کہتے ہیں کہ انسان کی پہلی درس گاہ ماں کی گود ہے۔ یہیں سے انسان مادری زبان سیکھتا ہے۔ آہستہ آہستہ بچہ پھر اپنے ماحول سے واقف ہوتا ہے، اپنے مذہب اور کلچر کے رنگ میں رنگتا ہے اور پھر مختلف اشیا کے نام سیکھتا ہے۔ اس کے بعد گھر سے باہر بچے کو جس ماحول اور شخصیت سے واسطہ پڑتا ہے، وہ مکتب اور معلم ہیں۔ استاد وہ ہستی ہے جو طالب علم کے لیے بہ منزلہ والدین ہوتی ہے۔ استاد کا کردار بچے کی زندگی اور کیریکٹر پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ معلمی ایک معزز اور پیغمبرانہ پیشہ ہے۔ خود سرورِ کائناتؐ کا ارشادِ مبارک ہے کہ ’’مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا۔‘‘ خلیفۂ چہارم حضرت علی ؓ کا قول ہے کہ ’’جس نے مجھے ایک لفظ سکھایا میں اس کا غلام ہوں۔‘‘
قارئین، ہر سال پانچ اکتوبر کو پاکستان میں اساتذہ کا قومی دن منایا جاتا ہے۔ اس روز کو ’’سلام ٹیچر‘‘ ڈے بھی کہتے ہیں۔ اس موقع طلبہ اور عام لوگ اپنے اساتذہ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ کیوں کہ ابتدائے آفرینش سے اساتذہ ایک معزز اور مکرم طبقہ رہا ہے۔ دنیا کی تمام اقوام اپنے اساتذہ کو عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہیں اور حکومتیں ان کو خاطر خواہ لوازماتِ زندگی دیتی ہیں۔ اس سلسلے میں ہم ’’سلام ٹیچر ڈے‘‘ کے موقع پر شعرا کے چند اشعار (کلام) پیش کرتے ہیں۔ جن میں شاعر مشرق کے یہ دو اشعار ہیں جو اُس نے اپنے استاد مولوی میر حسن سے متعلق کہے ہیں، ان میں علامہ نے اپنے استاد کے احسانات کو یاد کیا ہے۔
مجھے اقبال اس سید کے گھر سے فیض پہنچا ہے
پلے جو اس کے دامن میں وہی کچھ بن کے نکلے ہیں
نفس سے جس کی کھلی میری آرزو کی کلی
بنایا جس کی مروت نے نکتہ داں مجھ کو
اس قطعہ میں ایک شاعر استاد کے ان احسانات اور کرم نوازی اور خصوصیات کا ذکر کرتا ہے، جو پیشہ معلمی نے اُسے عطا کی ہیں۔
فہم و دانائی و ہنر کا آسماں اُستاد ہے
علم و حکمت کی یقینا کہکشاں اُستاد ہے
غور کر ناداں کہ تو بھی عزتِ اُستاد پر
جہل کی تاریکیوں میں ضوفشاں اُستاد ہے
درجِ ذیل شعر میں اُستاد اپنی محنت اور علم سے متعلق کہتا ہے جو وہ اپنے طلبہ کو منتقل کرتا ہے۔
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
درجِ ذیل قطعہ اس جذباتی منظر کو پیش کرتا ہے جب ایک طالب علم سکول، کالج یا یونیورسٹی سے رخصت ہورہا ہے، تو اس کا اُستاد اُسے بیٹا؍ بیٹی سمجھ کر کتنے پیار اور خلوص سے دعا دیتا ہے:
تیری حیات کا ہر لمحہ شادماں گزرے
بہار سجدہ کرے تو جہاں جہاں گزرے
خدا نصیب کرے تجھ کو دائمی خوشیاں
تو سرخ رُو رہے جب کوئی امتحاں گزرے
درجِ ذیل شعر اس منظر کو پیش کرتا ہے کہ ایک شاگرد اعلیٰ مقام پر فائز ہے، اور زندگی میں کامیابیاں حاصل کرچکا ہے، تو اپنے استاد کے نام یہ ہدیہ پیش کرتا ہے:
یہ کامیابیاں، عزت، یہ نام تم سے ہے
خدا نے جو بھی دیا ہے مقام تم سے ہے
…………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔