پشتو زبان و ادب کی فوکلوری صوت ’’چھج راکڑہ پائیکولہ زم، گوڈے راکڑہ وڑو لہ زم‘‘ ـ پرانے زمانے میں زبان زدِ عام تھی۔ ـ ہر چھوٹابڑا اس سے مانوس تھا۔ـ بچے تو اسے گیت کی طرح بلند آہنگ گاتے تھے۔ وہ کیوں نہ گاتے ایک تو یہ ہماری علاقائی ثقافت تھی اور دوسری طرف بزرگوں کی وراثت بھی، تبھی تو پن چکی پر لکھنے کے دوران میں ’’پائیکو‘‘ پر قلم اٹھانے کی خواہش نے انگڑائی لی، لیکن جوں ہی قلم اٹھایا، تو موضوع سے متعلق ذہن کی سطح پر فقط ایک لفظ تھا اور وہ صرف پائیکو۔ـ اس ایک لفظ کے سوا ذہن کورے کاغذ کی طرح تھا۔ ـ معلومات حاصل کرنا چاہی، لیکن کہاں سے؟ پائیکو تو چھے سات دہائی سے پشتون معاشرے سے اس طرح غائب ہوچکا ہے، جس طرح گدھے کے سر سے سینگ۔ بہت جتن کیا کہ کہیں سے اس کاکوئی پرزہ تلاش کروں، یااس کی کوئی نشانی ہی مل جائے۔ کہیں سے کچھ نہ ملا، تو بڑے بوڑھوں سے زبانی دریافت کرنے پر اکتفا کیا۔ـ بعض حضرات نے اگرچہ پائیکو نامی مشین چلتے ہوئے دیکھی تھی ـ لیکن انہیں اس کے اوزار کا علم تھا، اور نہ وہ کچھ اس حوالہ سے مکمل معلومات دینے کی پوزیشن ہی میں تھے۔ ـ اُن کی یادداشت سے تو میں اس قدر جان گیاـ کہ جب دانت تھے، تب چنے نہ تھے۔ ـجب چنے ہاتھ آئے، تب دانت نہیں رہے۔ـ مطلب جب جاننے والے تھے، تو پوچھنے والا نہ تھا اور اب پوچھنے والا موجود ہے، تو جاننے والے نہ رہے۔ـتاہم کوشش جاری رکھتے ہوئے سمبٹ کے سعد اللہ کے ذریعے شاہ روم خان کا اک انٹرویو ریکارڈکروایا۔ ـدارمئی کے قاسم خان کے توسط سے گل شہزاد استاد سے بھی ملا۔ ڈاکٹر محمد ایوب کے ذریعے اُن کی والدہ سے معلومات اکٹھی کی۔ معروف آہن گر گھرانے کے فرد منیرعرف جانان سے بار ہا پوچھا ـ تب جاکر معلوم ہوا کہ پائیکوبھی ایک عجیب سی مشین تھی۔
قارئین! پائیکو کے لیے کسی بڑی نہر کی ضرورت ہرگز نہ تھی۔ یہ مشین بھی بالکل پن چکی سے ملحقہ اُس نہر پر تعمیر کی جاتی تھی، جس پر پن چکی چلتی تھی۔ البتہ ایک علاحدہ چھوٹی سی نالی پربھی اسے بنایا جاسکتا تھا۔ یہ مشین پانی پر چلتی تھی۔ اس لیے اس کا طریقۂ کار بھی تقریباً پن چکی والا تھا،ـ مگر ناب دان کی اونچائی و لمبائی کا فرق اور اس میں پانی کا حجم ایک جیسا نہ تھا۔ ـ چرخ بھی پن چکی والا تھا، مگر یہ دائیں سے بائیں کی بجا ئے اوپر سے نیچے کی طرف گھومتا تھا۔ـ شہتیر، تیر، پتن (چپو)، چرخ، بغارہ، ترونا (سٹینڈ) وغیرہ اس کے بڑے اوزار تھے۔شہتیرکا سن کر فوراً مجھے اپنے جانوروں کا پرانا طویلہ (غوجل) یاد آیا،ـ جس کے برآمدے کے گول شہتیرمیں سوراخ تھے اور والد مغفور، اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے، اسے پائیکو کا شہتیر کہتے تھے۔
نسوار کے پائیکو کی طرح تیر کے ایک سرے پر پتن تواتر سے چوٹ مارتا، دوسراخود بخود اُٹھتا اور نیچے بغارہ میں گرتا۔ـاسی طرح اس میں پڑے دھان سے پھوک (بھوسا) الگ ہوتا تھا۔ بغارہ میں تھوڑی مقدار پرال (دھان کی سوکھی گھاس) کی رکھی جاتی تھی، تاکہ کچلنے مسلنے کے دوران میں چاول کا دانہ ٹوٹنے سے بچ سکے۔ بغارہ کے قریب دو بندے (جو بعض اوقات خواتین ہوتیں) جھاڑوں یا ہاتھ کے ذریعے بکھرے پڑے دانوں کو واپس بغارہ میں ڈالتے تھے۔ یہ کام پرال کی شوئی یا لکڑی (پشتو میں تاپوڑہ) سے لیا جاتا تھا۔ جب دھان سے چھلکا نکلنے کا یقین خاص ہوجاتا، پھر اُسے ایک ایسے ہموار دالان میں جمع کیا جاتا جس پر پہلے سے گوبر کی لپائی ہوچکی ہوتی۔ جہاں محض ہوا کا انتظار ہوتا تھا،ـجوں ہی ہوا آتی، مرد یا خواتین چاول اور بھوسے کا ملغوبہ برتنوں میں اُٹھاتیں۔ اس طرح چاول نیچے زمین پر گرتاتھا اور بھوسے کو ہوا اُڑاکے لے جاتی۔
چھلنی اور چھاج کا استعمال بھی یہاں ہوتا۔ـ اب سارا چاول صاف ہوجاتا۔ـ بیسواں حصہ پائیکو والا الگ رکھتا۔ـ باقی غلہ مالک گھر لے جاتا، جو اُن کو یہاں کام کیے بغیر ملتا تھا۔ـ ساراکام تو بے چارہ پائیکو والا کرتا تھا۔ بقولِ جانان، پائیکو کا سارا کام آہن گر کے ذمہ تھا۔ ـ آخر میں جو ترونی (وہ بوری جو پوری طرح صاف نہ کی گئی ہو) رہ جاتی، بعض لوگ اُس میں ٹوٹے ہوئے چاول تلاش کرتے تھے۔ چاول کے ان قتلوں کو عرفِ عام میں ’’کھنڈے‘‘ (کھندوی) کہتے ہیں۔ ـچاول سے الگ کیے ہوئے چورے (بھوسا) میں بچے جلتی آگ ڈالتے تھے۔ پھر آگ کے اُس الاؤ میں مکئ کے دانے ڈال کر پکاتے تھے۔ ساتھ ہی وہ آگ تاپنے کے مزے بھی لیتے تھے۔ ـ
سوات میں شاید پائیکو کی تاریخ چاول جتنی پرانی ہے، ـ لیکن چاول کی کاشت تو آریاؤں کے زمانے میں ہوتی تھی، ـ تو کیا اُس زمانے میں پائیکو نامی مشین موجود تھی؟ اس بارے وثوق سے کہنا محال ہے۔
امجد علی سحابؔ نے اپنے دوست فضل خالق کو ایک جگہ کوٹ کرتے ہوئے رقم کیا ہے کہ چوکانڑ یا ورجلی بدھ مت دور سے اس علاقہ میں استعمال ہوتی خوراک ہے۔
لسانی توضیح سے بھی پتا چلتا ہے، مثلاً چوکا کسی ترش چیز یا کھٹا ساگ کو کہتے ہیں اور ساگ چوکانڑ کا لازمی جز ہے اور چاول بھی۔ ـ اس لیے سواتی عوام چوکانڑ یا ورجلی سے مہمانوں کی خاطر تواضع کرتے ہیں۔ مقامی باشندوں کی یہ مرغوب غذا ہے۔ ـ تبھی توسواتیوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ سواتے زوڑ شو، پہ وریجوموڑنہ شو۔ جب چاول کی اس قدر اہمیت تھی اور ہے، تو پائیکو جیسی محنت طلب اور صبر آزما مشین کے سخت کام کو بھی برداشت کیا جاتا تھا۔ اگر نہ کرتے، تو لونگئی، باسماتئی، گرڑہ، شگئ اور شرغہ چاول کون کھاتا؟ بیگمی چاول البتہ بعد میں متعارف ہوا۔
پائیکو مشین تقریباً ساٹھ ستر سال پہلے سوات کے بیشتر گاؤں میں صحیح وسالم حالت میں موجود تھی۔ ہمارے گاؤں میں سید خان، حسام الدین، سین پوڑے میاگان اور عبدالاحد پن چکی کے ساتھ ساتھ ایک ایک عدد پائیکو کے مالک تھے، لیکن گاؤں میں جب ڈیزل کا انجن متعارف ہوا، تو باقی گل اور خیراللہ عرف خیراتی حاجی صاحب مشترکہ اور شیرین حاجی صاحب نے ترنت مشینیں لگائیں۔ ـ لوگوں کا رجحان ان جدید مشینوں کی طرف بڑھا اور آہستہ آہستہ پائیکو مشینیں بند ہونا شروع ہوئیں۔ ـ بعد میں جب بجلی آئی، تو عبدالحکیم عرف سور حکیم، احمد صاحب اور محمد گل وغیرہ نے بجلی سے چلنے والی مشینیں لگائیں۔ اس عمل سے تو گویا پائیکو کا نام ونشان ہی مٹ گیا۔ـ بعد میں سوات کے تقریباً ہر گاؤں میں اس کا یہی حشر ہوا۔ ـ ایسا تو ہونا ہی تھا۔ کیوں کہ ہر نئی چیز پرانی چیزوں کی جگہ لیتی ہے۔ اس طرح انسان بھی ماضی سے سیکھتا چلا آیا ہے۔ اُس نے حال میں مستقبل کی راہیں ہموار کیں۔ـ کیوں کہ اُن کے لیے ماضی میں رہنا آسان نہیں ہوتا، لیکن ماضی کہ یادیں اتنی حسین ہوتی ہیں کہ جس طرح ہماری پائیکو میشن اور اس سے متعلق ہماری ثقافت تھی، جس طرح دستورِ زمانہ کے مطابق پرانی چیزوں کے نام اور کام تاریخ کا حصہ بنتا ہے، اُسی طرح پائیکو کاکام تو ویسے ہی مشکل تھا۔ـہر کوئی گل شہزادہ تھوڑاہی ہے جس نے چکی میں ٹربائین لگاکر بجلی پیدا کی تھی۔
قارئین، راقم کے خیال میں چاول کی جدید مشینیں بھی بند ہونے والی ہیں۔ وہ اس لیے کہ لوگ اب بہت تن آسان ہوگئے ہیں۔ اب وہ چاول کی کاشت کیوں کریں؟ بازار میں تیار چاول خریدنے کے عادی جو ہوگئے ہیں۔ رہی سہی کسر چائینہ قسم کے چاول کی مارکیٹ میں دست یابی کی وجہ سے پورا ہورہی ہے۔
شوکتؔ ہمارے ساتھ بڑا حادثہ ہوا
ہم رہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیا
……………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔