پی ٹی آئی نے صوبہ خیبر پختونخوا میں عنانِ اقتدار سنبھالتے ہی محکمہ تعلیم اور محکمہ صحت میں انقلابی تبدیلی لانے کے لئے کمر کس لی۔ محکمہ تعلیم نے دو ہزار چودہ سے دو ہزار سترہ تک چالیس ہزار اساتذہ نجی امتحانی ادارے این ٹی ایس (نیشنل ٹیسٹنگ سروس) کے ذریعے بھرتی کئے۔ ان اساتذہ کا ایڈہاک پالیسی کے تحت تقرر ہوا اور ان کی ملازمت کا دورانیہ ایک سال رکھا گیا۔ ہر ایک سال بعد مدتِ ملازمت میں توسیع مل رہی ہے۔ اگر ان اساتذہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع نہ کی گئی، تو یہ ملازمت سے فارغ تصور ہوں گے۔
انتیس نومبر دو ہزار سترہ کو این ٹی ایس اساتذہ کی نمائندہ تنظیم آل این ٹی ایس ٹیچرز ایسوسی ایشن (انٹسٹا) نے بنی گالہ میں عمران خان کی رہائش گاہ پر دھرنے کا اعلان کیا۔ یہ دھرنا دو مطالبات کیلئے تھا۔ پہلا مطالبہ ایڈہاک پالیسی کو ختم کرکے مذکورہ اساتذہ کو مستقل کرنے اور دوسرا سکول بیسڈ پالیسی کے خاتمہ کے لئے تھا۔ دھرنے سے ایک دن پہلے صوبائی وزیر تعلیم عاطف خان کی طرف سے ایک اخباری بیان جاری کیا گیا کہ این ٹی ایس اساتذہ کا نمائندہ وفد وزیر تعلیم سے مل چکا ہے اور دھرنے کو ملتوی کرنے کا اعلان کیا گیا ہے، لیکن این ٹی ایس اساتذہ کی تنظیم کی طرف سے اس بیان کی تردید کی گئی اور دھرنا دینے کا اصولی فیصلہ برقرار رکھا گیا۔ دھرنے میں تقریباًـ پانچ ہزار اساتذہ نے شرکت کی اور یہ تعداد زیادہ بھی ہوسکتی تھی، اگر وزیر تعلیم کی طرف سے بیان جاری نہ کیا جاتا۔ ان اساتذہ کو چار سالوں سے صوبائی حکومت مستقلی کی یقین دہانی کراتی رہی ہے، لیکن تاحال ایسا کچھ نہیں کیا گیا ہے۔ ان میں زیادہ تعداد ایسے اساتذہ کی ہے جو اس وقت پینتیس سال کی عمر کی حد پار کر چکے ہیں۔ اب اگر ان کو مستقل نہیں کیا جاتا، تو انہیں دوبارہ نوکری ملنا مشکل ہے۔ دوسری اہم وجہ ان اساتذہ میں بے اطمینانی کی کیفیت ہے۔اگر کسی دوسرے محکمہ میں نوکری ملنے کی امید انہیں نظر آتی ہے، تو یہ درس و تدریس کو پہلی فرصت میں چھوڑنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ ایسا ہوا بھی ہے۔ کئی اساتذہ کو دوسرے محکموں میں نوکری مل چکی ہے اوروہ پیشۂ معلمی کو خیر باد کہہ چکے ہیں۔ اکثر اساتذہ کو سال کے وسط میں دوسری نوکری مل جاتی ہے۔ اس طرح باقی ماندہ سال ان کی جگہ دوسرے استاد کی تعیناتی نہیں ہوتی، جس سے طلبہ کا قیمتی وقت ضائع ہوجاتا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ بطورِ مدرس ان اساتذہ کو اپنا مستقبل مستحکم نظر نہیں آتا۔

محکمہ تعلیم نے دو ہزار چودہ سے دو ہزار سترہ تک چالیس ہزار اساتذہ نجی امتحانی ادارے این ٹی ایس (نیشنل ٹیسٹنگ سروس) کے ذریعے بھرتی کئے۔ ان اساتذہ کا ایڈہاک پالیسی کے تحت تقرر ہوا اور ان کی ملازمت کا دورانیہ ایک سال رکھا گیا۔ ہر ایک سال بعد مدتِ ملازمت میں توسیع مل رہی ہے۔ اگر ان اساتذہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع نہ کی گئی، تو یہ ملازمت سے فارغ تصور ہوں گے۔

بیشتر این ٹی ایس اساتذہ کی تعلیمی قابلیت اعلیٰ معیار کی ہے۔ زیادہ تر ایم فل ہیں۔ وہ اپنے متعلقہ شعبہ میں نوکری نہ ملنے کی وجہ سے محکمہ تعلیم میں بطور استاد نوکری پر مجبور ہیں۔ بہت کم تعداد اپنے شوق سے تدریسی نظام کا حصہ ہیں۔ اس کی اہم وجہ غیر مستقلی اور غیر اطمینانی ہی ہے۔ حکومت وقت ان اساتذہ کومستقل کرنے سے اس وجہ سے کترا رہی تھی کہ ان کی پہلی پالیسی سکولوں کی نجکاری تھی، کالجوں اور سکولوں کے مشترکہ احتجاجوں سے نجکاری پالیسی ختم ہوئی۔ اگر نجکاری کی پالیسی جنم نہ لیتی، تو ان اساتذہ کو ہر سالانہ بجٹ میں مستقل کیا جاتا، مگر ایسا نہیں ہوا۔ اب اگر ان تمام اساتذہ کو ایک ساتھ مستقل کیا جاتا ہے، تو یہ صوبائی خزانہ پر بڑا بوجھ ہوگا۔ ایک طرح سے ان اساتذہ کی مستقلی حکومت کیلئے کسی بھی بڑے چیلنج سے کم نہیں ہے۔ اگر ان اساتذہ کو وقت پر مستقل کیا جاتا، تو اب یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی۔
دھرنے میں شامل اساتذہ کا دوسرا مطالبہ سکول بیسڈ پالیسی کا خاتمہ تھا۔ سکول بیسڈ پالیسی میں جس استاد کی جس سکول میں تعیناتی ہوتی ہے، اسی سکول پر وہ ریٹائر بھی ہوگا۔ این ٹی ایس کے ذریعہ جب ٹیسٹ لیا جاتا ہے، تو امیدوار کو پورے ضلع میں صرف ایک یا پانچ سکولوں میں خالی آسامیوں کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ اسی ایک یا پانچ سکولوں میں امیدوار کا ٹیسٹ پاس کرنے کی صورت میں میرٹ بنتا ہے۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے، تو ایک امیدوار کا پورے ضلع کی خالی آسامیوں پر حق ہوتا ہے لیکن اسے صرف ایک یا پانچ سکولوں تک محدود رکھا جاتا ہے۔ اس طریقۂ کار میں امیدوار کو کسی سکول میں زیادہ یا کم میرٹ کا پتا نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے زیادہ امیدوار مجبوراً دور دراز دیہاتوں میں خالی آسامیوں والے سکولوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ ان میں شامل خواتین استانیوں کو زیادہ نقصان اور مشکل کا سامنا ہے۔ دور دراز علاقوں میں نوکری کرنا ان کے لئے بے حد مشکل ہوتا ہے۔ اس پالیسی میں کسی بھی طرح سے تصفیہ کی گنجائش نہیں رکھی گئی ہے۔ اس طرح تدریس میں مشکل سے ان کا زیادہ دھیان صرف اسی بات پر صرف ہوتا ہے کہ کسی بھی طرح گھر کے قریب سکول میں تبدیلی ہوجائے۔ جسمانی اور ذہنی تھکاوٹ کے مارے ایسے اساتذہ طلبہ کو زیادہ وقت نہیں دے پاتے جو کہ اس نظام کا سب سے اہم اور بنیادی جز ہے۔

زیادہ امیدوار مجبوراً دور دراز دیہاتوں میں خالی آسامیوں والے سکولوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ ان میں شامل خواتین استانیوں کو زیادہ نقصان اور مشکل کا سامنا ہے۔ دور دراز علاقوں میں نوکری کرنا ان کے لئے بے حد مشکل ہوتا ہے۔ اس پالیسی میں کسی بھی طرح سے تصفیہ کی گنجائش نہیں رکھی گئی ہے۔

صوبائی حکومت میں دھرنے کی وجہ سے شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اب اگر ان اساتذہ کو مستقل نہیں کیا جاتا، تو پی ٹی آئی کی سیاسی ساکھ پر ضرور اثر پڑے گا۔ ایسا نہ کرنے سے دیگر سیاسی پارٹیوں کو تنقید اور احتجاج کا موقع ملے گا۔ صوبائی حکومت کبھی نہیں چاہے گی کہ اتنی بڑی تعداد میں بھرتی کئے گئے اساتذہ کو محروم کرکے اپنی سیاسی ساکھ کو داؤ پر لگا ئے۔