ضلع سوات کے علاقہ مدین میں مشتعل ہجوم نے توہینِ قرآن کا الزام لگا کر سیالکوٹ کے ایک سیاح کو پولیس کی تحویل سے زبردستی نکال کر تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد ہلاک کر دیا۔
سوشل میڈیا کی وساطت سے منظرِ عام آنے والی ہول ناک ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کیسے مشتعل ہجوم ایک شخص کو زمین پر لٹا کر مار رہا ہے۔ پھر اس کی نعش کو آگ لگا کر جلایا جاتا ہے۔
ایڈوکیٹ محمد ریاض کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/adv/
اس سانحے کے بعد سوشل میڈیا پر نت نئے تبصرے سننے اور دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ایک طرف اگر کئی افراد اس قتل کی تائید کرتے دِکھائی دیے، تو دوسری طرف اس واقعے کی پُرزور مذمت بھی ہوتی دیکھی گئی۔ اس طرح کئی عقل سے پیدل افراد اس سانحے کو مذہبی سے زیادہ صوبائی رنگ دینے کی کوششوں میں مصروفِ عمل نظر آئے۔
یاد رہے پاکستان میں توہین کے نام پر مشتعل ہجوم کی جانب سے قتل کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ ماضیِ قریب میں متعدد ایسے واقعات ہوچکے ہیں۔ خوش قسمتی سے لاہور اچھرہ بازار میں ایک خاتون توہین کے الزام میں سرِ بازار قتل ہونے سے بچ گئی تھی۔
گذشتہ ماہ سرگودھا میں قرآن کی توہین کا الزام لگائے جانے کے بعد مشتعل ہجوم نے نہ صرف ایک گھر اور کارخانے کو نذرِ آتش کیا، بل کہ ایک شخص کو بُری طرح تشدد کا نشانہ بھی بنایا ۔
اس سے قبل فروری 2023ء میں ننکانہ صاحب کے علاقے واربرٹن میں مشتعل ہجوم نے توہینِ قرآن کے الزام کا سامنا کرنے والے ایک شخص کو پولیس کی حراست سے چھڑوا کر ہلاک کر دیا تھا۔ صرف چند ماہ بعد اگست کے مہینے میں جڑانوالہ میں توہینِ قرآن کے الزامات کے بعد مسیحی آبادیوں پر حملے کے واقعات پیش آئے، جن میں مشتعل ہجوم نے 19 گرجا گھروں اور مسیحی عبادت گاہوں کے علاوہ 80 سے زائد مکانات کو آگ لگائی اور اُن میں توڑ پھوڑ کی تھی۔
اس طرح چند سال قبل سیالکوٹ شہر میں سری لنکن شہری بھی توہین کے الزام میں ہجوم کے ہاتھوں موت کا حق دار قرار پایا تھا۔
حیران کن طور پر توہینِ مذہب کے الزامات کا شکار نہ صرف غیر مسلم افراد ہوتے رہے ہیں، بلکہ متعدد مسلمان بھی توہینِ مذہب کے الزامات کی زد میں آئے ہیں۔ چند سال قبل ’’مشال‘‘ نامی یونیورسٹی کا طالب علم بھی مشتعل ہجوم کے ہاتھوں اللہ کو پیارا ہوگیا تھا۔
دیگر متعلقہ مضامین:
سوات، قرآنِ مجید کی مبینہ بے حرمتی، ایک قتل، تھانا اور گاڑیاں نذرِ آتش 
توہینِ رسالت کی سزا کے لیے عالمی قانون بنایا جائے 
نفرتوں کی لہلہاتی فصل  
سیاست میں مذہبی ٹچ  
مذہب کے نام پر سیاست……… نیک شگون نہیں 
کلمۂ طیبہ کے نام سے وجود میں آنے والی ریاست، جس کے آئین کی شروعات ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ سے ہوتی ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 1 کے مطابق مملکت کا نام اسلامی جمہوریۂ پاکستان رکھا گیا۔
آئین کے آرٹیکل 2 کے تحت دینِ اسلام کو ریاستی مذہب قرار دیا گیا۔
آرٹیکل 2A میں درج ہے کہ پاکستان ایک ایسی ریاست ہوگی جس میں اسلام کی طرف سے بیان کردہ جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور سماجی انصاف کے اُصولوں کی مکمل پابندی کی جائے گی اور جس میں مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگیوں کو اسلام کی تعلیمات اور تقاضوں کے مطابق ترتیب دیں، جیسا کہ قرآن و سنت میں بیان کیا گیا ہے۔ جس میں اقلیتوں کے لیے اپنے مذاہب کو ماننے اور اس پر عمل کرنے اور اپنی ثقافتوں کو آزادانہ طور پر ترقی دینے کے لیے مناسب انتظامات کیے جائیں گے۔
ایک ایسی مملکت جس میں توہینِ مذہب کے حوالے سے تعزیراتِ پاکستان کا مکمل باب نمبر 15 اور دفعات 295 تا 298 موجود ہیں۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایسی ریاست جس میں دینِ اسلام، شعائرِ اسلام، مقدس ہستیوں، مقدس کتاب، مقدس مقامات کے خلاف کی جانے والی گستاخیوں کے برخلاف مکمل قانون اور سزائیں تجویز ہیں، ایسی ریاست میں کسی فرد یا ہجوم کا توہینِ مذہب کا الزام لگاکر کسی بھی شخص کوعدالتی کارروائی کے بغیر قتل کردینا درحقیت دینِ اسلام کی تعلیمات کی نفی ہے۔
ہمار ا دین اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتا کہ کسی بھی فرد کو بغیر عدالتی کارروائی کے سزا سنانے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل بھی کردیا جائے۔
اسی طرح آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 9 کے مطابق کسی شخص کو زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا جب تک قانون اس کی اجازت نہ دے۔ آرٹیکل 10 کے مطابق کسی بھی شخص جس کو گرفتار کیا گیا ہو، اُسے کسی گرفتاری کی وجوہات کے بارے میں بتائے بغیر حراست میں نہیں رکھا جائے گا اور نہ اُسے اپنی پسند کے قانونی ماہر سے مشورہ کرنے اور اس کا دفاع کرنے کے حق سے انکار کیا جائے گا۔
آرٹیکل 10A کے تحت پاکستان کا ہر شہری اپنے خلاف کسی مجرمانہ الزام میں منصفانہ مقدمے اور مناسب کارروائی کا حق دار ہوگا۔ قانون کے طالب علم کے طور پر مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے کسی بھی شہری یا ہجوم کو خود ساختہ عدالت لگانے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ خدا نہ خواستہ اگر کسی جگہ توہینِ مذہب جیسی ناقابلِ معافی حرکت ہوگئی ہو، تو قانون کو اپنا راستہ بنانے دیں اور بہ طورِ گواہ ملزم کے خلاف عدالتی کارروائی کا حصہ بن کر قرار واقعی سزا دلوائیں۔ دینِ اسلام کے ساتھ یہ کیسی محبت اور عشق ہے کہ کسی بھی شخص کو ہجوم کا حصہ بن کر قتل کر دیا جائے۔ پھر جب قانون حرکت میں آتا ہے، تو یہی نام نہاد عاشق گرفتاری اور سزا سے بچنے کے لیے روپوش ہوجاتے ہیں۔ کیوں کہ یہ نام نہاد عاشق سرِ عام میڈیا کے سامنے آکر گرفتاری نہیں دیتے۔
وحشت، عدم تشدد اور عدم برداشت…… ایسے ماحول کے خاتمے کے لیے علمائے کرام کو بھی آگے آنا پڑے گا۔
میری نظر میں ریاستِ پاکستان کو آگے بڑھ کر مملکت اور مملکت کے باشندگان کی حفاظت کی خاطر اور جنگل کے قانون ایسی صورتِ حال کے برخلاف سخت ترین اقدامات کرنا ہوں گے۔ تاکہ خدانہ خواستہ مستقبلِ قریب میں جلیل حیدر لاشاری کے یہ اشعار کسی اور کا مقدر نہ بن جائیں کہ
کیسی بخشش کا یہ سامان ہوا پھرتا ہے
شہر سارا ہی پریشان ہوا پھرتا ہے
جانے کب کون کسے مار دے کافر کَہ کے
شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔