کسی نے مولانائے روم سے استفسار کیا کہ ’’کیا آپ نے یہ فرمایا تھا کہ مجھے بلا امتیاز سب کے نقطۂ نظر سے اتفاق ہے؟‘‘ مولانا نے اثبات میں جواب دیا، تو اس شخص نے انہیں بہت برا بھلا کہا۔ مولانائے روم نے کہا کہ مجھے آپ کے اس مذمتی بیان سے بھی اتفاق ہے۔
حسنِ اتفاق سے انہیں دنوں خلیفہ عبدالحکیم کا مقالہ ہماری نظر سے گزرا جس میں اس واقعہ کا ذکر ہے اور اس سے ہمیں پتا چلا کہ اصل واقعہ کس طرح ہے۔ واقعہ اس طرح ہے کہ ایک موقع پر مولانائے روم سے مطالبہ کیا گیا کہ صاف صاف بتایئے کہ آپ مسلمانوں کے 72 فرقوں میں سے کس فرقے کے عقیدے کو صحیح سمجھتے ہیں؟ انہوں نے بلاتکلف جواب دیا کہ مجھے تو ان سبھی کے عقائد و خیالات سے اتفاق ہے۔ جس فقیہ نے ان سے یہ دو ٹوک سوال کیا تھا، وہ اس جواب سے بھنّایا۔ اس نے مولانا کو بہت کھری کھری سنائیں اور کہا کہ تم ملحد ہو، زندیق ہو۔ مولانانے یہ سب کچھ سن کر ملائمت سے جواب دیا کہ مجھے آپ کی رائے عالیہ سے بھی اتفاق ہے۔ (انتظار حسین کی کتاب ’’قصہ کوتاہ‘‘ مطبوعہ ’’نگارشات‘‘ پہلی جلد کے صفحہ نمبر 237 سے انتخاب)