محبت جب عروج کی منزل پے پہنچ جائے، تو عشق کا لبادہ اوڑھ لیتی ہے۔ وہ عشق جو ایک عظیم باپ کو اپنے ہاتھوں سے اپنے جگر گوشے کو اپنے محبوب کے نام پر قربان کرنے کے لیے چھری تلے لیٹنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ باپ کی طرح عظیم بیٹا پکارتا ہے: ’’مجھے آپ کا ہر حکم منظور ہے۔ اے پیارے ابا جان، مجھے منھ کے بل لٹا کر یہ منزل عشق طے کرنا۔ کہیں میرے چہرے کی معصوم اپنائیت اور پیار آپ کے ہاتھوں کی زنجیر نہ بن جائے۔‘‘
آہ! فرشتے بھی اُس روز وقت کے پیغمبر علیہ السلام اور انسان کے عشقِ خداوندی پہ انگشت بدنداں تھے۔
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
عشق کے دیوانے جب سر کی بازی لگاتے ہیں، تو عقل کے فرزانے دنگ رہ جاتے ہیں۔ قیس کا شعلۂ عشق وقت کی زمینی آندھی میں جل کر بجھ جائے گا، مگر غازی علم دین کا عشق جب شعلہ بن کر بھڑکا اور شاتم رسول کے سینے میں خنجر بن کر اترا، تو عاشق رسولؐ کا عشق امر ہوگیا، جاوداں ہوگیا اور جسم کی سرحدوں سے نکل کر ابدی راہوں پے چل نکلا۔ زمین اور جسم کی سرحدوں کے اُس پار……
کیوں کہ یہ عشقِ مجازی نہیں جب عاشق پروانہ بن کر شمع کے لیے بھسم ہوکر فنا ہوجاتا ہے، اور اسی زمین پر اپنا سفرِ زیست ختم کر دیتا ہے۔ کیوں کہ جسم فانی ہوتا ہے اور خاک میں مل کر فنا کی منزلوں کو چھو لیتا ہے، مگر عشقِ حقیقی کا سفر تو روحانی سفر ہے۔ تاابد جاری و ساری رہتا ہے۔ عشق کی آگ اور تپش عاشق کو اپنے ماحول سے بے گانہ کردیتی ہے۔ جسم کی آسائش اور راحتیں مٹ جاتی ہیں۔ دل، نظر اور سوچ کا مرکز محبوب کی ذات ہوتا ہے۔ انسان اُس درخت کی شکل اختیار کرلیتا ہے، جو عشقِ پیچاں کی بیلوں میں جکڑا گیا ہو۔ زرد و لاغر ہوکر خشک ہونے کے قریب ہو۔ یہ عشق کا جذبہ ہی تھا جو کلیم اللہ علیہ السلام کو کوہِ طور پر لے گیا۔ محبوبِ لازوال پکارا: ’’تم مجھے دیکھنے کی تاب نہیں لاسکتے۔ یہ پہاڑ! ہاں یہ بھی نہیں۔‘‘ پھر جب عشق کا جذبہ جلوۂ خداوندی کو جوش میں لایا، تو طور کا جگر بھی نورِ خداوندی کے شعلے میں جل کر ’’سرمہ‘‘ بن گیا اور عاشق علیہ السلام ہوش و حواس سے بیگانے ہوگئے۔
عشق کا جذبہ جب ایک سیاہ حبشی غلام کو دیوانہ بناتا ہے، تو عرب کی تپتی جھلستی ریت پے اُس کا جلتا پگھلتا جسم اور وقت کے فرعوں کا ظلم بھی اُس کے خشک ہونٹوں سے ’’احد احد‘‘ کی صدا کو نہ نوچ سکا۔ اور یہ غلام تاریخ کے صفحے پر بہت سے بادشاہوں کو بھی پیچھے چھوڑدیتا ہے۔ یہ ہے حقیقی اور لازوال ’’عشق‘‘ کا انعام۔
جب تک یہ دھرتی قائم ہے، عشق کا یہ سفر جاری ہے اور جاری رہے گا۔ ’’عشق‘‘ کے سفر میں وہ منظر بھی سورج نے دیکھا تھا جب مشرقی پاکستان کی مقدس سرزمین پر ہندو بھیڑیوں نے انسانی خون سے اپنی پیاس بجھانے کی کوشش کی۔ مسلمانوں کو آپس میں لڑوایا۔ مگر ’’البدر‘‘ کے نام سے مسلمانوں کی ایک جماعت نے مکتی باہنی کے غدار غنڈوں کا مقابلہ کیا جو بھارتی لٹیروں سے ملے ہوئے تھے۔ عوامی لیگ کی حکومت بھارتی فوج کو راستہ دے رہی تھی۔ جماعت اسلامی کے اُن مٹھی بھر سرفروشوں نے عشق کی بازی لگاتے ہوئے مغربی پاکستان کی حمایت میں اپنے پیاروں کو قربان کر دیا۔ اپنا خون اس پاک دھرتی پر نچھاور کر دیا۔ کچھ غازی بنے، کچھ شہادت کے درجے پر فائز ہوگئے۔ مگر ابھی عشق کا سفر باقی تھا۔ ٹھیک پینتالیس سال بعد ان ہی سرفروشوں کو وطن سے محبت اور وفاداری کی سزا دی گئی۔ عوامی لیگ نے جھوٹے مقدمے بناکر ان غازیوں کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا۔ جس میں معمر و باریش بزرگ اور جماعت کے راہ نما بھی شامل تھے۔ کسی نے اس پر احتجاج نہیں کیا۔ مگر عشق خداوندی کے متوالوں کو اس سے کیا؟ وہ تو اپنی منزل پاگئے۔
’’ہاں، جو اللہ کی راہ میں شہید ہوئے، تم انہیں مردہ مت کہو بلکہ وہ اللہ کے ہاں اپنا رزق پا رہے ہیں۔‘‘ یہ قرآن کی اُن آیات کا مفہوم ہے جو ایسے عشاق راہِ حق کے لیے اُن کے رب نے نازل فرمائی ہیں۔
جان دی، دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تویہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
یہ بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گرجیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں

…………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔