وزیر اعظم عمران خان نے دورۂ امریکہ سے وطن واپسی کے فوراً بعد خارجہ امور میں کئی اہم تبدیلیاں کیں۔ بڑی تبدیلی اقوامِ متحدہ کے (سابق) مستقل مندوب ملیحہ لودھی کی سبک دوشی بھی تھی۔ گو کہ مستقل مندوب کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد استعفا دینے کا عندیہ پہلے ہی ذرائع ابلاغ میں آچکا تھا، تاہم انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کے دورۂ امریکہ کی وجہ سے استعفا نہیں دیا۔
قارئین، حکومت کی جانب سے امریکی دورے کے تمام اہداف کامیابی سے حاصل کرنے کے دعوے کیے گئے ہیں۔ تاہم اس حوالے سے حتمی رائے قبل ازوقت ہوگی۔ کابینہ اجلاس میں بھی وزیر اعظم کو خراج تحسین پیش کیا گیا، لیکن اس حوالے سے چہ میگوئیاں ضرور کی جا رہی ہیں کہ آخر ایسا کیا ہوا تھا کہ وزیراعظم نے ملیحہ لودھی کو پوری طرح مبارک باد بھی سمیٹنے نہیں دی۔ اس حوالے سے کئی منفی قیاس آرائیاں بھی پھیلی ہیں۔
دراصل ڈاکٹر ملیحہ لودھی کے خلاف باقاعدہ منظم پروپیگنڈا مہم کئی ماہ سے جاری تھی، جس کے رَد کے لیے ملیحہ لودھی کی خاموشی کا مطلب، پنڈورا بکس کو نہ کھولنا ضرور ہوسکتا ہے۔ تاہم حسین حقانی اورواجد شمس الحسن کے برعکس ڈاکٹر ملیحہ لودھی کا سفارتی کردار اطمینان بخش قرار دیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے قیاس آرائیوں نے مزید جگہ پائی۔ کیوں کہ سابق مستقل مندوب نے مبہم معاملات کی وضاحت دینا ضروری نہیں سمجھا۔
ان قیاس آرائیوں کو اس طرف بھی جوڑا گیا کہ مخصوص عناصر ملیحہ لودھی کو مستقل مزاجی سے کام کرنے میں رکاؤٹ ڈالنا چاہتے ہیں۔ وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کی ایک پریس بریفنگ سے اچانک جانے پر بھی ڈاکٹر ملیحہ لودھی کے حوالے سے اختلافات کی بازگشت سنائی دی، تاہم شاہ محمود قریشی نے سینئرسفارت کار کی خدمات کو سراہا اور اختلافات کی افواہوں کو رَد کیا۔
ملیحہ لودھی پاکستان کی پہلی خاتون ہیں جو اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب رہی ہیں، جب کہ پاکستان کی نمائندگی کے حوالے سے ان کی سفارت کاری کا ریکارڈ بھی قابلِ رشک ہے کہ سابق وزیر اعظم بے نظر بھٹو اور نواز شریف سے لے کر صدر پرویز مشرف اور موجودہ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت میں بھی طویل ترین سفارت کاری کی خدمات سر انجام دیں۔ مختلف الخیال وزرائے اعظم اور جنرل (ر) مشرف کے ساتھ ان کا کام کرنا ہی ان کی کامیابی اور کارکردگی کی سند پر مہرِ تصدیق ثبت کرتا ہے اور یہ ایک طرح سے ان کا منفرد اعزاز ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ریاست اور ہر مختلف ادوار میں بننے والی حکومتیں ان کی کارکردگی سے مطمئن تھیں۔ کیوں کہ حکومت اور سابق مندوب کی جانب سے ایسی کوئی وضاحت سامنے نہیں آئی ہے کہ ملیحہ لودھی کو سبک دوش کیوں کیا گیا؟ اس لیے کسی بھی قسم کی قیاس آرائی کو حقیقت نہیں مانا جاسکتا۔
اقوامِ متحدہ کے مستقل مندوب اور دیگر وزراتِ خارجہ میں بڑے پیمانے پر تبادلوں کے لیے انتہائی تجربہ کار سنیئر سفارت کار کی تقرری پر کافی غور و فکر کرنے کے علاوہ ریاستی اداروں سے مشاورتی عمل بھی شامل ہوگا۔ اس لیے یہ سمجھنا کہ فیصلہ اچانک کیا گیا ہے، زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔
اقوامِ متحدہ کے لیے مستقل مندوب منیر اکرم پاکستانی سفارت سے سبک دوشی کے بعد متعدد خلیجی ممالک کے مشیر اورموجودہ حکومت کے ایڈوائزر بھی رہے ہیں۔ نیزملیحہ لودھی خود بھی اعتراف کرچکی ہیں کہ وہ کئی امور پر منیر اکرم کے مشوروں سے استفادہ کرتی چلی آ رہی ہیں۔ اس وقت موجودہ حکومت کو بالخصوص عرب ممالک اور عالمی برداری سے تعلقات کی بہتری کے لیے مؤثر سفارت کاری کی ضرورت ہے۔ وزراتِ خارجہ میں ممکنہ تبدیلی اسی تناظر میں کی جانی ہے۔ جس طرح مقبوضہ کشمیر کے معاملے پربالخصوص عرب ممالک اور بالعموم عالمی قوتوں نے بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے، اس حوالے سے یقینا وزارتِ خارجہ کی کئی کمزوریاں سامنے آئی ہیں، جنہیں درست کرنے کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔
اس طرح اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مفادات و کشمیر کے حوالے سے غیر مؤثر کردار ادا کرنے میں ناکامی انسانی حقوق کونسل میں 16 رکن ممالک کی حمایت حاصل نہ کرسکنے کی مثال بھی موجود ہے۔
قارئین، جہاں بلاشبہ وزیرِ اعظم کے حالیہ فیصلوں پر عالمی ذرائع ابلاغ میں حیرت کا اظہار کیا گیا، وہاں اس فیصلے کو سراہا بھی گیا کہ حالات کے مطابق یہ اقدام ناگزیر تھا۔ ماضی میں پاکستانی خارجہ معاملات کوبڑے گنجلک قسم کی دشواریوں کا سامنا رہا ہے۔ سابق حکومت کی جانب سے وزیرِ خارجہ کا تقرر نہ کیا جانا بھی اس کے شش وپنج کا مظہر تھا۔ مؤثر سفارت کاری کے بغیر پاکستانی مؤقف کو اقوامِ عالم کے سامنے بروقت پیش نہ کرنے کی وجہ سے کئی دشواریوں کا سامنا ہوتا ہے۔
قارئین، پاکستان بھی بدقسمتی سے متنوع پالیسیوں کا شکار رہا ہے۔ اس کی مبہم خارجہ پالیسی عالمی طاقتوں کی خواہش کے مطابق مستحکم نہیں رہی، جس کا خمیازہ نقصان کی صورت میں پاکستان کو کئی اہم پلیٹ فارمز پر بھگتنا پڑا۔ یہاں تک کہ حلیف ممالک بھی پاکستان کی کھلی حمایت سے دور ہوتے چلے گئے تھے۔ وزیر اعظم کی جانب سے مایوسی کا اظہار اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ماضی میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کی درست سَمت کا تعین ملکی خود مختاری کے بجائے عالمی قوتوں کی منشا کے مطابق کیا جاتا رہا ہے۔ اب اگر اس حوالے سے وزیر اعظم کوئی ’’مثبت قدم‘‘ اٹھا رہے ہیں، تو اہم امر یہ ہے کہ وہ ماضی کی غلطیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ’’نئے پاکستان‘‘ کی داخلی و خارجہ پالیسی کو درست ٹریک پر لا نے میں کامیاب ہوسکتے ہیں کہ نہیں؟ نتیجہ کے لیے وقت کا انتظار کرنا ہوگا۔
سابق صدر (ر) جنرل پرویز مشرف امریکی حکومت کی پسندیدہ و مقرب ترین شخصیت تصور کیے جاتے تھے۔ سابق صدر کے تجربہ کار سفارت کار منیر اکرم کو تعینات کرنے کے مقاصد واضح ہیں۔ منیر اکرم کے خیالات و اظہاریے کو ان کے شائع ہونے والے کالموں سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں امریکہ کو جس قسم کے تعاون کی ضرورت تھی، آج کے امریکہ کو بھی پاکستان کی اُسی طرح ضرورت ہے۔ صدر ٹرمپ سے طے شدہ دوسری ملاقات کا نہ ہونا اور افغان طالبان سے دوبارہ مذاکرات کے لیے امریکی صدر اور اسٹبلشمنٹ کو قائل کرنے میں ناکامی کئی تشنہ کام سوالوں کا سبب بنا ہے، جن کے جواب کے لیے انتظار کرنا ہوگا۔
اس دوران میں 05 اگست کو بھارت کی جانب سے آرٹیکل370 ختم کیے جانے اور مقبوضہ کشمیر کی سنگین صورتحال کو عالمی ذرائع ابلاغ نے بھرپور طریقے سے نمایاں کیا۔ بھارتی جارح افواج کے مظالم اور جبری گرفتاریوں سمیت عصمت دری اور ماورائے قانون قتل کے سیکڑوں واقعات نے عالمی ذرائع ابلاغ کو مقبوضہ کشمیر کی دلخراش اور سنگین صورتحال کی کوریج کرنے پر مجبور کردیا۔
الغرض، ڈاکٹر ملیحہ لودھی اورامریکہ میں پاکستان کے سفیر ڈاکٹر اسد مجیدخان نے قلیل عرصہ میں وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان کے دورۂ امریکہ کے لیے انتہائی مصروف شیڈول ترتیب دیا،جس کو خود حکومتی اراکین کی جانب سے پزیرائی ملی۔ دوسری طرف ملیحہ لودھی بھی اپنے کردار سے خوش اور مطمئن ہیں، مگر ریاست کو موجودہ حالات میں ایسے سینئر سفارت کاروں کے تقرر میں مخصوص عناصر کی لابنگ کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا۔

………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔