تحریر: عثمان علی

ناقص و غیرمعیاری اور مضرِ صحت پاپڑ کے نقصانات سے لوگ بے خبر ہیں۔ ضلع سوات کے شہر مینگورہ کے ہر محلے، گلی اور کوچے میں غیر معیاری اور ناقص پاپڑ بنانے والی فیکٹریاں موجود ہیں۔ یہ پاپڑ ملاکنڈ ڈویژن کے شہری اور پہاڑی علاقوں کے چھوٹے بڑے دکان داروں کو روزانہ کی بنیاد پر وافر مقدار میں سپلائی ہو رہا ہے۔ مَیں اس غیر معیاری اور ناقص پاپڑ پر ایک عدد کالم پہلے بھی لکھ چکا ہوں، لیکن اب تھوڑی سی تفصیل کے ساتھ بحث کرنا چاہوں گا۔
قارئین، خیبرپختونخوا میں غیر معیاری، ناقص اور مضر صحت خوراکی اشیا کی روک تھام کے لیے باقاعدہ طور پر ’’حلال فوڈ اتھارٹی‘‘ کے نام سے ایک محکمہ موجود ہے۔ وہ غیر معیاری، ناقص اور مضرِ صحت خوارکی اشیا بنانے والی فیکٹریوں، ہوٹلوں اور دوکانوں پر چھاپے بھی مار رہا ہے اور بھاری جرمانے لگانے کے ساتھ ساتھ آئندہ کے لیے صفائی کا خاص خیال رکھنے کی بھی ہدایات جاری کرتا رہتا ہے۔ جہاں تک مجھے علم ہے، آج تک مذکورہ محکمہ نے اس غیر معیاری پاپڑ کے خلاف کوئی مؤثر اقدام نہیں کیا ہے۔
برسبیل تذکرہ، چند مہینے پہلے منگلور کے مضافاتی علاقے ’’قلعہ اور بیش بنڑ‘‘ میں غیر معیاری پاپڑ بیچنے والے چھے سات غریب دکان داروں پر تھانہ منگلور کے پولیس اہلکاروں نے ایف آئی آر کاٹی گئی۔بعد میں انہیں ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر بابوزئی کی عدالت میں پیش کر کے پانچ پانچ ہزار روپے جرمانہ کیاگیا۔ اس کا ر روائی کے بعد آج تک نہ تھانہ منگلور کے پولیس اہلکاروں اور نہ ’’محکمہ حلال فوڈ‘‘ نے ناقص اور غیر معیاری پاپڑ بیچنے والوں کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی کی ہے۔ کیا وہ چھے سات دکان دار یہ پاپڑ تیار کرتے ہیں؟
قارئین، غیر معیاری اور مضرِ صحت پاپڑ تیار کرنے کے سیکڑوں کارخانے ملاکنڈ ڈویژن میں کام کر رہے ہیں۔ ہزارہ، پشاور اور مردان ڈویژن کے علاوہ سارے پنجاب میں آپ کو کہیں بھی غیر معیاری اور ناقص پاپڑنہیں ملے گا۔ پتا نہیں کہ ملا کنڈ ڈویژن کے غیور، جفاکش اور صحت مند پشتونوں کی موجودہ اور آنے والی نسلوں کے ساتھ یہ خطرناک کھیل کیوں کھیلا جا رہا ہے؟
قارئین، جتنا مَیں سمجھتا ہوں، یہ سب کچھ ایک پلا ننگ کے تحت ہو ر ہاہے۔ شائد آپ کو پتا نہ ہو کہ غیر معیاری اور ناقص پاپڑہمارے پھول جیسے بچوں کی صحت پر کتنے خراب اثرات مرتب کرتا ہے۔ مذکورہ غیر معیاری اور ناقص پاپڑ میں غیر معیاری اور غیر ضروری مقدار میں گھی، مصالحہ جات اور نمک شامل ہوتاہے، جو بچوں میں معدے کے امراض کا سبب بنتا ہے۔ غیر معیاری اور ناقص تیل یا گھی کا استعمال بچوں میں گلے اورپیٹ کے امراض اور نشونما میں کمی کا باعث بنتا ہے۔ یہ غیر معیاری اور ناقص پاپڑ کھا نے والے بچے ہمیشہ کھانا کھانے سے انکار کرتے ہیں۔ کھانا نہ کھانے کی وجہ سے ان کی ذہنی اور جسمانی نشو و نما نہیں ہوپاتی۔ پاپڑ کھانے والے بچوں کو بھوک نہ لگنے، خون کی کمی ہونے، رنگ زرد پڑنے اور کمزوری محسوس کرنے کی شکایت ہوتی ہے۔ خون کی کمی کی بیماری کو ’’انیمیا‘‘ کہتے ہیں۔ یہ ایک بہت خطر ناک بیماری ہے۔ اس کے علاوہ منھ کا السر ( منہ کا پک جانا) بھی ذکر شدہ غیر معیاری پاپڑ کی وجہ سے ہوتا ہے۔
قارئین، میرے خیال میں غیر معیاری اور ناقص پاپڑ ہمارے پھول جیسے بچوں کے لیے افیون، چرس اور ہیروئن سے بھی زیادہ خطر ناک شے ہے۔
اس کے حوالہ سے آگاہی مہم کچھ یوں چلائی جاسکتی ہے کہ محکمۂ حلال فوڈ اتھارٹی ڈویژن کی سظح پر ایک کانفرنس کا انعقاد کرے، اس میں علمائے کرام، ڈاکٹر حضرات اور ناقص پاپڑ بنانے والے فیکٹریوں کے مالکان کو مدعو کیا جائے۔ علمائے کرام اسلامی نقطۂ نظر سے غیر معیاری خوراکی اشیا پر قرآن و سنت کی روشنی میں بحث کریں۔ ڈاکٹرز اس کی وجہ سے بچوں کی صحت پر پڑنے والے خراب اثرات کو تفصیلاً بیان کریں۔ یوں ناقص پاپڑ بنانے والی فیکٹریوں کے مالکان کو اندازہ ہوجائے گا کہ یہ غیر معیاری اور ناقص پاپڑ بچوں کی صحت کے لیے کتنی خطرناک شے ہے۔
حکومت کے لیے یہ فیکٹریاں بند کرنا مشکل نہیں، لیکن اس موقع پر ووٹ بینک آڑے آتا ہے۔ اس مہم کو سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر بھر پور اندازمیں چلایا جاسکتا ہے۔
مَیں امیدکرتا ہوں کہ اس حوالہ سے ان شاء اللہ عوام بھی تعاون کے لیے تیار ہوں گے۔

………………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔