ہمیں اس بات سے غرض اور دلچسپی نہیں اور نہ ہم اس کو موضوعِ بحث بنا نا چاہتے ہیں کہ ولی عہد اور نائب السلطنت کا استقبال مقرر شدہ پروٹوکول کے برعکس فرمان روائے سلطنت کی طرح کیوں کیا گیا؟ سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے بہت رشتوں میں سب سے اہم رشتہ حرمین مکرمین بیت اللہ شریف اور حرمِ نبویؐ کے تعلق سے ہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے سرزمینِ حجاز ان دو مقامات مقدسہ کی وجہ سے واجب الاحترام اور عقیدیت و محبت کا مرکز ہے۔ ہر سال لاکھوں مسلمان حج و عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے ان دو مقدس مقامات کی زیارت سے سکونِ قلب و روح حاصل کرتے ہیں۔ سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کی حمایت و مدد کی ہے اور کئی نازک اور بحرانی دور میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ ہمیں یہ بات بھی یاد ہے کہ شاہ فیصل مرحوم کی پاکستان کے ساتھ تعلق و محبت عالمِ اسلام کے ایک بازوئے شمشیر زن کے طور کتنی گہری، مخلصانہ اور والہانہ تھی۔ اس کا ثبوت لائل پور شہر کا نام تبدیل کرکے فیصل آباد رکھنا اورپاکستان کے اندر کئی مقتدر اداروں کا قیام سعودی سرمائے اور خواہش کا مرہونِ منت ہے۔
لیکن تصویر کا دوسرا رُخ یہ بھی ہے کہ اب حالات بدل گئے ہیں۔ سعودی حکمران بھی تبدیل ہو گئے ہیں۔ ان کا ذہنی و فکری رویہ بھی تبدیل ہو گیا ہے۔ سعودی عرب سمیت تمام مشرقی وسطیٰ میں عرب قومیت کا فتنہ پہلے بھی موجود تھا، لیکن اب تو یہ اپنے انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ اس فتنے نے اسلام، مسلمان اور عالم اسلام کے وجود تک کو نظر انداز کرکے پس پشت ڈال دیا ہے۔ ہمیں سعودی عرب کے اندر سعودائزیشن اور اپنے لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع مہیا کرنے پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن جس بھونڈے اور جابرانہ انداز میں غیر ملکی اور خاص طور پر پاکستانی کاروباری اور مزدور پیشہ افراد کو نشانہ بنایا گیا، یکلخت بہت سے کاروبار غیر ملکیوں کے لیے ممنوع قرار دیے گئے، ویزے اور اقامے کے قوانین سخت کرکے لوگوں پر روز گار کے دروازے بند کر دیے گئے اور نہایت معمولی قانونی خلاف ورزیوں کو جواز بنا کر پاکستانیوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا، اور آج کی صورتحال یہ ہے کہ سعودی عرب کے ان اقدامات کے نتیجے میں لاکھوں پاکستانی، وطن واپسی پر مجبور ہوگئے۔ ہزاروں پاکستانی مسافرت اور عالمِ غربت کے دوران میں جیلوں میں پڑے سڑ رہے ہیں۔ ویسے بھی تمام دنیا اور مہذب ممالک سے مختلف امیگریشن قوانین عرب اور خصوصاً خلیجی ممالک میں نافذ ہیں۔ دنیا میں ویزے اور روزگار کے لیے کفیل اور اقامے کا قانون کہیں بھی رائج نہیں، لیکن سعودی عرب میں مزدوری اور روزگار کے لیے جانے والے افراد کو کفیلوں سے لاکھوں روپوں کے عوض ویزہ خریدنا پڑتا ہے۔ یہ کفیل عموماً وہ لوگ ہوتے ہیں جو جعلی اور کاغذی کمپنیاں بنا کر حکومت سے ویزے حاصل کرکے لاکھوں میں بیچتے ہیں۔ لوگوں کو دوسری فرموں اور اداروں میں کام کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح اس قانون کی زد میں آتے ہیں کہ اپنے کفیل کے علاوہ دوسری جگہ کام کرنا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ کفیل حضرات اقامے کی سالانہ تجدید کے لیے ان غریب اور بے کس مزدوروں سے ہر سال ایک خطیر رقم وصول کرتے ہیں۔ غیر ملکی اور خصوصاً پاکستانی مزدوروں کی کئی کئی ماہ کی تنخواہیں ادا نہیں کی جاتیں اور بعض کمپنیاں تو ظالمانہ حد تک ان غریب مزدوروں کا استحصال کرتی ہیں۔ اس سے یہ تا ثر بھی تقویت پاتا ہے کہ سعودی عرب میں لوگوں کو انصاف مہیا کرنے والا نظام شاید موجود نہیں،یا اگر سعودی شہریوں کے لیے موجود ہے، تو غیر ملکیوں کے لیے تو اس کا وجود سرے سے نا پید ہے۔ ذرا اس صورت حال پر غور کیجیے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے تم کو اپنی نعمتوں خصوصاً تیل کی دولت سے نوازا۔ پوری دنیا کے غریب عوام کے لیے تمہارے وسائل اور دولت کو وسیلہ بنایا۔ دنیا بھر کے مزدور کاریگر اہلِ ہنر تمہارے ملک میں روزگار کے حصول کے لیے جمع ہوگئے۔ ان لوگوں نے محنت مشقت کرکے اپنے فن اور ہنر کے ذریعے تمہارے ملک کو تعمیر و ترقی کے بام عروج پر پہنچایااور تم بجائے ان کے احسان مند ہونے کے اور ان کے ساتھ احترام و عزت کے ساتھ پیش آنے کے روز روز نئے نئے قوانین بنا کر ان کا ناطقہ بند کر رہے ہو۔ یقین کرو۔ ہزار میں سے ایک پاکستانی بھی جس نے تمہارے اداروں میں کام کیا ہے، تم سے خوش نہیں بلکہ ناراض ہے۔ وہ تمہاری تعریف نہیں بلکہ تمہارے سلوک کا شاکی اور تم پر معترض ہے۔ یہ صریحاً نا شکری کا رویہ ہے اور کفرانِ نعمت کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ کی سنت ثابتہ یہ ہے کہ نعمتیں چھین لیتا ہے اور عذاب بھیج دیتا ہے۔ کیا یمن کی جنگ میں تمہارا ملوث ہوناپورے مشرق وسطیٰ میں غیر ملکی مداخلت کے ذریعے فتنہ و فساد کا برپا ہونا عذاب نہیں؟ جس شخص کا ہم آج چند ارب ڈالرز نقد اور ادھار تیل دینے کی وجہ سے اتنا والہانہ استقبال کرتے ہیں کہ پروٹوکول کے تمام تقاضے نظر انداز کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں اس کا امیج کیا ہے؟ سعودی اخبار نویس خاشقجی کے قتل کے بعد ترقی یافتہ دنیا کے کتنے ملکوں نے ان کے ساتھ اسلحے کے معاہدے منسوخ کیے۔ خود سعودی عرب میں شاہی خاندان کے اندر اور باہر کی سعودی سوسائٹی میں اپنے اسلام دشمن اقدامات کی وجہ سے اس کی پوزیشن کتنی متنازعہ بن گئی ہے۔ پوری دنیا میں ایک جابر ڈکٹیٹر اور خود پرست نوجوان کی حیثیت سے اس کی شہر ت کیا ہے؟
ملکی جغرافیائی سرحدوں کے ذمہ دار دفاعی اداروں کے تجزیہ نگاروں کو خوب معلوم ہوگا کہ اس وقت اس جنوبی ایشیائی خطے کی دفاعی صورت حال کیا ہے؟ اور خارجہ پالیسی کے ذمہ دار اداروں کے افراد کو معلوم ہوگاکہ اس خطے میں کتنی متحارب اور متقابل قوتیں موجود ہیں اور عملاً مداخلت کر رہی ہیں۔ ایک واضح اور سامنے نظر آنے والی صورتحال تو یہ ہے کہ ہندوستان ہمارا دیرینہ اور کھلا دشمن ہے۔ وہ ہرجگہ ہر فورم ہمارے خلاف استعمال کرتا ہے۔ اپنی آبادی، رقبے اور وسائل کے لحاظ سے پوری دنیا اس کی تجارتی اور کاروباری مارکیٹ کے طور پر اس کا لحاظ اور ساتھ دیتی ہے۔ ہمارے مقابلے میں اس کو ترجیح دیتی ہے۔ کشمیر کا مسئلہ ہمارے درمیان موجود ہے اور ہر وقت مشرقی سرحدوں پر ایک ہیجانی کیفیت طاری رہتی ہے۔ اس کے ساتھ ہمارے تعلقات ایک پڑوسی کی حیثیت سے بحالی کی امید ایک خوش فہمی کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس کے علاوہ ہمارا دوسرا ہمسایہ ملک چائینہ ہے جو ایک ابھرتی ہوئی عالمی طاقت ہے۔ اس کے اپنے مفادات ہیں۔ کئی مواقع پر اس نے ہماری مدد بھی کی۔ ٹیکنالوجی اور بعض صنعتوں کے قیام کے لیے بلاشبہ اس نے ہماری معاونت بھی کی، لیکن اس کے ساتھ ہمارے کئی مسائل بھی ہیں۔ ان میں سے ایک مسئلہ ہمارا اس کے مقابلے میں تجارتی خسارہ ہے، در آمد برآمد کے درمیان توازن نہیں۔ فائدہ اس کو ہے اور نقصان ہمیں۔ اس کی وجہ سے ہماری صنعتی ترقی کی رفتار منجمد ہے۔ ہماری اندرونی صنعتی ترقی روبہ زوال ہے۔ سی پیک کا پچانوے فیصد فائدہ اس کو ملے گا اور شاید پانچ فیصد فائدہ ہمارے حصے میں آئے گا بھی کہ نہیں؟ گوادر کی اہم تجارتی اور دفاعی لحاظ سے اہمیت مسلمہ ہے۔ کیا یہ بات قرین دانش اور عقل کے مطابق ہے کہ ایک خود غرض اپنے مفاد کے مطابق فیصلے کرنے والی ابھرتی ہوئی عالمی طاقت کو اپنے ملک میں راہداری کی اجازت دی جائے؟ کیوں کہ یہاں تو سب کچھ طاقت ہے۔ ہر طاقتور اپنے مفاد میں فیصلے کرتا ہے اور معاہدوں اور شرائط کی اپنی من مانی تشریح کرتا ہے۔
ایران اس خطے کی ایک اور اہم حیثیت کا حامل ملک اور ہمارا ہمسایہ ہے۔ اس خطے میں کسی وقت ایرانی شہنشاہ ہی امریکی ایجنٹ ہوا کرتا تھا اور امریکی ایما پر ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتا تھا۔آج کل وہاں ایک ایسی مذہبی مسلکی حکومت قائم ہے جو پورے خطے میں اپنے مسلکی اور انقلابی اثرات پھیلانے کی کوشش کررہی ہے۔ باوجود اس کے کہ اس کے ساتھ ہمارے کئی مفادات مشترک ہیں لیکن زیادہ تر معاملات میں وہ ہمارے حریف اور مقابل کا کردار ادا کررہا ہے۔ افغانستان کے معاملے میں وہ ہمارا حلیف و ہم خیال نہیں بلکہ اپنے علاقائی اثرات کے قیام کے لیے حریف و مقابل ہے۔ جب بھی اس کے ملک میں کوئی حادثہ ہوتا ہے، وہ اس کے ڈانڈے پاکستانی ایجنسیوں سے ملاتا ہے۔ ابھی حال ہی کا واقعہ جس پر پاسداران انقلاب کے چیف محمد علی کا دھمکی آمیز بیان دوستی، ہمسائیگی اور مروت سب کے خلاف ہے۔ سرحدوں پر کشیدگی کی صورت حال بالکل بھارت کے ساتھ سرحدی ٹینشن کا منظر پیش کرتی ہے۔
ایک عالمی طاقت کے طور پر امریکہ پوری دنیا خاص طور پر جنوب مشرقی ایشیا میں سب سے بڑا مداخلت کار ہے۔ 18 سالہ افغان جنگ میں طالبان کے ہاتھوں شکست و ہزیمت سے دو چار اگر باعزت طور پر افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے، لیکن بہرحال خطے میں اپنے مفادات کے لیے اس کی موجودگی لازمی ہے۔ ایران کے ساتھ اس کی مخاصمت اور اس پر تجارتی پابندیاں محض ظاہری باتیں ہیں۔ اس کا اصل مقصد تو مسلم خطوں کو فتنہ و فساد سے دوچار کرنا، مسلمانوں کو آپس میں لڑانا، اسرائیل کے تحفظ و بقا کے لیے مسلمانوں کی شکل میں ہر خطرے کا سد باب کرنا ہے۔ آپ پورے مشرق وسطیٰ پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ عراق، شام اور لبنان کو ایرانی مسلکی بنیاد پر خانہ جنگی کا شکار کیا گیا۔ لیبیا، الجزائر، تیونس اور دیگر ملکوں کو رقبے اور آبادی کے لحاظ سے کٹ ٹو سائز کرنا اس کا نیا منصوبہ ہے۔ سوڈان کے ساتھ بھی ایسا کیا گیا اور انڈونیشیا کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ یمن میں خانہ جنگی بھی حوثی شیعہ قبائل کے ذریعے ایران کی مددو تعاون سے جاری ہے۔ ایسے میں پاکستانی حکمرانوں اور ذمہ داران کو چند ارب ڈالر کے محدود و قلیل عارضی فائدے کی بجائے وسیع تر ملکی مفادات اور قومی خطرات کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ خطے کے اندر تعلقات میں توازن اور احتیاط کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔
دوسری بات جو اصل حقیقت ہے کہ مملکتِ خدا داد پاکستان کوئی ’’بنانا سٹیٹ‘‘ نہیں۔ ہم ایک ایٹمی طاقت، سائنس و ٹیکنالوجی کی حامل وسیع و عریض رقبے پر مشتمل ہر قسم کے وسائل سے مالا مال ملک ہیں۔ ہماری قیادت کو اپنی صلاحیت، ذہانت اور بہترین حکمت عملی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ترکی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ہم سے زیادہ مقروض و مجبور ملک ترکی کو اس کی قیادت نے خود کفیل بھی بنایا خود مختار اور مستحکم بھی بنایا۔ دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کی صف میں مقام بھی دلایا۔ کوئی بات ناممکن نہیں۔ ذرا اپنے قد کو اونچا کرکے تو دیکھئے۔ آپ کو خود اپنی طاقت، وسائل اور اہمیت کا اندازہ ہو جائے گا، لیکن اس کے لیے آپ کو اپنے اندر عزت نفس اور قومی وقار کا احساس بیدار کرنا ہوگا۔ اپنے وسائل پر انحصار کرنا ہوگا۔ اپنی قوم کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ اس کو یہ احساس دلانا ہوگا کہ ہم آپ سے ہیں۔ آپ کے لئے سب کچھ کررہے ہیں۔ تب آپ کو معلوم ہوگاکہ اس قوم میں کتنا جذبہ ہے۔ کتنا ولولہ ہے۔
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
……………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔