مسلم لیگ (ن) کا مقدس اداروں پر حملہ آوری کا وطیرہ بہت پرانا ہے۔ عدالتیں جب بھی کوئی فیصلہ اس کی منشا اور خواہش کے مطابق نہیں دیتیں، تو یہ جماعت عدلیہ کے مقدس ادارے پرحملہ آور ہوجاتی ہے۔
1998ء میں سپریم کورٹ پر حملہ کو کوئی کیسے فراموش کرسکتا ہے؟ میاں محمد شہباز شریف کی راہ نمائی میں چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کے خلاف جو سازش تیار ہوئی، وہ ابھی تک محبانِ آئین و قانون کے اذہان میں زندہ ہے۔ جس دن سپریم کورٹ پر حملہ ہوا، اُس دن چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کا بنچ میاں محمد نواز شریف کے خلاف تاریخی فیصلہ صادر کرنے والا تھا۔ وہ فیصلہ چوں کہ میاں برادران کی سیاست پر خطِ تنسیخ پھیرنے کے مترادف تھا، لہٰذا مسلم لیگ (ن) کو قبول نہیں تھا۔ حملہ تو ہونا ہی تھا، سو وہ ہوا اور سید سجاد علی شاہ کوبھاگ کر اپنے چیمبر میں اپنی جان بچانی پڑی اور اس طرح ممکنہ فیصلہ وقت کی دھول میں گم ہوگیا۔
جسٹس رفیق احمد تارڑ کی سربراہی میں سید سجاد علی شاہ کے خلاف سینیارٹی کا ایشو بناکر اُنھیں چیف جسٹس کے عہدے سے فارغ کر دیا گیا۔ میاں محمد نواز شریف کے حکم پر نئے چیف جسٹس کا تعین ہوا اور جسٹس رفیق تارڑ کو اپنی اعلا حکمتِ عملی کے باعث سردارفا روق احمد خان لغاری کے استعفے کے بعد نئے صدرِ پاکستان کی مسند پر جلوۂ افروز کیا گیا۔ تارڑ خاندان سے میاں برادران کی محبت اسی تھیوری سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ پرانی محبت ہے جو دوبارہ سرگرمِ عمل ہے۔ اُس وقت بھی تارڑ خاندان سرگرمِ عمل تھا اور آج بھی متحرک ہے۔ دونوں سازشوں کا مقصد عدلیہ کومیاں برادران کے سامنے جھکانا تھا، سو وہ ہوا۔ سازشیوں نے سازشیں ہی کرنی ہوتی ہیں۔ یہ الگ بات کہ سازش ہمیشہ پکڑی جاتی ہے اور تاریخ اسے دُہراتی رہتی ہے اور پھر ایک دن سازش کرنے والوں کو ہی خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔
عمران خان کے دورِ حکومت میں مریم نواز کے خلاف احتساب عدالت میں ایک مقدمہ دائر تھا اور مریم نواز کی عدالت میں پیشی تھی۔ اُس پیشی کے موقع پر مسلم لیگ (ن) کے ورکروں نے سنگ و خشت کی بارش سے احتسا ب عدالت کو اُڑا کر رکھ دیا تھا۔احتساب عدالت کا جج بھاگ کھڑا ہوا۔ یوں عدالتی کارروائی ختم ہو گئی اور مریم نواز کی فائل بند ہوگئی۔ اس مقدمے کی بعد میں کوئی تاریخ پڑی اور نہ کوئی نیا نوٹس ہی جاری ہو ا۔ پتھروں کی بارش سے احتساب عدالت میں کون حاضر ہو کر اپنی جان کاخراج دے گا؟ سارے عاملین دُبک کر بیٹھ گئے اور کارروائی غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی ہوگئی جو آج تک ملتوی ہے۔ سنگ باری کے دل کش مناظر پوری قوم نے چند سال قبل ٹیلی وِژن کی سکرینوں پر دیکھے تھے۔
آج وہی احتساب عدالتیں عمران خان اور اُس کی بیوی بشریٰ بی بی کے خلاف سر گرمِ عمل ہیں اور مسلم لیگ (ن) سزائیں سنانے کامطالبہ کر رہی ہے۔ حالاں کہ اپنی باری پر عدالت پر پتھروں سے حملہ کیا گیا تھا۔ پوری دنیا کو علم ہے کہ یہ سارے مقدمات جھوٹ کا پلندا ہیں اور عمران خان کو نیچا دکھانے کے لیے بنائے گئے ہیں، لیکن عمران خان نے بھی قسم کھا رکھی ہے کہ وہ فسطائی ہتھکنڈوں سے خائف نہیں ہوگا۔وہ اُن کے سارے وار اپنے سینے پر کھائے گا اور اُنھیں بتائے گا کہ ظلم و جبر کا مقابلہ یوں بھی کیا جاتا ہے۔
حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا
ٹوٹے بھی جو تارا تو زمیں پر نہیں گرتا
گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا
محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف 1990ء میں میاں برادران نے عدمِ اعتماد کی تحریک پیش کی۔ اُسامہ بن لادن اس تحریکِ عدمِ اعتماد کے روحِ رواں تھے اور اُنھوں نے اس عدمِ اعتماد کو کام یاب بنانے کے لیے اَربوں روپے کے فنڈز میاں محمد نواز شریف کے حوالے کیے تھے۔ نواز شریف اُس وقت پنجاب کے وزیرِ اعلا تھے۔ اُن کا کام پی پی پی کے خلاف سازشوں کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ ’’عورت کی حکم رانی‘‘ کے نعرے پر علمائے کرام بھی نواز شریف کے ہم زُباں تھے۔ پولیس کے ذریعے ممبران کو اِغوا کیا گیا، اُنھیں گھروں سے اُٹھوایا گیا، چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا۔ بولیاں لگیں۔ خزانوں کے منھ کھول دیے گئے۔ قومی خزانے سے کروڑوں روپوں کی ادائیاں کی گئیں۔ لوگوں کے ضمیر خریدے گئے۔ بہ زورِ جبر چند ووٹ بھی ہتھیالیے گئے، لیکن تحریک پھر بھی چند ووٹوں سے ناکام ہوگئی۔ کیوں کہ یہ بد نیتی پر مبنی تھی۔ 11 سالہ قید و بند کی صعوبتیں سہہ کر اقتدار کی مسند پر جو شخصیت (بی بی شہید) جلوہ افروز تھی، میاں برادران کو وہ پسند نہیں تھی۔ اس لیے اسے اقتدار سے ہٹا نا ضرور ی تھا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کا قصور صرف یہی تھا کہ دنیائے سیاست کے سارے بڑے نام اُسے اُس کی عظیم جمہوری جد و جہد پر سرآنکھو ں پر بٹھاتے تھے، جو میاں برادران کو انتہائی ناگوار گزرتا تھا۔ عالمی سیاست میں میاں برادران، بی بی شہید کی بے مثال جمہوری جد و جہد اور علمی وجاہت کا مقابلہ کہاں کرسکتے تھے؟ لہٰذا کردار کُشی ضروری تھی اور اُنھوں نے جی بھر کر کی۔
محترمہ بے نظیر بھٹو عدمِ اعتمادکی شمشیر سے تو بچ گئیں، لیکن 6 اگست 1990ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکو مت کو کرپشن کے الزامات کے تحت صدر غلام اسحاق خان نے برخاست کر دیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے بڑی دُہائی دی کہ 11سالہ جیلوں کو برداشت کرنے والی بے نظیر کاکرپشن سے کیا لینا دینا؟ لیکن اس کی دُہائی صدا بہ صحرا ثابت ہوئی۔ محترمہ کے خاوند آصف علی زرداری کو گرفتار کر کے جیل کی آہنی سلاخوں کے پیچھے پھینک دیا گیا اور پھر
گلیاں ہو گیاں سونیاں وچ مرزا یار پھرے
کے مصداق پی پی پی جنرل ضیاء الحق کی فسطائیت کے بعد ایک دفعہ پھر ریاستی جبر کا نشانہ بنی اور دھاندلی شدہ انتخابات میں نواز شریف کو بزورِ بازو وزارتِ عظمیٰ پر فائض کر دیا گیا۔ مارچ 1993ء میں غلام اسحاق خان اور میاں محمد نواز شریف کی باہمی سر پھٹول کے بعد صدر غلام اسحاق خا ن نے کرپشن اور ملکی خزانے کو لوٹنے کے الزام پر نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کر دیا۔ جنر ل ضیاء الحق کے چہیتے ججوں نے نواز شریف کی حکو مت بہ حال کر دی، لیکن اپریل 1993ء میں اسمبلی کو ایک بار پھر تحلیل کردیا گیا۔ نئے انتخابات میں پی پی پی ایک فاتح بن کر سامنے آئی، لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو کو حکومت پھر بھی کرنے نہ دی گئی۔ ان کے جواں سال بھائی میرمرتضیٰ بھٹو کے ستمبر 1996ء میں دن دھاڑے قتل کے بعد اُن کے اپنے منتخب صدر سردار فاروق احمد خان لغاری نے نومبر 1996ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو تحلیل کر دیا۔ بس اس کے بعد محترمہ کی زندگی سے سکھ اور چین کا باب بند ہوگیا۔ بھائی کا قتل اور خا وند کی گرفتاری کے بعد محترمہ نے متحدہ عرب امارات میں جَلا وطنی اختیار کرلی اور یہی وہ جگہ ہے، جہاں مجھے اُن کے قریب آنے کا موقع نصیب ہوا۔
اِس وقت سازشوں کے سر غنہ ایک دفعہ پھر آئین و قانون اور جمہوریت کے خلاف حرکت میں ہیں اور اُنھیں اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی ساری زندگی جمہوری جد و جہد کی منھ بولتی تصویر ہے۔ اس نے عوامی حمایت ہونے کے باوجود بے شمار سازشوں کا مقابلہ کیا، لیکن کبھی ہتھیار نہیں ڈالے۔ بی بی شہید کی راہ میں کانٹے بونے والوں کی پشت پر اسٹیبلشمنٹ کی اندھی قوت ہوا کرتی تھی، لیکن بی بی شہید نے پھر بھی آئین و قانون کی جنگ سے منھ نہ موڑا۔ آج کل اِک طُرفہ تماشا ہے کہ بی بی شہید کا اپنا خون آئین سے کھلواڑ کرنے والوں کی زبان بول رہا ہے۔ اُسے یاد نہیں رہا کہ بی بی شہید نے ضیاء الحق کے منھ بولے بیٹے کے ہاتھوں کیسے کیسے گہرے زخم کھائے تھے اور کیسی کیسی تکالیف اٹھائی تھیں؟
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔