہ بالا کے خفتہ جواہر کو نہ صرف پہچانا، بلکہ اس ہیرے کی شان دار تراش خراش کی، جس سے یہ ہیرا نہ صرف سوات بلکہ وطنِ عزیز کے اُفق پر مزید چمک اُٹھا۔
مذکورہ اساتذہ کے فضل سے موصوف محنتی استاد، بے باک صحافی، شاعر، صاحب اُسلوب نثر نگار، حق گوئی میں یکتا، سبد گل جس نے اک جہاں کو معطر کیا، کوہ نورد، ہائیکر، ایکسپلورر، سیاح، روزنامہ آزادی کے مدیر، ڈان اُردو سروس اور وی نیوز کے بلاگر، ویب پیج لفظونہ ڈاٹ کام کے بانی اور ایڈیٹر، باخبر سوات ڈاٹ کام کے ایڈیٹر، وی لاگر، پوڈ کاسٹر اور سب سے بڑھ کر ایک دردِ دل رکھنے والے پیارے انسان بنے ۔
کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں
ساری تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ اک ہمہ جہت شخصیت ہیں، جن کی پہچان اور حلقۂ ارادت چہار دانگ عالم ہے ۔ ہم بورے والا ٹریکرز بھی ان کے مریدین میں شامل ہیں۔ شش جہت ہمارے مہربان کامریڈ امجد علی سحابؔ مد ظلہ کی گوناگوں خوبیوں اور محبتوں میں مزید برکت ڈالے ، آمین!
آپ کی بے پناہ اُلفتوں کی نذر چند منتشر خیالات اور بے ترتیب الفاظ، گر قبول افتد زہے عز و شرف……!
کسی وقت شامِ ملال میں ، مجھے سوچنا
کبھی اپنے دل کی کتاب میں ، مجھے دیکھنا
کسی رات ماہ و نجوم سے ، مجھے پُوچھنا
کبھی اپنی چشمِ پُر آب میں ، مجھے دیکھنا
میرے خار خار سوال میں ، مجھے ڈھونڈنا
میرے گیت میں میرے خواب میں مجھے دیکھنا
میرے آنسوؤں نے بجھائی تھی میری تشنگی
اُسی برگزیدہ سحاب میں، مجھے دیکھنا
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔