(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
مَیں سمجھتا ہوں کہ ریاستِ سوات کے قبل از انضمام دور کے بارے میں لکھتے ہوئے ہمیں معاشرتی اقدار اور کچھ اعلا طبقے کے خاندانوں کی طرزِ زندگی میں منفی تبدیلیوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
میرے ذاتی مشاہدات کے مطابق، سوات میں چند معروف شرابی تھے، جو زیادہ تر سَستی گھریلو شراب (ٹھرہ) پر انحصار کرتے تھے۔ کیوں کہ یہ بہت کم قیمت پر دست یاب تھی۔ ناٹے قد کا ایک موٹا شخص جو محلہ وزیر مال میں رہتا تھا، ٹھرے کو براؤن شگر، سیب اور دیگر اجزا سے تیار کرتا تھا۔ جب مَیں سکول میں تھا، ہمارے محلے میں ایک لڑکا، جو مجھ سے تقریباً 3 سال چھوٹا تھا، اپنے والد کے لیے یہ شراب لاتا تھا۔ وہ ایک ریاستی اہل کار تھا۔ ہم اس شخص کے دروازے پر دستک دیتے تھے۔ وہ باہر آتا، سڑک کا معائنہ کرتا اور پھر ایک بوتل گھر سے نکال لاتا۔ اس وقت اسے ’’ہاف‘‘ (Half) یا ’’آدھا‘‘ کہا جاتا تھا۔ اس کی قیمت صرف 2 روپے تھی اور یہ ایک بوتل دو دن تک چل جاتی تھی۔
ایک دن مَیں نے اسے سونگھ لیا۔ مجھے اس کی بُو بہت ناگوار لگی۔ جب مَیں نے جولائی 1961ء میں عملی زندگی میں قدم رکھا، تو مجھے آہستہ آہستہ معلوم ہوگیا کہ یہ برائی عام عوام سمیت، کچھ حلقوں میں ایک ’’سٹیٹس‘‘ کی علامت بن گئی ہے۔ اعلا عہدے دار اب بھی صاف ستھری زندگی گزار رہے تھے اور ایسی محفلوں سے دور ہی رہتے تھے۔ اس کی مقامی پیداوار، بہ ہرحال، عروج پر تھی اور سوات کے بعض دور دراز علاقوں میں پیداواری سرگرمیاں جاری تھیں۔ نئے متعارف شدہ ہائبرڈ سیب نے ٹھرے کی گھریلو پیداوار کو تجارتی پیمانے پر بڑھانے میں مدد کی۔
اگرچہ قانون اور ’’رواج نامہ‘‘ کے مطابق شراب، چاہے وہ مقامی طور پر بنائی گئی ہو یا سمگل شدہ ہو، ممنوع تھی۔ لیکن دو ایسی جگہیں تھیں، جہاں سے ’’سکاچ وِسکی‘‘ اور دیگر قیمتی برانڈز، جیسے ’’وائٹ ہارس‘‘، ’’کٹی سا‘‘، یا ’’بلیک لیبل‘‘ اور ’’شیواس ریگل‘‘ حاصل کرسکتے تھے، لیکن وہ عام آدمی کی دسترس سے باہر تھیں۔
1960ء کی دہائی کے آخر میں، ’’سپرٹ‘‘ کا استعمال واضح طور پر بڑھ گیا۔ سنجیدہ مذہبی لوگ یہ پیشین گوئی کر رہے تھے کہ اس سے پورے نظام اور ریاست کے لوگوں کی زندگی تباہ اور پریشان حال ہوجائے گی۔ اب آیا، بعد میں آنے والی تبدیلیاں اس برائی کا نتیجہ تھیں یا نہیں، یہ قابلِ بحث ہے۔ مَیں ذاتی طور پر اس پر یقین نہیں رکھتا۔ کیوں کہ اُس وقت یہ کوئی عام بات نہیں تھی۔ پوری آبادی کا زیادہ سے زیادہ دو فی صد حصہ اس لت کا شکار ہوا، جو کہ تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔
مختصراً، ہم یہ کَہ سکتے ہیں کہ معاشرتی اقدار میں تبدیلی آ رہی تھی، کچھ بہت تیزی سے اور کچھ بہت آہستہ۔ پہلے لوگ شرابیوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے، لیکن اس وقت وہ انھیں نظر انداز کرنے لگے تھے۔ سنہ 1963-64ء میں، مَیں یہ جان کر حیران ہوا کہ ایک ہندو دکان دار کے ساتھ اس کا کافی سٹاک موجود تھا۔
افسر آباد، سیدو شریف میں رہتے ہوئے، ہم نے بلا نوشی کے کئی مناظر دیکھے۔ ان میں کچھ بھیانک بھی تھے۔ بہ ہرحال، ایک شخص انکار کرسکتا ہے، لیکن یہ برائی وہاں موجود تھی، اگرچہ بہت کم سطح پر تھی۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا، یہ صرف دو فی صد تھی۔
ایک شام، مینگورہ کے مدین روڈ پر، مرکزی قبرستان کے قریب، جب ہم سوات سینما سے واپس آ رہے تھے، ہم نے سانولے رنگ کے ایک موٹے آدمی کو دیکھا، جو سڑک پر پوری طرح بے ہوش پڑا ہوا تھا اور شیر کی دھاڑ کی طرح خراٹے لے رہا تھا۔ لوگ اس پر پتھر پھینک رہے تھے، لیکن وہ کوئی ردِعمل ظاہر نہیں کر رہا تھا۔ وہ یعقوب مسیح تھا، اور حال ہی میں سوات اسٹیٹ پی ڈبلیو ڈی میں صفائی کے لیے بھرتی کیا گیا تھا۔
مَیں نے لوگوں سے درخواست کی کہ اُسے پتھر نہ ماریں، کیوں کہ وہ ایک عیسائی ہے۔ لوگ رُک گئے اور اپنے راستے پر چل دیے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔