الیکشن کمیشن نے تحریکِ انصاف کی حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کو الاٹ کرنے کے حوالے سے قرار دیا کہ جماعت کو یہ نشستیں نہیں مل سکتیں اور اب یہ نشستیں ایوان میں موجود دیگر سیاسی جماعتوں میں بانٹ دی جائیں گی۔
ایڈوکیٹ محمد ریاض کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/adv/
انتخابی نشان سے محرومی کے سفر نے پاکستان تحریکِ انصاف کو بالآخر قومی و صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور غیر مسلم افراد کے لیے مخصوص نشستوں سے محرومی تک پہنچا دیا۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ فیصلہ نے پی ٹی آئی میں صفِ ماتم بچھا دی ہے۔ پی ٹی آئی اس فیصلے کے خلاف یقینی طور پر سپریم کورٹ پر دستک دے گی۔ قومی امکان ہے کہ سپریم کورٹ باقی ماندہ مخصوص نشستوں کی پی پی پی، مسلم لیگ ن سمیت دیگر پارلیمانی جماعتوں کو الاٹمنٹ حکم عدالتی فیصلہ تک رُکوادے اوراگر بالفرض سپریم کورٹ بھی الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھتی ہے، تو قانون و سیاست سے وابستگی رکھنے والے ہر پاکستانی شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ یہ سوال اُٹھائے کہ پی ٹی آئی کو اس صورتِ حال میں پہنچانے کا ذمے دار کون ہے؟ اپنی گذشتہ معروضات ’’اندر شیر باہر ڈھیر‘‘ اور ’’سپریم کورٹ فیصلہ کے 20 نِکات‘‘ میں چند حقائق پر روشنی ڈالی تھی کہ جماعت پی ٹی آئی نووارد افراد کے ہاتھوں یرغمال ہوچکی ہے، جس کی بہ دولت جماعت کو سیاسی عدم فیصلہ سازی کے ساتھ ساتھ آئینی و قانونی ہر محاذ پر مشکلات کا سامنا ہے۔
پارٹی کی موجودہ قیادت کی اکثریت سیاسی افراد کی بجائے وکلا حضرات پر مشتمل ہے، مگرافسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ایسے سینئر اور فاضل وکلا کے ہوتے ہوئے بھی ہر آئینی و قانونی محاذ پر پی ٹی آئی کو منھ کی کھانی پڑ رہی ہے۔ جماعت کی موجودہ قیادت ٹی وی چینلوں کے کیمروں کے سامنے بڑھکیں مارتے دکھائی دیتی ہے، جب کہ کمرائے عدالت میں یہ افراد آئینی و قانونی سوالات کے جوابات دینے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ ان فاضل وکلا کو انتخابی نشان کے متعلق الیکشن ایکٹ 2017ء کے باب نمبر 12 اوراس میں درج دفعات 214 تا 21 8اور مخصوص نشستوں کے متعلق آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 51 اور آرٹیکل 22 4(6) کے ساتھ ساتھ الیکشن ایکٹ کے باب نمبر 7 اور اس کی دفعہ 104 اور الیکشن رولز 2017ء کی دفعات 92 اور 94 کا مطالعہ کرنے سے کس نے روکے رکھا تھا؟ ان دفعات میں واضح طور پر درج ہے کہ مخصوس نشستیں صرف اس سیاسی جماعت کو الاٹ کی جاتی ہیں، جو سیاسی جماعت اپنے انتخابی نشان کے تحت انتخابات میں حصہ لے کر اسمبلیوں تک پہنچے۔ اس سے زیادہ اور کیا مضحکہ خیز بات ہوگی کہ خود سنی اتحاد کونسل کے امیدواروں نے قومی یا صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں بہ طورِ جماعت حصہ نہیں لیا اور حد تو یہ ہے کہ سنی اتحاد کونسل کے پارٹی چیئرمین صاحب زادہ حامد رضا نے پارٹی نشان کی بہ جائے بطورِ آزاد امیدوار الیکشن میں حصہ لیا تھا۔ کیا پی ٹی آئی کے فاضل وکلا نے اپنے آزاد ممبرانِ اسمبلی کے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت سے پہلے آئین و قانون کی دفعات کے مطابق معاملات کو پرکھ لیا تھا، یا پھر شمولیت اختیار کرنا صرف جذباتی فیصلہ تھا؟ کیا پی ٹی آئی قیادت نے شمولیت سے پہلے سنی اتحاد کونسل قائدین سے یہ پوچھا تھا کہ ان کی جماعت نے جنرل سیٹوں پر امیدواران کے کاغذاتِ نام زدگی جمع کرنے کی تاریخ تک خواتین و غیر مسلم مخصوص نشستوں کی فہرست الیکشن کمیشن میں جمع بھی کروائی ہے یا نہیں؟ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 104 کے مطابق مخصوص نشستوں کی فہرست اسی تاریخ تک جمع کروانا لازم ہے، جس تاریخ تک جنرل نشستوں کے لیے امیدوار اپنے کاغذاتِ نام زدگی جمع کرواتے ہیں۔
دیگر متعلقہ مضامین:
مخصوص نشستوں کا حصول
کیا عمران خان دوسرے بھٹو بننے جا رہے ہیں؟
مریم نواز شریف کا نیا روپ
نواز شریف کو اس بار بھی اسٹیبلشمنٹ لے ڈوبی
اہنے وہ کام جو پیپلز پارٹی کیش نہ کراسکی
یاد رہے الیکشن شیڈول کے مطابق تمام سیاسی جماعتوں کو کاغذاتِ نام زدگی جمع کروانے کے لیے 22 دسمبر کی ڈیڈلائن دی تھی، جسے بعد میں 24 دسمبر تک بڑھا دیا گیا تھا۔ اس دفعہ کے مطابق کاغذاتِ نام زدگی کی آخری تاریخ کے بعد ان فہرستوں میں کسی صورت رد و بدل نہیں کی جاسکتی۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کرہ حکم نامے میں بہت ہی اہم قانونی ضرب المثل کا ذکر کیا گیا ہے کہ "Law is for the vigilant not the indolent.” سادہ الفاظ میں اس کا مطلب ہے کہ یہ طے شدہ بات ہے کہ قانون چوکس شخص کی مدد کرتا ہے نہ کہ بے خبر/ بے وقوف شخص کی۔ پی ٹی آئی انتخابی نشان اور مخصوص نشستوں سے محرومی کو ریاستی جبر کا نام دیں یا کچھ اور۔ لیکن اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ پی ٹی آئی جماعت آج تک اپنے ہی بانی رکن اکبر ایس بابرسے جان نہ چھڑا سکی۔ ہائیکورٹس او ر سپریم کورٹ جیسے اعلا ترین عدالتی فورم پر اکبر ایس بابر نے پارٹی میں نووارد افراد کو شکست سے ہم کنار کیا۔ حیرانی کا پہلو یہ ہے کہ اتنے سینئر اور فاضل وکلا جو سیاست کے میدان میں فتح یاب ہوکر خود تو قومی اسمبلی میں پہنچ چکے ہیں، مگر پارٹی کو آئینی و قانونی محاذوں پر شکست سے بچا نہ سکے۔
بحیثیتِ قانون کے طالب علم مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ آئین و الیکشن قوانین کی روشنی میں حقائق پر مبنی ہے اور الیکشن کمیشن کا مخصوص نشستوں کا حکم نامہ سپریم کورٹ میں بھی برقرار ہی رہے گا۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ سنی اتحاد کونسل کی بجائے اسمبلیوں میں ان جماعتوں میں شمولیت اختیار کی جاتی، جن کی اسمبلی میں موجودگی ثابت ہوچکی تھی جیسا کہ مجلسِ وحدت المسلمین پاکستان یا مسلم لیگ ضیا، تو یقینی طور پر مخصوص نشستوں کے حصول میں اس طرح رسوا نہ ہونا پڑتا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ انتخابی نشان اور مخصوص نشستوں سے محرومی کی ذمے دار خود پی ٹی آئی لیڈرشپ ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔