پچھلی صدی کے آغاز سے ہی قومی ریاستوں کے وجود میں آنے کا عمل شروع ہوا، اور ہوتے ہوتے پوری دنیا پر پھیل گیا۔ اس ضمن میں حکومتی ادارے دھڑا دھڑ تشکیل پاتے گئے اور آج کل یہ حال ہے کہ ملکی اخراجات کا بیشتر حصہ ترقی و بہبود کی بجائے انتظامی و دفاعی امور پر خرچ ہوتا ہے۔ پاکستان جیسے سیکورٹی سٹیٹ میں تو پہلے ہی بجٹ کا اکثریتی حجم دفاع اور اس سے ملحقہ اہلکاروں کی نذر ہوجاتا ہے، لیکن اس کے علاوہ بھی جو بجٹ باقی رہ جاتا ہے، اس کا معتد بہٖ حصہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور ان کے متفرق اخراجات کی نذر ہو جاتا ہے۔ 2019-20ء کے قومی بجٹ میں حکومتی اور انتظامی اخراجات کی مد میں تقریباً 22 کھرب روپے مختص کیے گئے ہیں، جس میں سے تقریباً 15 کھرب روپیہ فوجی اہلکاروں کی تنخواہوں، پنشن اور متفرق اخراجات کی مد میں ہے، جب کہ تقریباً 7 کھرب سول حکومت کے اداروں کے اہلکاروں کی تنخواہوں اور پنشن وغیرہ میں خرچ ہونا ہے۔ یہ اس حقیقت کے علی الرغم ہے کہ سول حکومت کا اکثریتی تنخواہ دار طبقہ صوبائی حکومتوں سے تنخواہ پاتا ہے۔ امسال ہمارے صوبائی بجٹ میں 3 کھرب سے زاید روپیہ لاکھوں ملازمین کی تنخواہوں پر صرف ہونا ہے جب کہ محض 1. 5 کھرب پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام یعنی کہ ترقیاتی پراجیکٹس کے لیے مختص ہے۔ اس تناسب سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کتنی بڑی رقم سرکاری اہلکاروں اور ملازمین کی تنخواہوں کی مد میں عوامی ٹیکس آمدن سے صرف کی جاتی ہے، اور کتنی بڑی تعداد جوکہ لاکھوں میں ہے، سرکاری ملازمتوں کو چمٹے ہوئے ہیں۔
لیکن اگر کارکردگی کا ملاحظہ کیا جائے، تو نمونے کے لیے بھی کوئی ادارہ نہ ملے گا جس میں سرکاری ملازمین وقت کی پابندی اور حوالہ شدہ کاموں میں فرض شناسی کا ثبوت دیتا ہوا ملے۔ حالاں کہ ان سرکاری اہلکاروں اور ملازمین کی اللہ کے ہاں جواب دہی اور آخرت کی کامیابی و ناکامی کا دار و مدار اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ انصاف پر ہی منحصر ہے۔ ان سرکاری ملازمین کا خیال ہوتا ہے کہ قانون کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ٹائم پاس کرتے رہنے سے وہ کوئی اپنا الو سیدھا کر رہے ہیں، جب کہ حقیقتاً یہی لوگ جہنم میں اپنے جانے کا سامان کررہے ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں نبی کریمؐ کا ارشاد ہے، ’’جو شخص مسلمانوں کے معاملات کا ذمہ دار بنایا جائے، پھر نہ تو وہ ان کے لیے دوڑ دھوپ کرے اور نہ ان کی خیرخواہی کرے، تو وہ ان مسلمانوں کے ساتھ جنت میں نہیں جائے گا۔‘‘ (صحیح مسلم)
اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد فرمایا کہ بدترین اہلکار حطمہ ہے جس کا مطلب ہے ایسا سنگ دل اور حقوق پامال کرنے والا اہلکار جو درشت مزاجی اور تند خوئی کا مظاہرہ کرے ۔
اس ضمن میں نبی کریمؐ سے ایک دعا منقول ہے، اے اللہ! جو شخص میری امت کے لوگوں کے کسی معاملہ کا ذمہ دار بنایا جائے، اور وہ ان کو مشقت میں ڈالے، توتُو بھی اسے مشقت میں ڈال، اور جو اُن کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرے، تو تُو بھی ان کے ساتھ نرمی کا معاملہ فرما۔
ایک اور روایت میں عوام کی بدخواہی اور حق تلفی کو ایسا جرم بتایاگیا ہے، جو قیامت کے روز اہلکار کو جنت سے محروم کرنے اور اللہ کے غضب کا مستحق قراردینے کے لیے کافی ہے۔
سرکاری ملازمتوں اور ذمہ داریوں کی اسی نزاکت اور گراں باری کے پیشِ نظر اسلام ان لوگوں کو مناصب سے دور رہنے کی ترغیب دیتا ہے، جو اپنے اندر اس کو بوجھ اٹھانے اور ذمہ داریاں پورے کرنے کی کما حقہ صلاحیت نہ پاتے ہوں۔ جب کہ آج کل یہ عالم ہے کہ لوگ سرکاری نوکریوں کے لیے اس وجہ سے ہاتھ پاؤں مارتے ہیں کہ اس میں پھر زیادہ کام نہیں کرنا پڑتا، اور ایک مرتبہ نوکری مل گئی تو بس پھر مل گئی۔ زیادہ سے زیادہ تبادلہ ہی ہونا ہوتا ہے۔
لوگ سرکاری ملازمت کو اس لیے بھی زیادہ پسند کرتے ہیں کہ کوئی سایڈ بزنس یا کھیت دکان کے کام بھی ساتھ ساتھ چلائے جاسکتے ہیں۔ کچھ ناعاقبت اندیش تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو کہ بیک وقت تین تین یا چار چار سرکاری تنخواہیں وصول کیا کرتے ہیں۔ اور کچھ ایسے بھی ہیں کہ سرکاری ملازمت کی ذمہ داریوں سے غفلت برتتے ہیں اور اپنے دوسرے کاروباری مشاغل میں جت جاتے ہیں۔ ایسے اساتذہ ہیں جو اپنے سرکاری اداروں میں کلاسز اور وقت کی پابندی سے غفلت برتتے ہیں، جب کہ اپنے پرائیویٹ اداروں اور ٹیویشن سنٹروں میں بہت مستعدی دکھاتے ہیں۔ ایسے ڈاکٹرز ہیں جو صبح، دوپہر اور شام کو پرائیویٹ کلینک میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں جب کہ سرکاری ڈیوٹی کا خدا ہی حافظ ہوتا ہے۔ ان سب کا یہ خیال ہوتا ہے کہ یہ لوگ قانون کو دھوکا دے رہے ہیں، حالاں کہ یہ لوگ خود کو دھوکا دے رہے ہوتے ہیں، کہ خدا کے ہاں دیر ہے مگر اندھیر نہیں اور خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔

……………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔