گلگت کے راستے پر چیک پوسٹیں دیکھیں، تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس معاملے میں یہ بھی سوات کی طرح خود کفیل ہے۔ لیکن ایک فرق بہرحال واضح ہے۔ سوات کی چیک پوسٹوں کا خیال گلگت میں بھی آئے، تو جسم میں جھرجھری سی محسوس ہوتی ہے۔ یہاں کی پوسٹس دیکھ کر راحت واطمینا ن اور حفاظت کا احساس ہوتا ہے۔ یہاں کے اہلکاروں کے سامنے گاڑی کھڑی ہوتی ہے، تو پہلے سلام کرتے ہیں، پھر کلام کرتے ہیں۔ پتا چلے کہ مہمان ہیں، تو ’’خوش آمدید‘‘ کہتے ہیں۔ پھر چائے پانی کی آفر کرتے ہیں۔ پھر ہنستے مسکراتے سرسری معلومات حاصل کرتے ہیں اور ’’خدا حافظ‘‘ کہتے ہیں۔ یہاں کی پوسٹوں کو ’’چیک پوسٹ‘‘ کہنا مناسب نہیں۔ ہاں، اس کو’’معلوماتی پوسٹ‘‘ کہا جائے، تواس کی قدر و منزلت مزید بڑھے گی۔ فرق صاف ظاہر ہے، سوات کی چیک پوسٹوں پر گاڑیوں کا ازدحام دیکھ کر اہلِ بندوق کی حرکات و سکنات اور طورو اطوار دیکھ کر پیشانی پار گولی چلنے کا احساس ہوتا ہے۔ اُن چیک پوسٹوں پر کہیں’’ تو تو، میں میں‘‘ نہ ہو جائے۔ خدا کی پناہ! ہم نے سنا ہے کہ مفتوحہ علاقہ کے لوگوں کے ساتھ اسی طرح کا حسن سلوک کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اُن کا حافظہ، زبان، تاریخ، تہذیب و معاشرت اور معیشت بھی چھینی جاتی ہے۔ کیا ریاست کی تاریخی ودودیہ ہائی سکول کی بلڈنگ کو صفحۂ ہستی سے مٹانا اور اب جہان زیب کالج کی مسماری کا جو عمل جاری ہے، کو تاریخ چھیننے کی مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے؟ کیا دامنِ گلگت میں چپکے سے امیگریشن ممکن ہے……؟
’’ایک زمانہ‘‘ یعنی بارہ گھنٹے کے لگ بھگ سفر کی سختیاں جھیلنے کے بعد شام کی سیاہی پتلی ہونے کو ہے۔ بجلیاں روشنیاں بکھیرنے لگی ہیں۔ سبزہ ہی سبزہ اور انواع و اقسام کے درخت و پودے نظروں کو خیرہ کرنے کو ہیں۔ سڑک کنارے لگے سائن بورڈز اور سلطان حسین خان، بیک وقت دونوں شہرِ گلگت پہنچنے کا اعلان کرتے ہیں۔ دائیں جانب دیکھتے ہیں۔ لگتا ہے جیسے پُراَسرار پودوں نے گود میں کچھ چھپایا ہوا ہے۔ سیب، خوبانی، شاہ توت، سپیدہ، آخروٹ، کیکر اور الائچی وغیرہ کے درختوں کے جھنڈ کے جھنڈ اس شہر کو نظرِبد سے بچانے کے لئے اپنی پناہ میں لئے ہوئے ہیں۔ درختوں کی چھتری تلے زندگی سرگرم ہے۔ واہ جی، خدا کی قدرت۔ ماحول کا کیا رکھ رکھاؤ ہے۔ زندگی کے حسین مسکراتے چہرے پر امن کے کیا روح پرور نظارے ہیں۔

دائیں جانب دیکھتے ہیں۔ لگتا ہے جیسے پُراَسرار پودوں نے گود میں کچھ چھپایا ہوا ہے۔ سیب، خوبانی، شاہ توت، سپیدہ، آخروٹ، کیکر اور الائچی وغیرہ کے درختوں کے جھنڈ کے جھنڈ اس شہر کو نظرِبد سے بچانے کے لئے اپنی پناہ میں لئے ہوئے ہیں۔ درختوں کی چھتری تلے زندگی سرگرم ہے۔ واہ جی، خدا کی قدرت۔ ماحول کا کیا رکھ رکھاؤ ہے۔

گلگت کینٹ میں انٹری کرتے ہیں، چیک پوسٹ پر جان پہچان کرواتے ہیں اور چل پڑتے ہیں۔ یہ شہر جتنا سکڑا ہوا ہے، دریائے گلگت اتنا ہی ٹانگیں کھول کر کہیں خرمستیاں کرتا دوڑ رہا ہے، کہیں بد مستی میں کولہے پھیلائے وسیع و عریض رقبے پر قبضہ جما بیٹھا ہے۔ سڑکیں کھلی ڈھلی، اُجلی اور صاف ستھری ہیں۔ اتنی کھلی ڈھلی اور وسیع جتنی یہاں کے لوگوں کی پیشانیاں اوردل و دماغ کی کھڑکیاں ہیں۔ دورانِ بات چیت مدہم اور شائستہ لہجہ یہاں کے لوگوں کا طرۂ امتیاز ہے۔ بھانت بھانت کے لوگوں کو اپنی بانہوں میں لئے اس شہرِ جاوداں میں بھانت بھانت کی بولیاں بھی بولی جاتی ہیں۔ اردو، پشتو، شینا، بلتی، بروشکی وغیرہ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ شینا زبان نہ صرف بلتستان بلکہ کشمیر، انڈیا اور افغانستان میں بھی بولی جاتی ہے۔ گلگت کے بازار اور کاروبار پر غیر مقامی لوگ چھائے ہوئے ہیں اور لگتا ہے کہ مقامی لوگ اقلیت میں ہیں۔ تاہم تمام لوگ باہمی بھائی چارے اور اتفاق سے زندگی کا پہیہ گھما رہے ہیں۔ اکا دکا واقعات کا ہونا تو اَب اس ملک کا روٹین ہے۔ ہم بد امنی کے ’’ایڈکٹ‘‘ لوگ زیادہ دورانیہ کے لئے امن کے قائم رہنے سے بھی شاکی ہو جاتے ہیں۔ پتا نہیں اتنی خاموشی میں کیا کھچڑی پکتی ہوگی۔ چائینہ پاکستان اکنامک کاریڈور (سی پیک) کے اثرات اور سرگرمیاں یہاں پر بڑی تیزی کے ساتھ محسوس کی جا سکتی ہیں۔ اردو، چائنیز اور کہیں انگریزی زبانوں میں سی پیک ہوٹلز، گیسٹ ہاؤسز، مارکیٹ، پلازے، ریسٹورنٹس اور پیٹرول پمپس وغیرہ کے نام سے بڑے بڑے سائن بورڈز لگے دکھائے دیتے ہیں۔ سی پیک پیٹرولنگ پولیس کے پاس جدید گاڑیاں دن رات سڑکوں پر فراٹے بھر رہی ہیں۔ قراقرم ہائی وے پر بڑی سرعت کے ساتھ کیا بلکہ جنگی بنیادوں پر آپٹیکل فائبر بچھایا جا رہا ہے۔ جس سے اس شہر اور علاقے کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ تاجر اور دیگر کاروباری لوگ آہستہ آہستہ اور غیر محسوس طریقے سے خو کو تبدیلی کے اس سانچے میں ڈال رہے ہیں۔ یہاں کے بازاروں میں چینی اور ایرانی اشیا کے ساتھ ساتھ مختلف اقسام کے لوکل ڈرائی فروٹس کی بھرمار ہے اور ان دکانوں پر سیاحوں کا بڑا رش ہوتا ہے۔

اہلِ گلگت اپنے کلچر کے ساتھ ہونے والی بددیانتی پر پریشان ہیں۔

ہم نے تو رات یہاں ہی گزارنی ہے۔ طلبہ کے ایک ہاسٹل کے کئی خالی کمروں پر افتخار نے فی سبیل اللہ قبضہ جما لیا ہے۔ ساتھ لائے ہوئے قربانی کے گوشت کی کڑھائی بنانے کی تیاریاں شروع ہوئیں۔ شلجم گوشت سپیشل جس کے پکانے کی سپیشلٹی اللہ کا شکر ہے اپنے پاس ہے۔ ہماری نگرانی میں پکنا ہے۔ اِنٹلیکچول پراپرٹی رائٹ کی بات تو کرتے ہیں لوگ، ’’کوکنگ سپیشلٹی رائٹس‘‘ کی بات کیوں نہیں کرتے؟ شلجم پکانے کا طریقہ بتانے کا ابھی وقت نہیں۔جی بھرکر سونے اور تھکاوٹ اُتارنے کا بھی وقت نہیں۔ وقت ہے تو صرف کھانا کھانے کا اور پھراپنے برخوردار عمران خان عرف ساز خان اور ہم نواؤں کے ساتھ محفل موسیقی انجوائے کرنے کا۔ علاقہ تھانہ کے رہنے والے عمران خان محکمہ خزانہ کے ’’آڈٹ ونگ‘‘ میں ملازم ہیں۔ جن رموز و اوقاف کے ساتھ وہ آڈٹ کرتے ہیں، اسی انداز میں کلاکاری کرتے ہیں، بہترین فوٹوگرافی کرتے ہیں اور اس طرح گھر کے کام کاج میں اپنی بیگم کے ہر اول دستے کا کردار بھی ادا کرتے ہیں۔ یہ خوبصورت گانا، گائے وہ۔ گنگنائے اور سنیں ہم……
ہر یو غم بہ درنہ لر کڑم، خوشالئی بہ درپہ سر کڑم
زہ بہ دومرہ مینہ درکم چہ دنیا بہ شی حیرانہ
پشتو کے ان خوبصورت اشعار کا لولا لنگڑا ترجمہ ہو جائے، جس میں شاعر مُلا اپنے محبوب کو مخاطب کرکے بہت کچھ کہتے کہتے یہ بھی کہہ جاتا ہے: ’’ہر غم و پریشانی تجھ سے دور بھگا آؤں گا، خوش حالیوں کا بوجھ تیرے سِر پر رکھ آؤں گا۔ اور میں اتنی محبت تمھیں دوں گا کہ دُنیا کو حیران کر دوں گا۔‘‘
اہلِ گلگت اپنے کلچر کے ساتھ ہونے والی بددیانتی پر پریشان ہیں۔ وہ اس بات پر بھی بد گمان ہیں کہ شادی بیاہ میں اکثر لوگ اپنی رسم ’’تاوء‘‘ کی بجائے بھارتی رسمِ مہندی کو کیوں ترجیح دینے لگ پڑے ہیں؟ تاہم گلگت کے نواحی علاقہ بگروٹ کے لوگوں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ آج بھی اپنی رسم نباہ رہے ہیں۔ پشتو اردو کے اشعار ہم لکھتے رہتے ہیں، کیوں نہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے کسی فیس بک اکاؤنٹ سے یہاں کے لوک گیت تاوئے گائے کا ایک آدھ مصرع یہاں پر نقل کر یں ۔
ٹونگنیں تاوء کشمیر شاہ میرو
ٹونگنیں تاوء جے چانیڈنے دم
ٹونگنیں تاوء کی چانڈم
ترجمہ: اے کشمیر کے شاہ میر آج میرے گھر میں، مَیں خود بادشاہ ہوں اور آج میں خود اس بابرکت رسم کا افتتاح کروں گا۔(جاری ہے)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری اور نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔