قدرت کی ستم ظریفیوں میں سے ایک یہ ہے کہ یہ ملک جو جغرافیائی لحاظ سے بھی عجوبہ روزگار ہے، اس کا چپہ چپہ دیکھنے کی مہلت اور استطاعت ایسے لوگوں کو ملی ہے، جو حسنِ قدرت کی نیرنگیوں سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت سے محروم ہیں، جو آنکھیں رکھنے کے باوجود دیکھنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔
جنوب میں کراچی کے پہلو میں آباد مواج سمندر جس کے پانیوں میں کئی سانس لیتی دنیائیں حسنِ نظر کی طالب ہیں، اس خطۂ ارضی کا ایک کنارہ ہے اور شمال میں آسمان کی بلندیوں پر طعنہ زن اونچے پہاڑ اس کا دوسرا سرا ہیں، جو حوصلہ مند نظربازوں کے لیے صدیوں سے چشم براہ ہیں۔ ان دونوں کے بیچ لمحہ لمحہ بدلتے موسم ہیں۔ جابجا رنگوں کی نئی صف بندیاں ہیں۔ قسما قسم فصلوں نے خزانوں کے منھ کھول دیے ہیں۔ خشک و تر پھلوں کے اپنے اپنے علاقے ہیں۔ درختوں کے نت نئے قبائل کی بے شمار آبادیاں ہیں۔ پرندوں کی اَن گنت اقسام ہیں، جو لا محدود فضائیں ٹاپنے کے دلچسپ کام پر مامور ہیں۔ پھولوں نے پورے پورے قصبے اپنے نام الاٹ کرالیے ہیں۔ تتلیاں گرہ در گرہ مختلف وادیوں کو اپنے اپنے انداز سے سجانے میں لگی ہوئی ہیں۔ کئی دریا ہیں جو لوک موسیقی و رقص کو مقبولِ عام بنانے کی سرتوڑ کوششیں کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
قدرتی مناظر کے اس اَنمول خزانے کو لوٹنے کا سب سے زیادہ موقع ان لوگوں کو ملتا ہے، جو پیشہ ور سیلانی ہیں۔ جن کی روٹی سفر سے بندھی ہوئی ہے۔ اگر مسلسل چلتی ہوئی وہ گاڑی رک جائے، جسے چلتا رکھنے کے لیے انہیں باقاعدہ تنخواہ ملتی ہے، تو نامعلوم کھیتوں اور کھلیانوں سے چل کر ان کے دسترخوانوں تک آنے والی روٹی کو بریک لگ جائے۔ اور ان کے خاندان اور وہ خود بھوک کے ظالم جبڑوں کے آگے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہوجائیں۔ اس لیے وہ گاڑی کے گھومتے ہوئے پہیوں کو رکنے نہیں دیتے۔ گاڑی چلتی رہتی ہے۔ اسٹیئرنگ کے پیچھے بیٹھے ہوئے یہ بے شمار لوگ جو ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک بھاگ لیتے ہیں۔ مناظر آتے ہیں۔ چلے جاتے ہیں۔ ڈرائیور اپنے سامنے تارکول کا سیاہ چمک دار لباس پہنے راستے پر نظریں گاڑے رکھتا ہے۔ سڑک کے اطراف پھیلی ہوئی بہاریں اس کی توجہ اپنی طرف کھینچنے میں ناکام رہتی ہیں۔ پھول کھلے ہیں۔ کھلتے ہیں۔ چاندنی نے ہر طرف اپنی جادوئی بانہیں پھیلا دی ہیں، اونہہ! دھوپ ہے یا سونا بکھرا ہوا ہے۔ بکواس۔ بارش بوند بوند نغمات بکھیر رہی ہے۔
گنگناتی ہوئی آئی ہیں فلک سے بوندیں
کوئی بدلی ترے پازیب سے ٹکرائی ہے
کیا مصیبت ہے۔ گاڑی سلپ ہوجائے گی۔ انجن بند ہوسکتا ہے۔ کیچڑ میں ٹائر فری ہوکر گھومتے رہیں گے۔ گاڑی آگے ایک قدم نہیں لے گی۔ حسنِ فطرت اس کے لیے چائے کے اس گرم کپ سے بھی کم قیمت ہے، جو کسی ویرانے میں بنے ہوئے ہوٹل کا چاق و چوبند ویٹر لاکر اس کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ اس کپ سے اٹھتی ہوئی بھاپ کی لکیر اس کے بدن کا گھیراؤ کرنے والی بہت سی تھکن کو اپنے ساتھ اڑالے جاتی ہے۔ اسے آرام چاہیے۔ بان کی بچھی ہوئی چوکور چارپائی، بڑے بڑے قطعات پر ہر طرف کھلے ہوئے پھولوں کے قہقہوں سے کہیں زیادہ اسے فرحت کے سامان فراہم کرسکتی ہے۔ اسے گرم گرم روٹی چاہیے، تاکہ اس کے بدن کی بجھی ہوئی توانائی کے اَدھ جلے دِیے اچھی طرح جگمگا اُٹھیں۔ اس بھاری بھر کم گاڑی کو اچھی طرح قابو میں رکھنے کے لیے اس کے پھٹوں میں طاقت ہونی چاہیے۔ ہر طرف پھیلی ہوئی سندرتا اسے کیا دے گی؟
سڑکوں پر ٹرک دوڑے چلے جا رہے ہیں۔ کراچی سے گلگت تک۔ بسوں کی قِطاریں چلی جا رہی ہیں۔ ٹینکروں کے قافلے ہیں جو آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان گاڑیوں کے چلانے والے لوگوں کے پاس سب سے زیادہ موقع ہے، اس ملک کی جنت نظیر وادیوں سے لطف اندوز ہونے کا۔ لیکن انہیں فرصت ہے نہ ہمت ہے، اور نہ ضرورت۔ شاید ان کا حسِ جمال سویا ہوا ہے۔ انہیں اس کی پرواہی نہیں۔ یہ سارے لوگ زبانِ حال سے ببانگِ دہل کہہ رہے ہیں، جمالیات ومالیات کو گولی مارو۔ یہ ساری شاعرانہ افسانہ طرازی بے کار لوگوں کی چُہلیں ہیں۔ جنہیں آسانی سے روٹی مل جاتی ہے، تو انہیں یہ لغو باتیں سوجھتی ہیں۔ ہمیں اس ملک کی مشینری کو چلتا رکھنا ہے۔ اگر ہم ہمہ وقت مکمل طور پر نہ جاگ رہے ہوں، تو ٹرک اُلٹ سکتے ہیں۔ بسیں ٹکرا سکتی ہیں۔ ٹینکروں میں آگ لگ سکتی ہے۔ اس لیے مہربانی کرکے ہمیں بے کار کی باتوں میں نہ الجھاؤ۔ ورنہ سب نقصان اٹھائیں گے۔ تمہیں شاعری کرنی ہے، تو کرو۔ لیکن بابا، ہمیں تو کام کرنے دو۔ کام اور صرف کام۔

……………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔