ایک روز مرزا غالبؔ اور مولانا حالیؔ دسترخوان پر بیٹھے تھے کہ ڈاکیا ایک لفافہ دے گیا۔ لفافہ کی بے ربطی اور کاتب کے نام کی اجنبیت سے اُن کو یقین ہوگیا کہ یہ کسی مخالف کا ویسا ہی گمنام خط ہے جیسے پہلے بھی آتے رہتے ہیں۔
حالیؔ لکھتے ہیں کہ ’’مرزا نے یہ خط مجھے دیا اور کہا کہ اسے کھول کر پڑھو۔ مَیں جو دیکھتا ہوں، تو فی الحقیقت سارا خط فحش دشنام (گالی) سے بھرا ہوا تھا۔‘‘ مرزا نے پوچھا کہ کس کا خط آیا ہے اور کیا لکھا ہے؟ مجھے اس کے اظہار میں تأمل تھا۔ مرزا نے فوراً میرے ہاتھ سے لفافہ چھین لیا۔ پھر اول سے آخر تک پڑھنے کے بعد کہا : ’’اس اُلّو کو گالی بھی نہیں دینا آتی۔ بڈھے آدمی کو بیٹی کی گالی دیتے ہیں، تاکہ اس کو غیرت آئے۔ جوان کو جورو (بیوی) کی گالی دیتے ہیں، کیوں کہ اس کو جورو سے زیادہ تعلق ہوتا ہے۔ بچے کو ماں کی گالی دیتے ہیں، کیوں وہ ماں سے برابر کسی سے زیادہ مانوس نہیں ہوتا۔ یہ قرم ساق (بھڑوا) جو 72 برس کے بڈھے کو ماں کی گالی دیتا ہے، اس سے زیادہ بے وقوف اور کون ہوگا؟‘‘
(ڈاکٹر علی محمد خان کی کتاب ’’کِشتِ زعفران‘‘ مطبوعہ ’’الفیصل‘‘ پہلی اشاعت فروری 2009ء، صفحہ نمبر 57 سے انتخاب)
