مستنصرحسین تارڑ کی پیدائش یکم مارچ 1939ء کو بیک وقت گکھڑ منڈی اور لاہور کے مقام پر ہوئی۔ طبّی تاریخ کا یہ اکلوتا، انوکھا اور منفرد واقعہ غیرمنقسم ہندوستان میں پیش آیا۔ تارڑ کے والد چوہدری رحمت خان تارڑ بھی ’’فوراِن و ن‘‘ تھے۔ وہ چوہدری بھی تھے، خان بھی تھے، رحمت بھی تھے اور تارڑ تو وہ بہرصورت تھے ہی۔ وہ اپنے موقع پرست بیٹے کے لیے کس قدر آپشن چھوڑ گئے تھے۔ اُن کی پیدائش پر حکومتِ یونان نے 10 منٹ کی خاموشی کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کیا جو "FAX” کی ایجاد نہ ہونے کے باعث ابھی تک حکومتِ پاکستان کو باضابطہ طور پر موصول نہیں ہوسکا۔ بعض محققین از قسم امجد طفیل اُن کی پیدائش ’’جوکالیاں‘‘ کی بھی بتاتے ہیں۔ جس بندے کی پیدائش اتنے اسرار کی حاملہ ہو، اُس کی وفات کیا ترفاٹ مچائے گی؟ یہ اندازہ لگانا کچھ ایسا دشوار بھی نہیں۔ اُن پر کام کرنے والے بلکہ اُن کا کام تمام کردینے والے محقق لیکچرار احمد بخش (فخرِرحیم یارخان) کے مقالے سے ہی ہمیں پتا چلا کہ مستنصر حسین تارڑ میٹرک سے آگے نہیں بڑھ پائے۔ یہ مقالہ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کی موجودہ صدرِ شعبہ اُردو، ڈاکٹر روبینہ ترین کی زیرِنگرانی مکمل ہوا۔ احمد بخش نے تارڑ کو واسطے دیے، ترلے منتیں کیں اور گوڈوں سے کچھ اوپر ہاتھ بھی لگایا، مگر تارڑ سرٹیفکیٹ یا ڈگری کے نام پر مزید کچھ نہ دکھا سکے۔ حالاں کہ اب تو بلوچستان کے وزیراعلا اسلم رئیسانی نے ڈگری کا رولا ہی مکا دیا ہے یہ بیان دے کر’’ڈگری، ڈگری ہوتی ہے چاہے وہ اصلی ہو یا نقلی!‘‘ ملک احمد بخش کو ہم رحیم یارخان ہی میں چھوڑتے ہیں اور آتے ہیں تارڑ کی طرف۔
میری تحقیق کے مطابق یونانیت کے وسیع ذخائر قبل اَز تارڑ متحدہ ہندوستان میں ’’جوکالیاں‘‘ (موجودہ پاکستان) کے مقام پر ہی دریافت ہوئے تھے اور ان ذخائر کا بیشتر حصہ اکیلے تارڑ کے حصے میں آیا۔ باقی تارڑ قوم بوجوہ یونانیت سے محروم رہی۔ تھوڑی بہت یونانیت احمد عقیل روبی نے بھی لیز پر لی۔ میری اس بات کی تصدیق احمد عقیل روبی بھی ’’بزبانِ قاسمی‘‘ کرچکے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تارڑ کا ’’یونانی‘‘ ہونا زیادہ اہم ہے یا پاکستانی ہونا؟ تو ہم تارڑ کے یونانی ہونے کو فریزر میں ڈالتے ہوئے اُن کے پاکستانی ہونے پر بات کرتے ہیں۔
کتاب: ’’پنجاب کی ذاتیں‘‘ کے مصنف سر ڈینزل ابسٹن، تارڑ قوم کا تعارف ان الفاظ میں کرواتے ہیں: ’’انتہائی سست، آوارہ گرد اور شورش پسند‘‘ تارڑ کے بھی قریب قریب وہی کمپلیکسز ہیں جو ہر پاکستانی کے ہیں۔ تارڑ چوں کہ مقامی تھے اس لیے الاٹمنٹس کی لوٹ مار میں انہیں یا اُن کے خاندان کو کچھ خاص بھنڈارا نہ ملا۔ اس دُکھ کا اظہار وہ اپنے ہر ملاقاتی سے کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں اور اکثر اس غم کو غلط کرنے کی خاطر احتجاجی طور پر ملک چھوڑ جاتے ہیں مگر ملک سے غیرحاضری کو الطاف حسین المعروف بھائی جان کی طرح "CASH” کرواتے ہیں اور اُسے اپنی طرف سے ’’سفرنامے‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ اُن میں وہ سادگی، تمام تر خرانٹ پن کے باوجود پائی جاتی ہے جسے کوئی دیہاتی یا مضافاتی کسی بڑے شہر میں سیٹل ہونے کے باوجود نفی نہیں کرسکتا۔ تارڑ کو کوئی بڑا خاندانی بیک گراؤنڈ نہ ہونے کی کمی اپنے والد کی چند کلے زرعی اراضی چاندی کے ورق کی طرح کوٹ کوٹ کر سیکڑوں مربعوں پر پھیلا کر پوری کرنی پڑتی ہے۔ ایک بار غلام حسین ساجد کے سامنے تارڑ نے ایسی ہی لپاڑبازی کا مظاہرہ کیا، تو غلام حسین ساجد تمام تر احترام کے باوجود یہ کہنے پر مجبور ہوگئے: ’’تارڑ صاحب رُک جائیں آپ کی زمینیں تو بارڈرکراس کر گئی ہیں!‘‘
تارڑ کو اپنے والد میں ملک خدابخش بُچّہ جیسے خواص ڈالنے پڑتے ہیں اور اُن سے بھی بڑا زرعی ماہر ثابت کرنا پڑتا ہے اور اُن کے سبزی، پھلوں، پھولوں کے حوالے سے ’’نظریۂ ضرورت‘‘ کے تحت لکھے ہوئے کتابچے سنگ میل پبلی کیشنز جیسے معتبر اشاعتی ادارے سے چھپوانے پڑتے ہیں جو خود سنگ میل کا اعتبار مونھ کے بل زمین پر گراتے ہیں۔ تارڑ کے کلاس فیلو ریٹائرڈ پروفیسر مظہر (حالیہ مقیم ٹاؤن شپ، لاہور) اُن کی تعلیمی کارکردگی کا اعتراف ان الفاظ میں کرتے ہیں: ’’تارڑ کو ناقص تعلیمی کارکردگی کے باعث مشن سکول، رنگ محل، لاہور نے کلنک کا ٹیکا سمجھتے ہوئے مسلم ماڈل سکول، اُردو بازار، لاہور کی راہ دکھائی، جہاں سے انہوں نے سیکنڈ ڈویژن میں میٹرک پاس کرکے پوری تارڑ قوم کی لاج رکھ لی۔‘‘ یہ تو بعد کی بات ہے کہ اس قوم سے رفیق تارڑ، میاں محمد شریف کو جملہ اقسام کے لطائف سنا سنا کر صدرِپاکستان منتخب ہوئے مگر جس انداز سے ایوانِ صدر سے رخصت ہوئے وہ بقول میر تقی میرؔ: ’’جیسے کوئی جہاں سے اُٹھتا ہے‘‘ والا معاملہ تھا۔ تارڑ قوم کی عزت، بے عزتی کا گراف کچھ ایسا ہی ہے۔ ہو ا موافق اور منافقانہ سی چل رہی ہو، تو پوہ بارہ اور بادِ مخالف میں یہ قدموں میں پڑے دکھائی دیتے ہیں۔
اب آپ تصور کریں اُس باپ کا جس کا بڑا بیٹا مستنصر حسین تارڑ میٹرک سے آگے بڑھ نہیں سکا (یاد رہے یہ پرانے وقتوں اور وَختوں کا میٹرک ہے، ورنہ نذیرناں جی جیسے مڈل پاس تارڑ سے بھی کہیں بڑھ کر کما رہے ہیں اور بہتر سماجی مرتبہ اور مقام رکھتے ہیں) آوارہ گرد ہے۔ نوکری کا مزاج نہیں رکھتا۔ بیجوں کی دکان یعنی روزی کے اڈے پر بیٹھ کر سرِعام افسانے لکھتا ہے۔ باپ کو کچھ کما کر دینے کی بجائے اُس کی کمائی چائے پلانے میں اُڑا دیتا ہے۔ کیوں کہ کوئی بھی راہ گیر یا اُس کا ادیب، شاعر دوست چائے کے بغیر اُس کا افسانہ سننے کا روادار نہیں۔ افسانے بھی پھُسپھسے، ’’بابا بگلوس‘‘ جیسے۔
کیا چوہدری رحمت خان تارڑ یہ سب کچھ خاموشی سے برداشت کرتا رہے گا؟
کیا منٹو کی وفات کے بعد افسانے کا ٹھنڈا گوشت کفن سمیت اُٹھ کھڑا ہوگا؟
کیا مستنصر حسین تارڑ مسلسل جھاڑیں کھانے سے بچنے کے لیے دھتورے کے بیج کھا کر سورہے گا؟
ان سوالوں کے جوابات پر اُردو ادب کے مستقبل کا دار و مدار تھا۔ تارڑ نے جب افسانے کے میدان میں اپنی 10 سالہ نابالغ محنت کی عزت لٹتے دیکھی، تو بیرون ملک راہِ فرار اختیار کی مگر وہ کسی ’’این آر اُو‘‘ کے تحت نہ گئے تھے نہ واپس ہی آئے۔ بیرونِ ملک جانے کے لیے انہوں نے علی نامی ایک کار ڈیلر کو بہ طورِ فنانسر پھانسا۔ علی کا تو تادمِ تحریر کوئی سفرنامہ منظرعام پر نہیں آیا، البتہ تارڑ کا سفرنامہ ’’نکلے تری تلاش میں‘‘ شائع ہوگیا۔ اس زمانے میں پاکستانی عوام کی بدیسی دنیا کے بارے میں معلومات نہ ہونے کے برابر تھیں۔ وہ تارڑ جیسے جھوٹے نبی پر ایمان لانے پر مجبور تھے۔ کیوں کہ اور کوئی آپشن تھی ہی نہیں۔ ’’نکلے تری تلاش میں‘‘ کو چار چاند مسلم دنیا کے عظیم ترین خطاط اور پینٹر صادقین کے سکیچز نے لگا دیے (یہ سکیچز سال 2012ء میں تارڑ نے گھریلو حالات اور مالی مشکلات سے تنگ آکر فروخت کردیے) پینٹر کی ایک تصویر رائٹر کے لکھے ہوئے سو صفحات پر بھاری ہوتی ہے اور مصور بھی صادقین جیسا ہو، تو سبحان اللہ!
اس کتاب کو لاہور کے مشہور کاتب محمدحسین شاہ کے بیٹے خالد سیف اللہ نے اپنے اشاعتی ادارے ’’التحریر‘‘،اردو بازار، لاہور سے بڑے اہتمام کے ساتھ پہلی بار شائع کیا۔ اسی ادارے نے پروین شاکر کو بھی اُن کے پہلے شعری مجموعے:’’خوشبو‘‘ کو شائع کرکے متعارف کروایاتھا۔
’’نکلے تری تلاش میں‘‘ ہٹ ہوگئی اور اَدب تارڑ کے لیے ذریعۂ روزگار بن گیا۔ یہاں تک تو معاملہ اَدبی ہی تھا بلکہ آرٹیسٹک بھی۔ تارڑ نے اپنے افسانوں کی 12 مصالحوں والی کوزی حلیم سفرنامے کے نام پر اَزسر نو پکائی جس طرح لیڈیز ٹیلر کو اکثر نک چڑھی خواتین کے سوٹ دوبارہ بخیے اُدھیڑ کر سینے پڑتے ہیں۔ یہ ویسا ہی انتقام تھا جیسا "Pablo Picasso” نے اپنی روایتی مصوری مسترد ہوجانے پر تجریدی مصوری کے نام پر لیا تھا۔ پکاسو نے تو یہ کام بڑے دبنگ انداز میں یہ بیان دے کر کیا: ’’اب میں ایسی تصویریں بناؤں گا جن کی لوگوں کو سمجھ بھی نہیں آئے گی اور وہ ان کی داد بھی دیں گے۔‘‘
پکاسو کا جنم اور پرورش سچے معاشرے میں ہوئی تھی۔ وہ ایسی بات کہنے کی جرأت رکھتا تھا۔ تارڑ کے پلے کیا تھا؟ تارڑ، منافق معاشرے کا نمائندہ تھا۔ کام اُس نے بھی پکاسو والا ہی کیا مگر اپنی کلرنگ کا اعتراف کیے بغیر۔ نقل ہر جگہ ایک سانتیجہ نہیں دیتی۔ پکاسو کی وجہ سے تو مصوری پر اجتہادی دروازے کھل گئے اور بہت سے مصوروں نے راہ پائی مگر تارڑ نے سفرنامے کا ایسا ستیاناس کیا کہ بہت سے لوگ تارڑ سے کہیں بڑھ کر اصلی سفر کرنے کے باوجود سفرنامہ لکھنے سے گریزاں رہے۔ کیوں کہ وہ ’’تارڑ‘‘ کہلوانا نہیں چاہتے تھے۔ ویسے بھی سفرنامہ، نعت کی طرح تنقید سے بالاتر ہے اور تنقید کے دائرے سے خارج چیز اَدب سے بھی باہر ہے۔ افسانے کا میدان چھوڑ کر بھاگنے کی ایک وجہ تارڑ کی وہ حرکت بھی تھی جو انہوں نے فرخندہ لودھی کا افسانہ: ’’خاتون دوم‘‘ اپنے نام اور عنوان سے پڑھ کر حلقہ اربابِ ذوق، لاہور میں کی تھی۔ فرخندہ لودھی، صابر لودھی کے ساتھ کی وجہ سے صابر خاتون تھیں، ورنہ ادیب برادری اُن کی آواز: ’’میں لُٹ گئی، برباد ہوگئی‘‘ پر لبیک کہنے کو تیار تھی اور تارڑ کے پتلے جلانے اور جوتے مارنے کا عمل ایک اشارے کی بات تھی۔
کمرشل تقاضے نباہتا ہوا ’’جوکالیاں‘‘ سے نکلا ہوا یہ نالہ، سنگ میل، سرکلر روڈ لاہور (حال:-25 لوئرمال، لاہور) جیسے اشاعتی ادارے میں جاگرا جو فلٹر شدہ پانی کو ’’منرل واٹر‘‘ کے نام سے مہنگا کر کے بیچنے کا ماہر تھا۔ سونے پر سہاگا ہوگیا۔ یونانی حسن کاغذوں سے نکل کر ’’پی ٹی وی‘‘ پر بھی گیا مگر B&W ہونے کے باعث اپنے حسن کا کسی کو گرویدہ نہ کرسکا۔
یہ پھول اپنی لطافت کی داد پا نہ سکا
کھِلا ضرور مگر کھل کے مسکرا نہ سکا
اور جب پی ٹی وی کو چار رنگ میسر ہوئے تو حضرتِ تارڑ کی جوانی رخصت ہوچکی تھی اور اُس وقت ’’چاچا جی‘‘ واحد آپشن تھی جو فرحت عباس شاہ کے ’’خبرناک‘‘ والے ’’ماسٹر جی‘‘ سے تو ہزار درجے بہتر تھی۔ کریلوں کے بیج گوالامنڈی میں فروخت کرتے کرتے تارڑ کی زندگی میں بھی کریلاپن در آیا۔ وہ بھی ’’جنرل ضیاع‘‘ کی طرح اپنے علاوہ کسی کو کچھ نہیں سمجھتے تھے۔ انہیں ہر بندے میں کیڑے ہی کیڑے نظر آتے تھے۔ بیج افسانہ نویسی کے باعث زیادہ عرصے تک فروخت نہ ہوں، تو انہیں کیڑا لگ جاتا ہے اور وہ پانی کے اوپر گندے انڈے کی طرح تیرنے لگتے ہیں مگر پینٹیم ڈیڑھ دماغ کے باعث خوش ہوتے ہیں کہ ہم سب کو نمایاں طور پر تیرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں اور صاف کھرا مال پانی کی تہہ میں جاکر نظروں سے اوجھل ہوگیا ہے۔ یہ خاصیت بھی انہوں نے اپنی دکان سے ہی پائی تھی۔
تارڑ نے اپنی شہرت کو کیش کروانے کی کوشش ایک بار اپنے گھر کے باہر کوڑے کے ڈھیر لگانے والے کچے پکے سرکاری ملازموں یعنی سینٹری ورکرز پر کی۔ نتیجہ……؟ تارڑ کے نام پر پرانا کوڑا تو وہاں سے کیا اُٹھتا، وہاں مستقل طور پر لوہے کا بڑا کوڑے دان لاکر رکھ دیا گیا جس پر لکھا تھا: ’’کوڑے کو آگ لگانا سخت منع ہے!‘‘ تارڑ جیسے ہی ایک خودپسند کا قصہ ہے کہ وہ شدید مالی مشکلات کا شکار ہوگیا۔ اُس کے ایک قریبی دوست نے جو اُس کے اچھے دنوں سے واقف تھا۔ اُس پر ترس کھاتے ہوئے اُسے اصلی نوٹ چھاپنے والی مشین، کاغذ، سیاہی اور ڈائیاں دیں، تاکہ وہ نوٹ چھاپ کر خود کو سیٹ کرلے اور خود ملک سے باہر چلا گیا۔ ایک روز وہ اخبار میں پاکستان کی خبریں پڑھ رہا تھا، تو اُس کی نظر ایک خبر پر پڑی جو اُس کے دوست کے حوالے سے تھی جو جعلی کرنسی کیس میں پکڑا گیا تھا۔ دوست نے سر پکڑ لیا کہ صدفی صد اصلی مشینری اور کاغذ کے باوجود اُس کا دوست آخر پکڑا کیسے گیا؟ جب وہ پاکستان آیا، تو اُس نے جیل میں دوست سے ملاقات کی اور پوچھا: ’’یہ سب کیا ہے؟ اور کیسے ہوا؟ سلاخوں کے پیچھے قید دوست نے سر جھکائے شرمندگی سے جواب دیا: ’’بس خودپسندی کے ہاتھوں مارا گیا۔ قائداعظم کی جگہ اپنی تصویر پرنٹ کردی تھی نوٹوں پر۔‘‘ یہی حرکت تارڑ نے بھی کی ’’بہاؤ‘‘ ناول پر اپنا نام دے کر۔ ’’بہاؤ‘‘ کی ساری تحقیق ملتان کے ابنِ حنیف صاحب کی تھی۔ ناول پر اس بات کا ذکر نہ کرکے تارڑ نے اپنے اصلی نوٹ کو جعلی نوٹ بنالیا۔
تارڑ کی خودپسندی کو ورلڈٹریڈ سنٹر جیسا جھٹکا اُس وقت لگا جب اُن کی بیٹی عینی (جو کنیئرڈ کالج، لاہور کی طالبہ تھی) نے آکر انہیں بتایا کہ موٹرسائیکل سوار لڑکے اُس کو چھیڑتے اور تنگ کرتے ہیں۔ مستنصرحسین تارڑ نے خودپسندی کی تاڑی پیتے ہوئے، بڑے دبنگ انداز میں غلام حسین ساجد کی طرح حلق سے آواز نکالتے ہوئے عینی بیٹی سے خطاب کیا: ’’پھر کبھی دوبارہ نظر آئیں، تو کہنا میں مستنصرحسین تارڑ کی بیٹی ہوں۔‘‘ عینی کا جواب تارڑ کا دل ہلا دینے والا تھا: ’’اسی وجہ سے تو تنگ کرتے ہیں۔‘‘ اُن کے اندر موجود ’’تارڑیت‘‘ کا جنازہ تو کئی بار نکل چکا ہے مگر یہ جنازگاہ سدا آباد رہتی ہے۔
اشفاق احمد کے نام سے تو لاہور میں ’’انڈرپاس‘‘ بن گیا مگر تارڑ کے نام کی ایک گلی تک نہیں بنی۔ تارڑ نے اداکارہ فردوس کے گھر جاکر کئی بار نک گھسنی کی کہ وہ ’’فردوس مارکیٹ‘‘ کا نام ’’تارڑ مارکیٹ‘‘ رکھ دے مگر فردوس کا ’’ہیررانجھا‘‘ والا نشہ اُترے، تو وہ ایسی باتوں پر غور کرے۔ اپنی اس محرومی کا اِزالہ تارڑ اپنی تحریروں میں یوں کرتے ہیں کہ K-2 کے پاس اتفاقیہ طور پر ایک جھیل وجود پاگئی جس کا نام وہاں کے لوگوں نے ’’تارڑ جھیل‘‘ رکھ دیا۔ ماڈل ٹاؤن پارک میں تارڑ اکثر و بیشتر کیٹ واک کرنے جاتے ہیں۔ وہاں اُس جگہ کا نام ’’تارڑ کارنر‘‘ رکھ دیا گیا جہاں یہ تھکن سے نڈھال ہوکر گر جاتے ہیں اور گھر واپسی سٹریچر پر قاضی جاوید اور شاہد علی خاں کے ہاتھوں ہوتی ہے۔
ہر بچے کو بچپن ہی سے ’’بڑا‘‘ بننے کا شوق ہوتا ہے۔ تارڑ کو بھی تھا مگر نہ تو اُن کے والد علامہ اقبال تھے نہ وہ خود جاوید اقبال ہی تھے جو انہیں گورنمنٹ کالج، لاہور (موجودہ G.C یونیورسٹی) میں داخلہ مل جاتا۔ اُن کا داخلہ گورنمنٹ کالج میں کچھ اس طرح ہوا کہ وہ مسلم ماڈل ہائی سکول کی دیوار ٹاپ کر پتنگ لوٹنے کی خاطر گورنمنٹ کالج میں داخل ہوئے اور پتنگ لوٹ کر ہنستے کھیلتے مین گیٹ سے باہر نکل گئے۔ بقلمِ خود یہ مشہور کردیا کہ وہ "Ravian” ہیں جب کہ وہ "Jokalian” تھے۔ مَیں نے تارڑ کے اس دعوے کی تصدیق کی غرض سے گورنمنٹ کالج ، لاہور (GCU) کے چپے چپے کو چھان مارا۔ وہاں کالج کے لیے باعثِ عزت بننے والے مشہور طالب علموں (بالخصوص رائٹرز) کے نام کی خوبصورت تختیاں جابجا لگی تھیں۔ کس کس کا نام لوں: فیض احمد فیضؔ، صوفی غلام مصطفی تبسمؔ، سَوندھی، مظفر علی سیّد، پطرس بخاری اور کنہیا لعل کپور جیسے کئی بڑے نام۔ تارڑ کے نام کی تختی تلاش کرتے کرتے میں واش روم تک گیا مگر اُن کے نام نامی کی تختی کہیں بھی نظر نہ آئی۔ تارڑ شہنشاہِ وقت تو تھے نہیں کہ جھوٹی تاریخ لکھ کر یا لکھوا کر تاریخ میں امر ہوجاتے۔ اُن کی اس دروغ بیانی کا بھانڈا فرخندہ لودھی کے شوہرِ نامدار صابر لودھی نے بیچ اُردو بازار ایسا پھوڑا کہ وہ تارڑ کے لیے پھوڑا بن گیا۔ ہر انسان اپنے بڑوں سے چھوٹا بن کر کچھ لیتا ہے اور بڑا بن کر کچھ دیتا ہے مگر تارڑ نے نہ بڑوں کو معاف کیا نہ چھوٹوں ہی کو بخشا۔ ملتان کے ابنِ حنیف اُن سے بڑے تھے ہر لحاظ سے۔ تارڑ نے اپنے ناول ’’بہاؤ‘‘ کی ساری ریسرچ اُن سے کئی سال تک مفت میں کروائی اور ناول پر صرف اپنا نام دیا۔ یہ تو تھا اپنے سے بڑے کے ساتھ حُسنِ سلوک۔ چوٹی زیریں، ڈیرہ غازی خان کا ڈاکٹر عباس برمانی اُن سے چھوٹا تھا۔ تارڑ نے اُس بیچارے کا بھی رگڑا نکال دیا۔ تارڑ نے ڈاکٹر عباس برمانی کے خرچے اور اپنے نخرے پر، کشتی میں دریائے سندھ کا سفر کیا۔ ڈاکٹر عباس برمانی کا سفرنامہ ’’میرا سندھو سائیں‘‘ سنگِ میل سے طبع ہوا۔ برمانی بیچارہ غلطی یہ کر بیٹھا کہ اپنی کتاب کا مسودہ فلیپ لکھنے کے لیے تارڑ کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ تارڑ نے جب تک اپنے ناول ’’قربتِ مرگ میں محبت‘‘ کا مواد ’’میرا سندھوسائیں‘‘ میں سے نکال نہیں لیا، برمانی کو فلیپ لکھ کر نہیں دیا۔ ’’قربتِ مرگ میں محبت‘‘ بھی سنگِ میل سے ’’میرا سندھو سائیں‘‘ سے کچھ عرصے بعد طبع ہوگیا۔
جہاں تارڑ کا ’’پنڈروہ ٹچ‘‘ پسند کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں، وہیں ’’پی ٹی وی‘‘ پروڈیوسر یعقوب ناسک جیسے باشعور قارئین بھی ہیں جو تارڑ کو ان الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں: ’’مَیں یورپی ممالک کے سیاحتی سفر پر تھا۔ ٹرین میں میرے ساتھ ایک حسین و جمیل کنواری دوشیزہ آبیٹھی۔ ٹرین کے ہلکوروں کی وجہ سے اُسے نیند آنے لگی اور وہ میرے شانے پر سر رکھ کر اُونگھنے لگی۔ ایک دوبار میں نے نظرانداز کیا لیکن پھر یہ کہنے پر مجبور ہوگیا: ’’بی بی! آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے، میرا نام مستنصر حسین تارڑ نہیں۔‘‘
تارڑ کو اپنی ذہانت نما کمینگی کی داد پانے کا بھی بڑا شوق ہے۔ انہوں نے پورے لاہور میں مشہور کیا کہ انہوں نے ’’پی ٹی وی‘‘ اسلام آباد سے صبح کی ’’چاچاجی‘‘ والی نشریات اُس پروگرام کے پروڈیوسر زیدی صاحب کو لاہور میں مرغ چھولے کی ایک پلیٹ کھلا کر حاصل کی تھی۔ اگر اسے لاہوری مرغ چھولے کی پلیٹ کا کرشمہ سمجھ لیا جائے، تو لاہور فلم انڈسری کا گڑھ تھا اور وہ یونانی حسن کے مالک بھی تھے۔ اُن کے لیے تو بڑا آسان تھا کہ اپنے حسن کا جلوہ دکھا کر کسی پروڈیوسر یا فلم ڈائریکٹر کو شراب کی بوتل (جو وہ خود اکیلے پیتے ہیں) پلا کر کسی فلم میں کام پکڑلیتے۔ ’’پی ٹی وی‘‘ بلیک اینڈ وائٹ تھا۔ پاکستانی فلمیں تو اس وقت رنگین بن رہی تھیں ناں۔ پاکستانی فلم انڈسٹری جو یونانی حسن کو ترسی ہوئی تھی یونانی حسن کے مجسّمے کو ہاتھوں ہاتھ لیتی۔ اس سلسلے میں فلمی صحافی طفیل اختر سے بات ہوئی، تو انہوں نے راقم کی طبیعت صاف کرتے ہوئے کہا: ’’عرفان صاحب فلم ایکسپریشن کا میڈیم ہے۔ تارڑ کے چہرے پر تو غلام اسحاق خان کی طرح ایکسپریشن نام کی کوئی چیز ہی نہیں۔ فلم انڈسٹری اس کاٹھ کے اُلو کا کیا کرتی؟ فلم انڈسٹری کا جو زوال سلطان راہی اور نورجہاں کے جانے سے ہوا، مستنصر حسین تارڑ کے فلم انڈسٹری میں در آنے کی صورت میں 70کی دہائی ہی میں ہوجاتا اور تارڑ تاحال مفرور ہوتا۔‘‘
اس خاکے کے توسط سے قارئین کو پہلی بار یہ بھی پتا چلے گا کہ مستنصر حسین تارڑ بہت اچھے شاعر بھی ہیں۔ نمونۂ کلام حاضر ہے:
ساحل کی ریت
مجھے میرا نام نہیں لکھنے دیتی
کیوں کہ میرا نام مستنصرحسین تارڑ ہے
اور سمندر میرے باپ کا نہیں
آپ پر لازم ہے کہ اس کلام کے احترام میں باادب کھڑے ہوجائیں۔ قبلہ رُو ہوکر کم از کم 3بار ’’واہ، واہ، واہ‘‘ کہیں اور پھر ’’ڈسپرین‘‘ کھا کر لمبی تان کر سوجائیں۔
ہر انسان خوبیوں، خامیوں اور خیروشر کا مجموعہ ہوتا ہے۔ تارڑ کی سب سے بڑی خوبی اُن کی وفاداری ہے اپنے اشاعتی ادارے سنگِ میل سے، ورنہ جب سنگِ میل کی عقب زنی طاہر اسلم گورا نے اپنے اشاعتی ادارے ’’گورا پبلشرز‘‘ سے کی، تو سوائے تارڑ کے سنگِ میل کے قریب قریب سبھی بڑے نام پیسے اور لنچ کے لالچ میں گورے کی طرف گورمے کی طرح ہجرت کرگئے۔ عطاء الحق قاسمی مونھ متھے کے حساب سے اس مہاجر ٹرین کا انجن تھے اور فرحت عباس شاہ، ڈاکٹر ابرار احمد اور حسن رضوی اس کی بوگیاں تھیں۔ گورا پبلشرز جب ’’گورا قبرستان‘‘ بنا، تو بہت سے ادیب و شاعر رُل گئے۔ اور تو اور مشہور شاعر ظفراقبال والدِ محترم آفتاب اقبال (خبرناک فیم) بھی گورا سے ’’ہے ہنومان‘‘ المعروف ’’بندرنامہ‘‘ شائع کروا کر ذلیل و خوار ہوجانے والوں میں شامل تھے۔ طاہر اسلم گورا نے مستنصر حسین تارڑ کو بھی فارورڈ بلاک کی قیادت کرنے کے لیے ’’بلینک چیک‘‘ پیش کیا تھا، مگر تارڑ نے یہ پیشکش ٹھکرا دی اور اپنا نام تاریخ میں بھٹو کی طرح زندہ رکھا، ورنہ وہ بھی آج ’’متاثرین گورا‘‘ کے طویل جلوس میں ننگے سر اور ننگے پیر شامل ہوتے۔ تارڑ کو یہ حقیقت بھی معلوم ہونی چاہیے کہ گورا پبلشرز کا ڈاؤن فال سنگِ میل ہی نے کروایا تھا اپنے جاسوس، عباس نجمی مرحوم اور اُن کے بھائی ندیم کو بیچ میں ڈال کر۔ یہ بھی ممکن ہے کہ تارڑ کو سنگِ میل میں بیٹھے بیٹھے محض سونگھ کر ہی پتا چل گیا ہو کہ گورا پبلشرز کے ’’ٹائٹینک‘‘ کو ڈبونے کے لیے گلیشیر جلد سامنے آنے والے ہیں۔ بہرحال جو بھی ہوا تارڑ کے سینے پر سنگِ میل سے وفاداری کا تمغا بدستور جگمگا رہا ہے اور فلورکراسنگ کرنے والے شاعر اور ادیب اشاعتی صحرا میں ہنوز بھٹک رہے ہیں۔
تارڑ نے اپنے بڑے بیٹے اور ولی عہد کا ایک بارعب، دبنگ اور جبرون قسم کا نام رکھنے کے چکر میں ’’سلجوق‘‘ رکھا۔ یہ نام میٹرک تک تو اپنی رننگ پوری کرگیا مگر ایف سی کالج میں جاکر یہ نام ’’مجلوق‘‘ کے نام سے شہرت پاگیا۔ صدرِشعبہ اُردو احمد عقیل روبی کی شرارتی طالب علموں کو ان نرم الفاظ میں ڈانٹ ڈپٹ بھی کچھ کام نہ آسکی: ’’یہ اپنے تارڑ کا بیٹا ہے اسے نہ ستایا کرو۔‘‘ انگلش کے پروفیسر محمود علی بتاتے ہیں کہ اس ڈانٹ ڈپٹ کا اُلٹا اثر ہوا اور تنگ کرنے نیز ستانے کی شرح مزید بڑھ گئی۔ ویسے بھی شرارتی طالب علم پیدا کرنے میں ایف سی کالج کا ریکارڈ ہمیشہ شان دار رہا۔ جنرل مشرف جیسا شرارتی جنرل ایف سی کالج ہی کی پیداوار تھا، کسی وارکالج کی نہیں۔ جیسی جیسی شرارتیں انہوں نے منگلا چھاؤنی اور بعد ازاں نوازشریف اور اُن کے خاندان کے ساتھ کیں وہ آج بھی خادم الحرمین شریفین کو منھ زبانی یاد ہیں۔ تارڑ کو اُڑتی چڑیا کے پر گننے پر تو کمال زندگی کے کسی بھی دور میں حاصل نہیں رہا، مگر وہ نہاتی بڑھیا کے ’’چینگ‘‘ ضرور گن لیتے ہیں کن اکھیوں سے۔ اشفاق کے گھر میں ریکارڈ کیے گئے ’’پی ٹی وی‘‘ کے پرانے میوزیکل پروگراموں میں اُن کی ٹھرکیانہ حرکات بخوبی دیکھی جاسکتی ہیں۔
جس طرح تارڑ کو اکثر و بیشتر اپنے نام کا حوالہ دینے پر منھ کی کھانی پڑتی ہے، ایسا ہی معاملہ شہنشاہِ غزل مہدی حسن کے ساتھ کراچی حیدرآباد سپرہائی وے پر پیش آیا۔ ڈاکوؤں نے مہدی حسن کی کار روک لی۔ کار سمیت سب کچھ لوٹ کر ہتھل کردیا۔ مہدی حسن کو گاڑی کی ڈکی میں سے مشروبِ مغرب کی بوتلیں تک اُٹھانے کی رعایت نہ دی۔ مہدی حسن نے ڈاکوؤں کے دل میں رحم ڈالنے کی غرض سے آخری امید کے طور پر اپنا تعارف کروایا: ’’میں پاکستان کا مشہور گلوکار مہدی حسن ہوں۔ بقولِ لتا میرے گلے میں بھگوان بولتے ہیں۔‘‘ ڈاکوؤں پر اس تعارف کا اُلٹا اثر ہوا: ’’اَڑے تمہارے گلے میں بھگوان بولتے ہیں، تو اَماڑے گلے میں الطاف بھائی بولتے ہیں۔‘‘ انہوں نے شہنشاہِ غزل جیسے سپرسٹار کو سپرہائی وے پر مرغا بنا دیا۔ اس معاملے میں کھیلوں کی دنیا میں پاکستان کی سب سے قابلِ فخر شخصیت جہانگیر خان نے عقل مندی اور ذہانت کا مظاہرہ کیا۔ انہیں لندن میں گورے ڈاکوؤں نے روکا اور لوٹا، تو انہوں نے نہ تو اپنا کوئی تعارف کروایا نہ ہی ویسی مزاحمت کی جیسی وہ اسکوائش کورٹ میں کرتے تھے۔ ڈاکوؤں کو جیب میں موجود سب کچھ دے کر آگئے۔ ڈاکٹر سلیم اختر، تارڑ کے بارے میں اپنے ہر ملاقاتی، بالخصوص مضافاتی کو ایک دلچسپ واقعہ اکثر سناتے ہیں۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب مارگریٹ تھیچر کی آٹوبائیوگرافی مارکیٹ میں نئی نئی آئی تھی۔ تارڑ نے کہیں ٹی وی پر مارگریٹ تھیچر کو آٹوگراف کے ساتھ کتاب کی سیکڑوں کاپیاں دیتے دیکھ لیا۔ سنگِ میل آکر نیازاحمد سے اس بات کا ذکر کیا کہ پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا؟ ہم بیک ورڈ کیوں ہیں؟ نیازاحمد نے تارڑ کی بات سے صدفی صد اتفاق کیا اور ایک دن سنگِ میل کے شوروم کے باہر اس مضمون کا بینر لہرا رہا تھا: ’’آج پاکستان کے مشہور سفرنامہ نگار مستنصر حسین تارڑ اپنی کتاب پرستاروں کو آٹوگراف کے ساتھ دیں گے۔‘‘ ڈاکٹر سلیم اختر بتاتے ہیں کہ مَیں،نیازاحمد، تارڑ اور انتظارحسین سنگ میل کے دفتر میں بیٹھے تارڑ کے پرستاروں کا انتظار صبح 10 سے دن ایک بجے تک کرتے رہے۔ وہ دن تارڑ کا دن نہیں تھا۔ ایک بھی پرستار اُس دن سنگ میل کے شوروم پر نہ پھٹکا۔ اس سے پہلے کہ پوری کابینہ بدمزہ ہوتی، تارڑ خود یہ کہتے ہوئے واک آؤٹ کرگئے: ’’یہ قوم اس قابل ہی نہیں کہ اسے مجھ جیسا رائٹر اپنی کتاب آٹوگراف کرکے دے۔‘‘
جس طرح عرب قوم نے اپنے اندر کا بدّو مرنے نہیں دیا، اسی طرح تارڑ نے بھی اپنے اندر کے پینڈو کو ٹھُڈے مار مار کر زندہ رکھا ہوا ہے۔ ایاز نے اپنے پرانے کپڑے ایک صندوق میں سنبھال رکھے تھے، غربت اور غلامی کے دور کی یاد تازہ رکھنے کے لیے۔ تارڑ نے سلور کی وہ ’’کلفی‘‘ سنبھال رکھی ہے جس میں وہ اپنا لنچ سکول لے کر جاتے تھے۔ اُن کا لنچ دیسی گھی کا پراٹھا تھا جو انہیں بہت پسند تھا۔ اسی وجہ سے سکول میں اُن کی چھیڑ ’’پرونٹھا‘‘ تھی۔ تارڑ اس بات پر واقعی فخر کرسکتے ہیں کہ انہوں نے دیسی خوراک کھائی ہے۔ گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے اور دنیابھر میں ہواخوری کی ہے۔ اسی وجہ سے عمر کی 80 بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ برگر، شوارمے اور پیپسی کے زور پر تو اب آپ 50 تک بھی چلے جائیں، تو بڑی بات ہے۔ کیوں کہ آج کل مکمل صحت مند انسان کو مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے کسی بیمار کو نہیں۔ ویسے تو تارڑ کے سامنے 92 سالہ انتظار حسین اور 88 سالہ مسعود اشعر جیسی قابل رشک صحت کی زندہ مثالیں موجود ہیں مگر اُن میں یونانیت مفقود ہے۔ اُن پر ہندوی اثرات بہت نمایاں ہیں صرف قشقہ کھینچنے کی کسر ہے۔
تارڑ کے فن پر بات کرنے کے لیے ہم نمکین نثری دیگ کا ایک چاول، ناول ’’راکھ‘‘ چکھتے ہیں اور دیگ کے سفرناموں والی کھرچن رہنے دیتے ہیں۔ دیگ اگر شاعری یعنی میٹھے کی ہو، تو اُس کی ’’گھروڑی‘‘ بھی مزے میں لاجواب ہوتی ہے۔ ’’راکھ‘‘ میں ریڈر کو تارڑ نے جتنا احمق سمجھا ہے، اتنا تو کسی فوجی ڈکٹیٹر نے عوام کو بھی نہیں سمجھا ہوگا۔ وہ لاہور کی یادیں تازہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’دریائے راوی کہیں پایاب ہے اور کہیں سینکڑوں میٹر گہرا ہوجاتا ہے۔‘‘ دریائے راوی کس مقام پر سیکڑوں میٹر گہرا ہے؟ وہ شرم کا مقام ہی ہوگا جس کی نشان دہی تارڑ جیسا پٹواری ہی کرسکتا ہے۔ ’’آج پھر سبزی والا سبزی کے ساتھ مفت میں ہرا دھنیا اور ادرک نہیں دے کر گیا تھا۔‘‘ یہ اصل میں قوم کو مفت میں ملنے والا ہرادھنیا بند کروانے کی سازش تھی جو تارڑ نے ادرک کی آڑ میں کی۔ لاہور کے اصل بائیوگرافر تو طارق اسماعیل ساگر ہیں جو اپنی آٹوبائیوگرافی: ’’مجھے کھاگئے‘‘ میں تارڑ سے بڑھ کر مفت سبزی کی بات ان الفاظ میں کرتے ہیں: ’’سبزی کے ساتھ مولیاں، پھونکاں والا پیاز، سبز مرچ، ہرا دھنیا، پودینہ مفت ملا کرتے تھے۔‘‘ اس لسٹ میں اگر ’’ادرک‘‘ بھی شامل ہوتا، تو ساگر، تارڑ پر نمبر لے جاتے مگر ساگر، سچ اور جھوٹ کا فرق سمجھتے ہیں۔ ادرک کو ’’فری لسٹ‘‘ میں ڈالنے سے بڑی اور کیا سازش ہوسکتی ہے قوم کے ساتھ؟ تارڑ نے شیر اور بکری کو ایک گھاٹ پر پانی پلانے والی مثال اپنے ناول میں ایسے قائم کی کہ ایک کمرے میں کتے اور بلیاں اکٹھے کردیں جن میں ایک حاملہ بلی بھی تھی۔ اتنی زیادہ لاعلمی ایک سفرنامہ نگار تو ایفورڈ کرسکتا ہے، ناول نگار نہیں۔ تارڑ دوسروں کے پلے سے کھانا حلال اور اپنے پلے سے حرام سمجھتے ہیں۔ یہی معاملہ اُن کی سالگرہ کے ساتھ ہے جو اکثر ’’سالن گرہ‘‘ بن جاتی ہے۔ تارڑ کی ایک سالگرہ پر راقم کو یہ اچھوتا خیال آیا کہ یہ سالگرہ سنگِ میل کے شوروم پر ہونی چاہیے جن کو تارڑ نے کروڑپتی بنادیا۔ مارچ کی یکم تاریخ ہو، تو آدمی کا دل خواہ مخواہ آؤٹنگ کو چاہتا ہے۔ تارڑ کی سالگرہ کا ایس ایم ایس جو میرے موبائل سے ’’آن ائیر‘‘ ہوا تھا، اُن کی موت کی خبر کی طرح شہربھر کے ادیبوں میں پھیل گیا۔ سالگرہ کا کیک شام 7 بجے سنگِ میل کے شوروم پر کٹنا تھا جس کے بعد شان دار ڈنر کا بھی اہتمام تھا۔
ایس ایم ایس کی ٹائمنگ بڑی شان دار تھی۔ امجد طفیل جن کے بغیر لاہور کی کوئی اَدبی تقریب مکمل نہیں ہوتی، اس سالگرہ کو بھی فائنل ٹچ دینے اپنے سینے اور کمر کے درمیان واٹرکولر باندھے وہاں پہنچ گئے۔ افتخار مجاز، اعجاز احمد فکرال، شیما مجید اور کئی دوسرے ’’ویہلے‘‘ بھی وہاں پہنچ گئے۔ وہاں کسی سالگرہ کے دوردور تک آثار نہ پاتے ہوئے، ان خواتین و حضرات نے مشترکہ صدا لگائی: ’’تارڑ کے نام پر کچھ دو نیازبابا!‘‘ سنگِ میل والوں نے اس مبارک دن جس سنگ دلی، کاروباری ذہنیت اور سفاکی کا مظاہرہ کیا اُس نے مظاہرین کی چیخیں نکلوادیں۔ سنگ میل والے وقت سے پہلے ہی اپنا شوروم بند کرکے بھاگ گئے۔ کیوں کہ مزیدادیب ابھی آرہے تھے۔ مُجّان تارڑ کا یہ اجتماع سنگِ میل کے ساتھ واقع ’’شیزان بیکری‘‘ سے حسبِ توفیق اپنے پلے سے کھا کر پُرامن طور پر منتشر اور رخصت ہوا۔ البتہ اعجاز احمد فکرال جیسے جذباتی اور جوشیلے نے سنگِ میل کے بند شٹر کو ٹھُڈے مارے۔
کچھ شاعر اورادیب اَدبی تقریبات کو رونق بخشنے کے لیے ’’ذوالجناح‘‘ کی طرح لائے جاتے ہیں مگر کچھ بدقسمت ایسے بھی ہوتے ہیں جو ’’آ تارڑ، مجھے مار!‘‘ والا کام کر بیٹھتے ہیں۔ ایک دردناک مثال سادہ لوح ڈاکٹر وحیداحمد ہیں جو تارڑ کو ’’ٹی اے ڈی اے‘‘ کے ساتھ فیصل آباد میں اپنے ناول: ’’زینو‘‘ کے فنکشن میں بلانے کی غلطی کر بیٹھے اور تارڑ شراب کے راشن پر پلے ہوئے ہسپانوی بیل کی طرح تقریب میں صاحبِ کتاب کو ہی اپنے اَدبی سینگوں پر اُٹھا اُٹھا کر پٹخنے لگے اور پیچھے سے دُم بھی کھڑی کرلی۔ تقریب میں ’’گوتارڑگو‘‘ کے نعرے انجم سلیمی گروپ نے اس وقت لگائے جب تارڑ نے یہ تیزابی جملے کہے: ’’ڈاکٹر وحیداحمد نے ناول: ’’زینو‘‘ دوسال کی مدت میں لکھا ہے اس ناول کی عمر 2سال ہی ہوگی۔‘‘ تارڑ بھی بندہ دیکھ کر ہی سینگ مارتے ہیں۔ ڈاکٹر وحیداحمد کلین شیو، شریف النفس، ٹھنڈے ٹھار شہتوت جلیبے قسم کے انسان ہیں۔ اُن کی جگہ کرنل محمد خان بیٹھے ہوتے یا بریگیڈیر شفیق الرحمان کی کتاب ہوتی، تو تارڑ سیلوٹ مار کر اپنی تقریر شروع کرتے اور ڈنڈوٹ کرتے کرتے اُن کی واپسی ہوتی۔ تارڑ کو ناول: ’’زینو‘‘ پر اصل مروڑ اس وجہ سے اُٹھا تھا کہ وہ یونانی پس منظر میں تھا اور وہ ’’یونانی، یونانی‘‘ سے ہونے کے باوجود یونان پر کچھ نہیں لکھ سکے تھے اور ڈاکٹر وحیداحمد یونان کے حوالے سے اُن پر بازی لے گئے تھے۔ ڈاکٹر وحیداحمد کی سادگی کو ظاہر کرنے کے لیے اتنا بتا دینا ہی کافی ہے کہ ایک بار 14اگست کو سرکاری اعزازات کا اعلان ہوا ۔اُن میں ایک نام ’’وحیداحمد‘‘ بھی تھا جو کوئی اور صاحب تھے۔ ڈاکٹر وحید احمد نے اُسے اپنا نام تصور کرتے ہوئے کئی دوستوں کو مٹھائی بھی کھلادی اور فون بھی کھڑکا دیے۔ پھر کہیں جاکر انہیں پتا چلا کہ نام کی مماثلت نے یہ گل کھلایا ہے۔
اچھی تخلیق کسی کی میراث نہیں ہوتی، عطیۂ خداوندی ہوتی ہے۔ خدا کسی کو بھی کسی وقت نواز سکتا ہے۔ مثال کے طور پر شہزاد نیئرؔ نے سیاچن کے حوالے سے جو طویل نظم لکھی ہے وہ تجربے کی سطح پر (تخلیقی سطح پر نہیں) مرزا غالبؔ کے حصے میں بھی نہ آسکی۔ مرزا غالب تو دِلّی سے کلکتے تک گرتے پڑتے ہوئے گئے تھے اور مرتے مرتے لوٹے تھے جب کہ میجر شہزاد نیئر ایک فوجی ہونے کے ناتے اپنی جان کا 100 فی صد رسک لے کر سیاچن گیا تھا اور وہ منفرد اور انوکھا تجربہ لے کر لوٹا تھا جس کا مرزا غالبؔ تصور بھی باندھتے، تو ڈبل نمونیے سے کم پر بریک نہ لگاتے۔ ادب کوئی فلمی دنیا نہیں جہاں ’’نمبرون‘‘ کی کوئی دوڑ لگی ہے۔ ادب ساگر میں شعرو نثر کے ندی نالے گرتے ہی رہتے ہیں۔ کسی کا حصہ کم کسی کا زیادہ ہے۔ بس اتنی سی بات ہے۔ شعروشاعری میں تو اُستادی، شاگردی چلتی رہتی ہے۔ کئی مثالیں موجود ہیں مگر نثر میں اُستاد، شاگرد والا معاملہ کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ تارڑ خود بھی ’’بے استادے‘‘ تھے نہ خود کوئی شاگرد تیار ہی کیا، اُلٹا تارڑیت کا مظاہرہ یہ کیا کہ اپنے ’’سی ایس پی‘‘ بیٹے سمیر تارڑ سے اپنی کتابوں کے ٹائٹل بھی بنوائے۔ سنگ ِمیل سے اُن کے پیسے بھی کھرے کیے اور اس سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر سمیر تارڑ ’’مستنصرحسین تارڑ‘‘ کے قلمی نام سے روزنامہ ’’ڈان‘‘ میں انگلش کالم بھی لکھتا ہے۔ یہ اعزاز عطاء الحق قاسمی کے بیٹے یاسرپیرزادہ کو ہی حاصل ہے کہ سرکاری ملازم ہوتے ہوئے بھی سرکاری رہائش گاہ میں بیٹھ کر، ذرا ہٹ کے فرینڈلی اپوزیشن کا کردار پوری مہارت کے ساتھ ادا کرتا ہے اور دفتر میں آنے والے کسی بھی سائل کی جیب خالی کرکے بھیجتا ہے۔ باپ، دادا کا ذریعۂ آمدن ’’چندہ‘‘ تھا، اگر تیسری نسل کا ذریعۂ معاش یہ کچھ ہوگیا، تو کون سی قیامت آگئی۔ ’’پی ٹی وی‘‘ پر کسی زمانے میں عمران پیرزادہ کا ایک ’’پپٹ شو‘‘ چلتا تھا، جس میں ایک مگرمچھنی، مگرمچھ کو ’’مسٹر ہینڈسم‘‘ کہہ کر پکارتی ہے اور چلی جاتی ہے۔ مسٹرہینڈسم یعنی مگرمچھ کو مگر مچھنی کا ہینڈسم کہہ کر بلانا اس قدر لبھاتا ہے کہ وہ آئینے کے سامنے جاکر کھڑا ہوجاتا ہے اور آئینے سے کہتا ہے: ’’بول آئینے بول مجھے بتا۔ نیز سمجھا، کیا مَیں واقعی خوبصورت ہوں؟‘‘ مگر مچھ، عمران پیرزادہ کی آواز میں یہ سوال آئینے سے بار بار کرتا ہے۔ آئینہ مگرمچھ کو جواب ٹوٹ جانے کی صورت میں دیتا ہے۔ تارڑ کو بھی آئینہ یہی جواب بارہا دے چکا ہے لیکن تارڑ کا سوال بدستور جاری ہے، آئینے بدل بدل کر بجائے اپنی کاسمیٹک سرجری کروانے کے۔
………………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
