ویسے تو ’’برائی‘‘ کی قوت کو پہلی مرتبہ ایک شخصیت اور ایک ہستی کی صورت ’’تورات‘‘ نے دی ہے، لیکن اس سے ذرا پہلے کے دور میں مجوسی یا زردشتی مذہب نے بھی اسے ایک شخصیت دی تھی، جس کا نام ’’انگرامینو‘‘ تھا اور عام طور پر ’’اہرمن‘‘ کہلاتا ہے، لیکن ابلیس کی بجائے اسے ’’شر کا خدا‘‘ کہا جاتا تھا۔
ژند اوویستا میں خدائے خیر آہورا مزدا (یزدان) نے سولہ ایسی آبادیوں کا ذکر ہے جسے یزدان نے آریاؤں یا مجوسیوں کے لیے بنایا تھا۔ نام بنام ان سولہ آبادیوں یا زمینوں کا ذکر کرتے ہوئے یزدان کہتا ہے کہ میری ہر اچھی زمین اور آبادی کے مقابل ’’اہرمن‘‘ نے شر کی زمینیں اور آبادیاں بنائیں۔
ژند اوویستا کی تفصیلات کے مطابق ان ’’خیر‘‘ والی زمینوں میں اہلِ خیر بستے تھے اور وہاں دنیا کی ساری نعمتیں یزدان نے انسانوں کو ودیعت کر رکھی تھیں، لیکن ان کے پہلو میں ’’اہرمن‘‘ کی بنائی ہوئی شری لوگوں کی بستیاں ان کو کبھی چین نہیں لینے دیتی تھیں۔
ژند اوویستا کے مطابق اہر من کی پیدا کی ہوئی ان خراب زمینوں میں ’’جن اور دیو‘‘ رہا کرتے تھے، جو اکثر اہلِ خیر کی بستیوں پر یلغار کرتے تھے، ان کو لوٹتے تھے، نذرِ آتش کرتے تھے اور ان کی عورتیں اٹھا کر لے جاتے تھے۔
ژند اوویستا کی کہانیوں میں اگر چہ بہت کچھ انسانی دست اندازی بھی ہوئی ہے، لیکن یہ مجموعی تاثر ان میں بالکل حقیقت ہے کہ انسانوں کے دو گروہ ہمیشہ ایک دوسرے کے مقابل رہیں گے اور اہلِ شر نے ہمیشہ اہلِ خیر کو ستایا ہے، تنگ کیا ہے، بے دخل کیا ہے اور تاخت و تاراج کیا ہے۔ اس کی زمینی اور طبیعاتی شہادتیں موجود ہیں۔ دنیا کے دیگر حصوں میں قدیم انسانی آبادیوں پر بعد میں ان جنگجو لوگوں کے قبضے بادشاہوں اور حکمرانوں کی صورت میں ہوگئے تھے۔ (سعد اللہ جان برقؔ کی کتاب پشتون اور نسلیاتِ ہندوکش مطبوعہ سانجھ پبلی کیشن صفحہ نمبر 196تا 197 سے انتخاب)