سوات کی تاریخی حیثیت سے ساری دنیا واقف ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں کے دلفریب نظارے قدرت کا عظیم تحفہ ہیں۔ سوات سیاحت کے حوالے سے ساری دنیا میں الگ پہچان رکھتا ہے۔ گھنے جنگلات، خوبصورت وادیاں، آبشاریں اور جگہ جگہ قدرتی چشمے زندگی بخشتے ہیں۔ اگر یوں کہا جائے کہ سوات کی سیاحت سے ملک بھر کی معیشت کو چلایا جا سکتا ہے، تو بے جا نہ ہوگا۔ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کو دیکھاجائے، تو یہی نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ ان ممالک کی ترقی میں سیاحت کا اہم کردار رہا ہے۔ ریاستی دور میں سیاحت کو بھرپور توجہ دی گئی تھی، آج بھی سوات کے سیاحتی علاقوں کو جانے والی سڑکیں ریاستی دور میں بنائی گئی تھیں، مگر بدقسمتی سے ادغام کے بعد سوات کی باگ ڈور سیاست دانوں کے ہاتھ لگ گئی، جنہوں نے سوات کو ترقی سے دور کرکے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے مسائل کی دلدل میں دھکیلا۔ سیاحت تو دور کی بات یہاں کے باسیوں کو پانی جیسی قدرتی نعمت کے حصول کے لیے بھی سڑکوں پر احتجاج کرنا پڑتے ہیں۔ بجلی ہو یا گیس، سوات کے عوام کو ان سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے۔ محرومیاں بڑھ جانے سے سوات کے عوام نئی راہیں تلاش کرنے لگے۔ پہلے ایم ایم اے کو آزمایا گیا۔ پھر اے این پی پر بھروسا کیا گیا مگر مطمئن نہ ہونا تھا نہ ہوئے۔ انہی محرومیوں کی وجہ سے سوات میں باآسانی طالبائزیشن پروان چڑھی۔ غرض سوات کے عوام نے مسائل سے چھٹکارا پانے کے لیے ہر در کھٹکھٹایا، مگر ہمیشہ ناامید رہے۔ ناامیدی میں زندگی گزارنے والے سوات کے عوام کو دو ہزار تیرہ میں پاکستان تحریک انصاف نے ایک نئی امید دلائی۔ نوے دن میں کرپشن کا خاتمہ، میرٹ، انصاف، تعلیم، صحت اور ترقی جیسے خوش کن نعروں نے سوات کے عوام کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ لاکھوں ووٹ دے کر پاکستان تحریک انصاف کے ایسے امیدواروں کو کرسیوں پر لا بٹھایا جن کی علاقے میں خاص پہچان تک نہ تھی۔ سوات کی تاریخ میں اٹھاسی ہزار سے زیادہ ووٹ لینے والے مراد سعید کا نام پہلے کسی نے سنا تک نہیں تھا۔ سوات کے عوام کو ان نئے چہروں میں ایک امید دکھا ئی دی۔ اسی وجہ سے سوات کے عوام نے پی ٹی آئی کے چھ ممبران کو صوبائی اوردو کو قومی اسمبلی کی سیٹیں تحفہ میں دیں، مگر بدقسمتی سے ان پانچ سالہ دور میں سوات میں کوئی میگا پراجیکٹ نہ لایا جاسکا۔ سوات کی کھنڈر نما سڑکیں اب مزید استعمال کے قابل نہیں رہیں۔
صحت کے معاملے میں بھی یہ نمائندے کوئی خاص کارنامہ سرانجام نہ دے سکے۔ سوات کے ہسپتالوں میں سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں جب کہ اب تو صورتحال یہ ہے کہ ڈویژن کے سب بڑے ہسپتال سیدو گروپ آف ٹیچنگ ہاسپٹلز میں پانچ ماہ قبل فنڈز ختم ہوچکے ہیں۔ ایمرجنسی کی صورت میں سوئی تک باہر سے لانا پڑتی ہے۔ لیبارٹری سامان ختم ہوچکا۔ آکسیجن سمیت دیگر گیسیں ختم ہوچکی ہیں۔ سیاحت کو بحال کرنے کی کوششیں ضرور ہوئیں، مگر وہ نتائج حاصل نہیں ہوئے جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ تعلیم کے حوالے سے بھی پی ٹی آئی کی حکومت اور سوات سے منتخب ممبران کافی پیچھے رہے۔ یہاں تک کہ صرف گذشتہ سال تین ہزار کے قریب طلبہ کالجوں کی کمی کے باعث داخلوں سے رہ گئے تھے۔ پانچ سال میں سوات یونیورسٹی کی تعمیر نہ ہوسکی۔
سوات کے عوام نے ان میں ایسے کئی ممبران کو بھی کامیاب کرایا تھا، جنہوں نے پانچ سال سوات کے لیے تو دور اپنے حلقے کے مسائل کے بارے میں ایک بات تک نہیں کی۔ سوات کے مرکزی شہر مینگورہ جس کی آبادی لاکھوں میں ہے، سوات کے تما م حلقوں میں چھوٹا ہے، مگر مسائل کے لحاظ سے سب سے بڑا ہے۔ یہاں سے فضل حکیم ممبر صوبائی اسمبلی بنے تھے۔ یہاں کے مختلف گنجان آباد علاقوں کے ہزاروں مکین کئی سالوں سے پانی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے پانچ سالہ دور میں پانی کا مسئلہ ختم کرنے کے لیے کوئی قابل ذکر اقدامات نہیں کیے گئے۔ مینگورہ شہر میں ایک ارب اٹھارہ کروڑ روپے کے بیوٹیفکیشن پراجیکٹ پر اسی وجہ سے انگلیاں اٹھ رہی ہیں کہ اگر ان پیسوں سے مینگورہ شہر میں پانی کی سکیمیں شروع کر دی جاتیں، تو بہتر ہوتا۔ کیوں کہ انسان کی بنیادی ضروریات کا حل ریاست کی اولین ترجیح ہونا چاہیے، مگر بدقسمتی سے اتنی کثیر رقم بنی بنائی سڑکوں اور پختہ گلیوں کی دوبارہ پختگی پر لگائی جا رہی ہے۔
شہر کے عوام کا دوسرا بڑا مسئلہ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کا ہے، مگر پی ٹی آئی کے منتخب نمائندے اس کابھی حل نہیں نکال سکے۔ مراد سعیداور فضل حکیم صاحب عوام کے سامنے بڑھکیں مارتے خود بھی جذباتی ہوجاتے اور لوگوں کوبھی جذباتی کرنے کی کوشش کرتے، مگرسب کو یاد ہے کہ آخر میں اپوزیشن میں ہونے کو جواز بناکر راہِ فرار اختیار کرتے۔ حالاں کہ یہ ایک ریکارڈ ہے کہ سوات کے ننانوے فیصد عوام بجلی اور گیس بلز بروقت ادا کرتے ہیں، مگر کئی سالوں سے سارے ملک میں سب سے زیادہ لوڈشیڈنگ سوات ہی کے عوام برداشت کر رہے ہیں۔ اگر ممبرانِ اسمبلی چاہتے، تو بجلی اور گیس کا مقدمہ اسمبلی میں بہتر طریقے سے لڑ سکتے تھے۔ اس کے ساتھ سوات کے سب سے پسماندہ علاقہ کوہستان کی ترقی کے لیے بھی کسی قسم کے اقدامات نہیں ہوئے۔ خصوصاً کالام کے عوام سیلاب کے بعد جن مشکلات کا مقابلہ کر رہے ہیں، وہ قابلِ ذکر ہیں۔ کالام کے بیشتر نوجوان جو پی ٹی آئی کا حصہ ہیں، وہ بھی مایوس ہوچکے ہیں۔ خصوصاً وہ اپنے حلقہ کے سابقہ ممبر قومی اسمبلی سلیم الرحمان سے کافی ناامید ہیں۔ کالام اور بالائی علاقوں میں صحت اور تعلیم کی صورتحال انتہائی مایوس کن ہے۔
دوسری طرف کالام سڑک کی خستہ حالی نے وہاں کے مکینوں کی زندگی دشوار کرکے رکھ دی ہے۔ کئی خطرناک حادثے روڈ کی خرابی کی کی وجہ سے رونما ہوئے اور قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا۔ کالام میں بیوٹیفکیشن پراجیکٹ پر وہاں کے لوگ خوش ہیں مگر اصل مسائل حل نہ ہونے پر بے چین بھی ہیں۔
سوات کا واحد ہوائی اڈا گذشتہ کئی سالوں سے بند پڑا ہے۔ سوات کی ترقی میں ہوائی اڈا کافی کردار ادا کرسکتا تھا، مگر اس کو کھولنے کے لیے صوبائی حکومت نے بھی کوئی اقدامات نہیں کیے جب کہ وفاق میں سوات کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر تھی۔ دو سال سے زیادہ عرصہ ہوا جی ٹی روڈ کی تعمیر نہ ہوسکی۔ رحیم آباد سے لے لر لنڈاکی تک گرد و غبار کی وجہ سے لوگوں کی زندگی الگ ایک اذیت بن چکی ہے۔ مختلف بیماریاں جنم لے رہی ہیں، غرض سوات کے عوام کی وفاق میں نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے کافی مشکلات نے جنم لیا ہے۔ ہاں ایک بات ضرور ہے کہ پی ٹی آئی سوشل میڈیا پر میرٹ، انصاف، صحت، تعلیم، سڑکوں کی تعمیر اور نئے کالجوں کے قیام میں دوسری پارٹیوں پر سبقت لے گئی ہے۔ مستقبل میں بھی سوشل میڈیا ترقی پر پی ٹی آئی کی حکمرانی برقرار رہنے کی قوی امید ہے۔
سوات کے عوام نے تحریک انصاف کے ہر دھرنے، ہر جلسے میں بخوشی شرکت کی، مگر کیا پی ٹی آئی نے بدلے میں سوات کے عوام کے لیے کچھ کیا کہ نہیں؟ اس کا فیصلہ سوات کے عوام بہتر کرسکتے ہیں۔ اب تو پی ٹی آئی کا پانچ سالہ دور ختم ہوچکا ہے۔ دو ماہ بعد نئے انتخابات ہو رہے ہیں۔ سوات کے عوام اب بہتر طریقے سے جان سکتے ہیں کہ پانچ سال میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ آنے والے انتخابات میں پی ٹی آئی کے وہی پرانے چہرے خصوصاً مینگورہ شہر سے اعلیٰ تعلیم یافتہ امیدوار دوبارہ ووٹ لینے کے لیے آرہے ہیں۔ اب سوات کے عوام پی ٹی آئی کی پانچ سالہ تبدیلی، نوے دن میں کرپشن کے خاتمے،صحت، انصاف، میرٹ اور تعلیم کا فیصلہ کریں گے۔
………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔