نادرا قومی مرکزی ادارہ ہے جس کی اِفادیت سے انکار ممکن نہیں۔ شہریوں کو قومی شناختی کارڈ کا اجرا ہو یا ان کے متعلق ڈیٹا لینا ہو یہ نادرا کاکام ہے۔ نادرا کے سنٹرز بلاواسطہ اور بلواسطہ طور پر قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔ نادرا کا قومی شناختی کارڈ کے پر اسز کا عمل ڈیجیٹل شکل اختیار کرکے کمپیوٹرائزڈ ہوچکا ہے۔ نادرا ریکارڈ ملکی ترقی میں ایک اہم پیش رفت ہے۔ اس ریکارڈ کے توسط سے دیگر اداروں کو معلومات پہنچانا آسان تر ہوچکا ہے۔ اداروں کو سنٹرائلزڈ میکینزم کی طرف لانے کے لئے نادرا کی اِفادیت اپنی جگہ برقرار ہے۔ قومی شناخی کارڈ کا حصول اگرچہ آسان تر ہے لیکن اس میں خامیاں شہریوں کے جان و مال کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہیں۔ نادرا آفس قانونی پالیسی کے مطابق تشکیل دیا گیا ہے۔ شناختی کارڈ کے حصول کے لئے ڈیٹا میں ترمیم اور تصحیح کا عمل مشکل بنا دیا گیا ہے۔ ہزاروں لاکھوں کیسز تبدیلی و تصحیح نام، ولدیت اور تاریخ پیدائش کے متعلق ہوتے ہیں۔ اکا دکا کیس شناختی نمبر اور پتے کی غلطی کی تصحیح کے لئے داخل یا رجسٹر کیا جاتا ہے۔اس طرح مستقل پتا پر بھی یہی کوفت اٹھانا پڑتی ہے۔ نادرا نظام کی فعالیت میں اسباب و وجوہ اگرچہ کسی یونیفارم پالیسی کا نہ ہونا بھی ہیں اور اہلکاران نادرا کی ٹریننگ سے متعلق بھی۔ ایک طرف اگر چہ لوگوں کے نام غلط لکھے جاتے ہیں، تو دوسری طرف تاریخِ پیدائش مسئلے پیدا کرتی رہتی ہے۔ فوتگی اور پیدائش کے حوالے سے یونین کونسل سے بھی معلومات شیئرنگ کا طریقہ کار وضع کیا جانا چاہئے۔

شناختی کارڈ کے حصول کے لئے ڈیٹا میں ترمیم اور تصحیح کا عمل مشکل بنا دیا گیا ہے۔ ہزاروں لاکھوں کیسز تبدیلی و تصحیح نام، ولدیت اور تاریخ پیدائش کے متعلق ہوتے ہیں۔ (Photo: Dawn)

ڈبل کارڈ کا مسئلہ بھی موجود ہونے کی صورت میں جرمانے اور کارڈ کی منسوخی کی جاتی ہے۔ بلاک شدہ کارڈز کی وجہ سے صارفین کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ نادرا کے لئے یونیفارم پالیسی وضع کی جائے، تاکہ کسی بھی مسئلے کے حل کے لئے نادرا کے آفیسر ز کو صوابیدی اختیارات حاصل ہوں۔ اس سے صارفین اور نادرا کے اہلکاران کے لئے مشکلات میں کمی آجائے گی اور انہیں بلاوجہ مقدمات سے چھٹکارا مل جائے گا۔ کورٹ میں بھی اس قسم کے کیس داخل و رجسٹرڈ کئے جاتے ہیں، تو عموماً سالوں بیت جاتے ہیں اور کورٹ کوئی فیصلہ نہیں کر پاتی۔ عدالتوں کی بھی اپنی مجبوریاں ہیں۔ کیونکہ عدالت بغیر ثبوت اور قانون کے خلاف نہیں کرسکتی۔ دوسری طرف اس طرح کارڈز کے اجرا سے مختلف قسم کے مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔ اس لئے چاہئے کہ کورٹ صارفین اور مؤکلین کی مشکلات کا اندازہ کرتے ہوئے فراہم کردہ معلومات کے توسط سے مقدمات کو کم ازکم وقت میں فیصلہ کرنے کا گُر سیکھ لے۔ مثبت رویہ، مخصوص ٹریننگ، شناختی کارڈ بنانے کے لئے مختلف امور کو سر انجام دینے کے لئے راہنمائی در کار ہوتی ہے۔ مطلب ان کا یہ ہے کہ اکثر اوقات نادرا آفس میں کس وقت کیا کام سر انجام دینا ہے؟ اس کو ایک مثال کے طور پر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نادرا میں کسی فرد کو بٹھایا جاتا ہے کہ’’ آپ یہاں بیٹھیں‘‘ لیکن ان صاحب (کنزیومر) کو پتا نہیں ہوتا کہ ان کی تصویر لینی ہے۔ بس اہلکار کہہ دیتا ہے کہ بھائی آپ کی تصویر لے لی گئی ہے۔ دوسری طرف اکثر اوقات اَن پڑھ لوگ آجاتے ہیں جو اکثر اپنا نام بھی غلط بول دیتے ہیں۔ چاہئے کہ نادرا کے اہلکار ’’کامن سنس‘‘ سے کام لیتے ہوئے فرد کے اصل نام کا کھوج لگائیں اور ’’فولا‘‘ کی بجائے شریف اللہ لکھیں اور اس کی تصدیق کریں کہ عرف کی بجائے اصل نام تحریر ہو۔ اس طرح بعض بہن بھائیوں کی عمروں میں ناقابل یقین حد تک مماثلت ملتی ہے، مثلاً ایک دو مہینے کا فرق تو یہ تو قانونِ فطرت کے بھی خلاف ہے۔ لیجئے، جناب اس کو ہی لکھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ عورتوں کی تصاویر وڈیٹا انٹریز کے لئے خاص کر لیڈیز اہلکاران کا ہونا لازمی ہونا چاہئے ۔نادرا کا قومی ادارہ برائے اجرا قومی شناختی کارڈ کئی لحاظ سے مختلف امور میں کار آمد ثابت ہوسکتاہے۔ حتی کہ اس سے ہرقسم کے دیگر اداراتی مقاصد بھی لئے جاسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر نادرا میں تعلیمی ریکارڈ جمع کرائے جا سکتے ہیں جس سے ایک ہی جست میں کسی بھی ادارے کو مطلوب شخص کے تعلیمی کوائف با آسانی مہیا ہوسکتے ہیں۔ اس طرح صحت کا ریکارڈ، ڈی این اے، فوتگی اور اور نومولود کی پیدائش کا ریکارڈ جمع کرکے مردم شماری وغیرہ میں آسانی پیدا ہوسکتی ہے۔ تھانے سے کلیئرنس سرٹیفکیٹ کا اجرا کرکے نادرا میں جمع کراکر کسی بھی شخص کے ماضی کا ریکارڈ مہیا ہوسکتا ہے۔ضروری نہیں کہ ہر ریکارڈ کو عوامی طور پر افشا کیا جائے۔ اس کے علاوہ کاروبار، گاڑی رجسٹریشن اور بینک ریکارڈ، کاروبار میں خرچ اور بچت کے معاملات، ٹیکس اور بیرونِ ملک سفر کی دستاویزات وغیرہ سے بہت سے فوائد سمیٹے جاسکتے ہیں۔ متعلقہ فرد کی ڈیٹا انٹری سے لازمی طور پر بہت سے امور میں شفافیت اور اصلاح کا عنصر شامل ہے۔ خاندانی افراد کے موبائل اور پی ٹی سی ایل نمبرز اور اپنے ذاتی موبائل کے نمبر زبھی کار آمد ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس طرح کے ڈیٹا میں یہ ہوگا کہ کسی تعلیمی ادارہ، میں اور یاکسی ڈاکٹر سے ملاقات کے وقت کسی بھی فرد کا ریکارڈ دیکھنے میں آسانی ہوجائے گی۔ بلاوجہ اٹسٹیشن سے نجات مل جائے گی۔ سرٹیفائیڈ ڈگری، سرٹیفیکیٹ وغیرہ سکین کر کے کسی بھی ادارے کو کوائف مل سکتے ہیں اور قومی شناختی کارڈ کے اجرا میں غلطیوں کے امکانات کم ہوسکتے ہیں جبکہ متعلقہ دستاویزات سے باآسانی تصحیح کی جاسکے گی۔ ان ساری دستاویزات کی یکجائیگی سے ون ونڈو آپریشن کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے ۔نادرا کے سمارٹ کارڈ میں پنشن کی سہولیات دینا بھی اس جانب ایک سنگ میل ہے۔ بینک اکاونٹ، اے ٹی ایم، حادثاتی انشورنس ڈرائیونگ لائسنس،فنگر پرنٹس، طبی حالت وغیرہ جیسی چھتیس خصوصیات اور سہولیات شامل ہیں۔ کارڈ میں درج معلومات کو ہیکنگ سے محفوظ کردیا گیا ہے۔ بلاشبہ سمارٹ کارڈ ایک جدید سسٹم ہے۔

……………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔