’’علم روشنی ہے!‘‘ یہ تو ہر کوئی کہتا ہے، لیکن اس کے حصول اور اسے عام کرنے کے لیے کردار بہت کم لوگ نبھاتے ہیں، یعنی آٹے میں نمک کے برابر۔ مذکورہ لوگ تعلیم کی روشنی کو پھیلا کر معاشرے اور وطن کو تعلیم یافتہ بنانے میں اپنے حصے کاکام کر رہے ہیں۔ ہم آج ایک ایسے معاشرے میں زندگی گزاررہے ہیں، جہاں ہر کوئی اپنے بارے میں تو سوچتا ہے، لیکن ایسے افراد بہت کم ملتے ہیں، جو اپنی بہتری کے ساتھ ساتھ معاشرے کی بہتری کے لیے بھی سوچ رکھتے ہوں۔
قارئین کرام، آج ایک ایسی ہی نوجوان شخصیت کے بارے میں لکھنے جا رہا ہوں جو اپنی تعلیم تو جاری رکھے ہوئی ہے، لیکن ساتھ ساتھ اپنے محلے کے بچے اوربچیوں کو بھی پڑھاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم سے بھی اپنے محلے کے بچے بچیوں سمیت بڑوں کو منور کررہی ہے۔ یہ ہستی ایک نوجوان خاتون ہے، جن کا نام ’’حمرا فرحان‘‘ ہے۔
حمرا فرحان، سوات کی تحصیل کبل کے دور دراز علاقہ کالا کلے کی رہائشی ہیں۔ تعلیم کا حصول ایک طرح سے ان کا جنون ہے۔ حمرہ ایک شادی شدہ خاتون ہیں، جن کا ایک ڈیڑھ سالہ بیٹا بھی ہے۔ آپ گورنمنٹ جہانزیب کالج سے ریگولر بی ایس (زوالوجی) کررہی ہیں اور روزانہ کلاسز بھی لیتی ہیں۔ تقریباً 25 تا 30 کلومیٹر فاصلہ روزانہ کی بنیاد پر طے کرتی ہیں۔ ساتھ اپنے گھر کا کام اور اپنے بچے کی پرورش و تربیت سمیت اپنے علاقے کے بچے بچیوں کو دنیا وی تعلیم سمیت دینی تعلیم سے منور کرنے کی سعی کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ پیرا میڈیکس کے دو سالہ ٹیکنیشن کورس میں صوبہ بھر کی نمایاں پوزیشن ہولڈر ہیں۔
قارئین کرام! گذشتہ دنوں حمرا سے تعلیم کے موضوع پر ایک بیٹھک ہوئی، جس میں ان کا کہنا تھا کہ ایک لڑکی کے لیے تعلیم انتہائی ضروری ہے۔ کیوں کہ آج اگر یہ کسی کی بیٹی ہے، تو کل یہ میری طرح کسی کی بیوی ہوگی اور پھر اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے اُسے ہی کردارا ادا کرنا ہوگا۔ ’’مَیں ایک شادی شدہ خاتون ہوں۔ میرا ڈیڑھ سال کا ایک بیٹا بھی ہے، لیکن میں اپنی تعلیم جاری رکھنے سمیت اپنے محلے کے بچوں کی بھی تربیت کرتی ہوں۔ ان کو ٹیوشن پڑھاتی ہوں، تاکہ تعلیم یافتہ معاشرے کا میرا خواب پورا ہو۔‘‘
ان کے بقول، اکثر لوگ کہتے ہیں کہ لڑکی توپرائے گھر کی ہے۔ اُس کو تعلیم کی کیا ضرورت ہے؟ یا سسرال والے کہتے ہیں کہ ہم نے ان سے جاب نہیں کرانی، تو میرے خیال میں یہ غلط ہے۔ کیوں کہ مَیں بھی ایک لڑکی ہی ہوں، مَیں بھی کسی کی بیٹی ہوں،لیکن میرے والدین نے مجھے کبھی یہ محسوس ہی نہیں ہونے دیا، اورنہ میرے سسرال والوں نے مجھ سے مزید تعلیم حاصل نہ کرنے کی بات ہی کی ہے۔ ’’تعلیم کی روشنی حاصل کرنے اور اسے پھیلانے کے حوالہ سے سب میرا حوصلہ بڑھاتے ہیں کہ آپ نے مزید پڑھنا ہے۔ اس کے باوجود کہ میرا ایک بیٹا بھی ہے۔ اس کو میرے آنے تک سنبھالنے کی ذمہ داری لیتے ہیں۔ گھر والوں ہی کے سپورٹ سے مَیں روزانہ کالج جاتی ہوں، میری آسانی کے لیے میرے شوہر کا مجھے ڈرائیونگ سکھانا اورلائسنس کے حصول تک محنت کرنا، اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ سنی سنائی باتیں بے بنیاد ہیں۔ لہٰذا لڑکیاں تعلیم کے حصول پر خصوصی توجہ دیں۔ کیوں کہ تعلیم یافتہ ماں ہی کسی معاشرے میں بہتر تبدیلی لاسکتی ہے۔‘‘
حمرا کا اس حوالہ سے مزید کہنا ہے کہ میری طرح اور لڑکیاں بھی تعلیم کے حصول کے لیے دور دور سے کالج اور سکول جاتی ہیں، اور زیادہ تر اس دردِ سر کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنا چھوڑ دیتی ہیں کہ فاصلہ زیادہ ہے۔ ’’اگر حکومتِ وقت دور دراز علاقوں میں بچیوں کے لیے کالج اور سکول کا بندوبست کرے، تو لڑکیوں کو تعلیم کے حصول میں مشکلات کا خاتمہ ہوجائے گا اورتعلیم کے نور سے معاشرہ منور ہوجائے گا۔‘‘
حمرا کا عزم ہے کہ وہ فارغ ہوکر اپنے علاقے میں ماڈل سکول بنائیں گی، تاکہ اپنے علاقے کی بچیوں کو علم کے زیور سے آراستہ کرسکے۔ یہ وہ خواب ہے جسے وہ تعلیمی فراغت کے بعد جلد پایۂ تکمیل تک پہنچانا چاہتی ہیں۔
قارئین، حمرا اس ’’میل ڈامننٹ سوسائٹی‘‘ میں ایک چھوٹی سی مثال ہیں، جس طرح اندھیری رات میں دور اُفق پر ایک ٹمٹماتا ہوا تارا ہوتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ایسی بہنوں اور بچیوں کی آواز اور طاقت بنیں، جس طرح حمرا کی طاقت ان کے اپنے خاوند اور خاندان کے دیگر لوگ بنے ہیں۔
مل جل کے ارضِ پاک کو رشکِ چمن کریں
کچھ کام آپ کیجیے، کچھ کام ہم کریں

…………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔