1946ء کے دنوں کی بات ہے، میرا امرتا کے گھر آنا جانا تھا۔ مَیں امرتا کی بیٹی کاندلا کو بے حد چاہتا تھا اور کاندلا کو بھی مجھ سے بہت لگاؤ تھا۔ ایک دن میں کاندلا کو گود میں لے کر اسے ایک کہانی سنانے لگا: ’’ایک لکڑ ہارا تھا، وہ ہر روز لکڑیاں کاٹتا تھا۔ ایک روز اس نے جنگل میں ایک راج کماری کو دیکھا، وہ بے حد حسین تھی۔ اس کا دل چاہا کہ وہ راج کماری کو گھوڑے پر بٹھا کر سات سمندر پار کہیں خوابوں کے جہاں میں لے جائے، جہاں ان دونوں کے سوا کوئی نہ ہو۔‘‘
کاندلا بڑے غور سے کہانی سن رہی تھی، اور درمیان میں مسکرا بھی دیتی تھی۔ مَیں کہانی سناتا جارہا تھا۔ ’’لیکن وہ تو ایک لکڑ ہارا تھا، ایک راج کماری کو حاصل کرنے کی کس طرح سوچ سکتا تھا؟ وہ صرف اُسے دور سے دیکھتا رہا، اور اُداس ہوکر لکڑیاں پھر کاٹنے لگا۔ اچھی کہانی ہے نا؟‘‘ مَیں نے کاندلا سے پوچھا۔
’’جی ہاں! مَیں نے بھی دیکھا تھا۔‘‘ کاندلا نے جانے کیا سوچ کر یہ جواب دیا۔ مَیں مسکراتے ہوئے امرتا کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
’’دیکھ لو یہ بھی جانتی ہے……!‘‘ اور پھر بچی سے پوچھنے لگا: ’’تم وہیں تھی نہ جنگلوں میں؟‘‘
بچی نے حامی بھرتے ہوئے سر ہلا دیا۔ مَیں نے پھر اس سے پوچھا۔
’’تم نے اس لکڑ ہارے کو بھی دیکھا تھا نا، وہ کون تھا؟‘‘
جانے بچی کو کیا سوجھا، شائد کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے، بچے خدا کی مورت ہوتے ہیں۔ بچی نے جانے انجانے جواب دیا: ’’آپ!‘‘
مَیں نے پھر پوچھا: ’’وہ شہزادی کون تھی؟‘‘
’’مما!‘‘ بچی نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
مَیں امرتا سے کہنے لگا: دیکھا…… بچے سب کچھ جانتے ہیں!‘‘
(ساحرؔ لدھیانوی کی خود نوشت سوانح ’’مَیں ساحرؔ ہوں‘‘ از ’’چندر ورما، ڈاکٹر سلمان عابد‘‘ مطبوعہ ’’بُک کارنر پرنٹرز اینڈ پبلشرز، جہلم‘‘ ستمبر 2015ء کے صفحہ نمبر 128 اور 129 سے انتخاب)